امراؤ جان ادا کا خلاصہ
امراؤ جان ادا اردو کا وہ پہلا ناول ہے جوفن کی کسوٹی پر پورا کھرا اترتا ہے۔ بعض ناقدین کے مطابق امراؤ جان ادا سر فراز حسین عزمی کے ناول ” شاہد رعنا سے ماخوذ ہے۔شاہد رعنا 1897ء میں لکھا گیا اور امراؤ جان ادا اُس کے دو سال بعد 1899ء میں لکھا گیاپرو فیسر یوسف سرمست کے مطابق ” رسوا نے امراؤ جان ادا کی ہر بات شاہد رعنا سے اخذ کی ہے۔امراؤ جان ادا کا موضوع علی عباس حسینی اور بعض دوسرے ناقدین امراؤ جان ادا کا موضوع ” طوائف کو قرار دیتے ہیں۔ خورشید الاسلام اور اختر انصاری کے نزدیک امراؤ جان ادا کا موضوع ”لکھنو کا معاشرتی زوال ہے۔پروفیسر یوسف سرمست کے مطابق یہ دونوں باتیں درست نہیں ، امراؤ جان ادا کا موضوع نہ صرف لکھنو کی معاشرت ہے اور نہ صرف طوائف ہے بلکہ اس کا موضوع ” لکھنو کی معاشرت میں گھری ہوئی طوائف" ہے۔
امراؤ جان فیض آباد کے ایک شریف خاندان کی لڑکی تھی ۔ امراؤ کا نام اصل میں امیرن تھا۔ امیرن کے باپ جمعدار تھے۔ جمعدار بڑے دیانت دار اور شریف انسان تھے ۔ ایک مرتبہ انہوں نے ایک غنڈے، بد معاش دلاور خاں کے بارے میں سچی گواہی دی ، جس کی بنا پر اسے بارہ (12) سال کی سزا ہو گئی ۔ قید سے چھوٹنے کے بعد اس نے جمعدار سے بدلہ لینے کے لیے ان کی آٹھ (8) سالہ بچی امیرن کو اغوا کر لیا۔ دلاور خاں امیران کو قتل کرنا چاہتا تھا۔ دلاور خاں نے اپنی دوست پیر بخش کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے قتل کرنے کے بجائے لکھنو میں ایک نائکہ خانم جان کے ہاتھوں سوا سو روپیہ کے عوض امیرن کو فروخت کر دیا۔
خانم نے امیران کو امراؤ جان بنا دیا ۔ رقص و موسیقی کی تعلیم دی۔ آداب محفل سکھائے ۔ دلربائی اور عشوہ گری کے سارے ٹر سکھائے ۔ یہاں امراؤ کے علاوہ خانم کی اکلوتی بیٹی بسم اللہ جان ، خورشید جان، امیرن، جان، اور بریگا جان بھی رہتے تھے ۔ اور ایک ادھیڑ عمر کی بواحسینی بھی تھیں ۔ بواحسینی اور خانم جان دونوں نا لگا ئیں تھیں ۔ بوا حسینی کے توسط سے ایک اور کردار گو ہر مرزا بھی اس چکلے میں داخل ہوتا ہے۔
گو ہر مرزا نہایت چنچل اور شوق لڑکا تھا۔ امراؤ اکثر اس کی شرارتوں کا نشانہ بنتی تھی ۔ آخر تنگ آکر امراؤ ، مولوی صاحب سے گو ہر مرزا کوسزا بھی دلواتی اور پھر رحم بھی کھاتی ہے۔ اس چکلے پر آنے والے سب بگڑے ہوئے اور زوال آمادہ معاشرے کے رئیس، نواب زادے تھے لو گو ہر مرزا کی امراؤ جان سے بے تکلفی جب حد سے گزرگئی تو امراؤ جان کے گرفتاروں میں نواب سلطان مرزا شامل ہوئے ، جنہیں امراؤ جان دل و جان سے چاہنے لگتی ہے مگر یہاں کوئی کسی کا نہیں ہوتا ۔
نواب سلطان کے بعد ایک ڈاکو فیض علی (فیضو ) امراؤ جان کو خانم کے گھر سے لے اُڑتا ہے۔ راستے میں فیضو اور اس کے ساتھیوں کو دوسرے ڈاکو گھیر لیتے ہیں۔ فیضو ، امرؤ جان کو چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔ ان لوگوں کے فرار ہونے کے بعد امراؤ جان کا نپور پہنچ جاتی ہے۔ کانپور میں اس کی ملا قات رام دئی ( بیگم نواب سلطان ) سے ہوتی ہے۔ جس کی قسمت پر امر اور شک کرنے لگتی ہے۔
خانم ( جس نے امیرن کو خریدا تھا) کے لوگ کا نپور پہنچ کر امرؤ کو واپس لکھنؤ لے جاتے ہیں۔ لکھنو میں جب غدر ہوا تو امراؤ جان شاہی دربار سے متعلق تھی لیکن انگریزوں نے جب انقلاب کو تتر بتر کر دیا تو امراؤ جان بھی لکھنو چھوڑ کر فیض آباد پہنچ گئی۔ یہاں بھی امراؤ نے بہت شہرت حاصل کی ۔ اتفاقاً ایک دن وہ خود اپنے گھر مجرے کے لیے بلوائی گئی ۔ امراؤ کی ماں نے اسے پہچان لیا اور دونوں گلے مل کر خوب روئیں ۔ امراؤ کا بھائی غصے کی حالت میں اسے قتل کرنے آگیا مگر جب امراؤ جان کی حقیقت معلوم ہوتی ہے تو وہ اسے چھوڑ کر چلا جاتا ہے۔
امراؤ جان پھر لکھنؤ چلی آتی ہے اور اپنے فن سے شہرت حاصل کرتی ہے۔ اسی اثنا میں لکھنو کے ایک نواب محمود علی خاں نے دعویٰ کیا کہ امراؤ جان اس کی بیوی ہے ۔ اس مصیبت کے وقت اکبر علی خان امراؤ کے کام آتا ہے اور امراؤ کو چھٹکارہ ملتا ہے۔ تین سال امراؤ ، اکبر علی خان کے گھر رہی۔ ایک دن درگاہ میں امراؤ کی ملاقات رام دئی سے ہوئی اور یہ راز کھلا کہ نواب سلطان کی بیوی ہے جن سے امراؤ کوکسی زمانے میں اولہا نہ عشق تھا۔ اکبر علی خاں کے گھر سے نکل کر امراؤ نے اپنے طور پر کاروبار شروع کیا۔
ایک دن اپنے ساتھیوں کے ساتھ " بخشی کے تال پر سیر کرنے گئی وہاں درختوں کے جھنڈ میں اس نے دیکھا کہ دلاور خان کھرپی سے کچھ کھود رہا ہے ۔ پولیس کو اطلاع دی۔ دلا ور ان گرفتار ہوا اور کوئی دو مہینے بعد اسے پھانسی ہوگئی۔ آخر عمر میں امراؤ جان تائب ہو کر یا د خدا میں باقی زندگی گزارنے لگی ۔
0 comments:
Post a Comment