ولی دکنی کی غزل گوئی
میر اقبال
اردو شاعری میں ولی کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ انھیں اردو شاعری کا بابا آدم کہا گیا ہے۔ اردو شاعری میں اولیت کا تاج ولی کے سر جاتاہے۔ شمالی ہند میں اردو شاعری کاچر چاولی کا رہین منت ہے۔ اس لئے میر نے باشندہ دکن کو فرط محبت سے معشوق کہہ کر یا د کیاہے اور جس کے کلام نے خود میر کے لفظوں میں انھیں ریختہ گوئی پر مائل کیا؎
خوگر نہیں کچھ یوں ہی ہم ریختہ گوئی کے
معشوق جو تھا اپنا باشندہ دکن کا تھا
پیش نظر شعر سے ی میر نے یہ واجہ کیا کہ ولی کا تعلق دکن سے تھا ۔ولی ۱۷۰۰ء میں دہلی آئے اور ادبی محفلوں میں عوامی زبان میں کہے گئے اپنےاشعار سنائے تو اہلِ محفل کو ایک مسرت آمیز حیرت ہوئی کہ جس زبان کو وہ کمتر سمجھتے تھے اورریختہ کے نام سے پکارتے تھے اس زبان میں ایسی شاعری بھی ممکن ہے۔ ولی اُردو ادب کی روایت جدید کے معمار اول ہیں۔ وہ ایک باشعور شاعر اور اپنے پیش رووں میں سب سےآگے ہیں۔ ان کے کلام سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ علمی استعداد کے بھی حامل تھے۔ ولی کی اولیت و اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے ایک زبان کو دوسری زبان سے ایسا بے معلوم جوڑ لگایا کہ آج تک زمانے نے کئی پلیٹیں کھا ئیں نگر پیوند میں جنبش نہ آئی۔
انھوں نے نہ صرف فارسی تیرا کیب کو اپنے کلام میں جگہ دی بلکہ نئی تراکیب تلاش کر کے ایک نیا رنگ بھی دیا اسی بنا پرولی وہ پہلے شاعر ہیں جن کے شاعرانہ مزاج کو کلاسیکل کہا جاتا ہے۔ ولی نے اپنی متوازن طبیعت سے فارسی ، دکنی اور شمال کی زبان کو اس طرح ملا کر ایک کر دیا کہ وہ علاقائی سطح سےبلند ہو کر ہمہ گیر ہوگئی ۔ اسی وجہ سے ولی کو اُردو شاعری کا باوا آدم کہا جاتا رہے گا ۔
ولی کو اردوشاعری کے ساتھ وہی نسبت ہے جو چا سر کو انگریزی شاعری کے ساتھ ہے ۔شاعر کی حیثیت سے ولی کا مرتبہ بلند ہے۔ادبی وفکری معیاروں کو اپنی شاعری میں سمو یا بلکہ بیان کی لذت اور زبان کی تعمیر کا اعجاز بھی دکھایا۔ تصوف اس زمانے کی فکری اور اخلاقی بلندی کا معیار تھا۔ ولی نے اس مسلک کو نہ صرف اپنی زندگی میں برتا بلکہ اپنی شاعری میں بھی اس خوبی سے اظہار کیا کہ ان سے پہلے کسی نے اُردو میں اتنی کامیابی سے نہیں برتا تھا۔ دنیا کی بے ثباتی اور زندگی کی بے اعتباری وغیرہ کے بھی مضامین ولی کے یہاں بہت خوبی اور ایک جذبے کے ساتھ بندھے ملتے ہیں۔اسی ضمن میں اشعار ملاحظہ ہوں؎
عیاں ہے ہر طرف عالم میں حسنِ بے حجاب اس کا
بغیر از دیدحیراں نہیں جگ میں نقاب اس کا
حسن تھا پردہ تجرید میں سب سو ں آزاد
طالب عشق ہوا پردہ انسان میں آ
تصوف میں قرب الہی کا واحد ذریعہ عشق ہے۔ اس لئے اس زمانے میں عشق کاچلن عام طور پر ملتا ہے۔ چونکہ ولی بھی ایک صوفی مشرب آدمی تھے اس لئے انھوں نے بھی عشق بازی کرنا اپنا خاص مسلک قرار دیا بلکہ یہاں تک کہہ دیا کہ؎
طریقہ عشق بازاں کا عجب نادر طریقہ ہے
جو کوئی عاشق نہیں اُس کو مسلماں کر نہیں گنتے
ولی کی شاعری میں جمالیاتی احساس بہت گہرا ہے۔ بنیادی طور سے وہ صوفیانہ مزاج رکھتے تھے مگر اشعار میں جو چیز انھوں نے پیش کی ہے اس میں اُن کا تجربہ بھی شامل ہے جس میں بلا کی رنگینی اور دلکشی ہے ۔مثال کے طو ر پر یہ شعر ملاحظہ فرمائیں؎
آغوش میں آنے کی کہاں تاب ہے اسکوں
کرتی ہے نگہ جس قد نازک پہ گرانی
ان کے رچے ہوئے جمالیاتی احساس نے ان کو اردو غزل کا سب سے بڑا پیکر بنا دیا۔ محبوب کے سراپے کو انھوں نے ہر جگہ ایک نئے انداز اور نئے لطف کے ساتھ پیش کیا ہے۔ لیکن خوبی یہ ہے کہ کہیں تکر ار نہیں پیدا ہوتی ۔اسی ضمن میں اشعار ملاحظہ ہوں؎
خوش قداں دل کو بند کرتے ہیں
نام اپنا بلند کرتے ہیں
گر ہے مطلوب تجھ کو نقش مراد
دیکھ اس کی بھواں کی چیں کی ادا
ولی کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ان کی شاعری میں نشاطیہ عنصر موجود ہے ۔ ان کے نشاطیہ مذاق کی تشکیل میں اس زمانے کے خارجی حالات کا کافی حصہ ہے کیونکہ ولی کے زمانے میں روز مرہ کی زندگی میں وہ انتشار اور بے سروسامانی کی کیفیت نہیں پیدا ہوئی تھی جو بعد میں میر کے بعد تھی ۔ ڈاکٹر سید عبداللہ نے ولی کی اسی خصوصیت پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ؎
ولی کا امتیاز خاص یہ ہے کہ وہ اُن مخصوص چند شاعروں میں ہیں جن کی غزل بلکہ سارے کلام کو پڑھ کرغم کی کیفیت پیدا ہونے کے بجائے طبیعت پر شگفتگی طاری ہو جاتی ہے۔اُن کے عاشقانہ اشعار میں جذب وسرور کی ایک دل نو از کیفیت شروع سے نمایاں ہے۔ـــْ
تو سرسوں قدم تلک جھلک میں
گویا ہے قصیدہ انوری کا
ولی کے اشعار نہ صرف ہمارے شعور کو وسیع کرتے ہیں بلکہ جذبات کے اظہار کو سہل بنا دیتے ہیں۔ کہیں کہیں ان کی شاعری میں ایسے سبق آموز اور نصیحت والے اشعار ہیں جنھیں پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زندگی کے گہرے سمندر میں غوطہ لگا کر عقل و دانش کے بچے موتی سمیٹ لائے ہیں ؎
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
ولی نے واعظ اور ناصح پر پھبتیاں بھی کسی ہیں۔ ان کی شاعری کا مقصد سخت دلی اور ظاہرداری کی مذمت کرنا ہے اور بچے اخلاق کی تعلیم دینا ہے؎
شیخ مت گھر سے نکل آج کہ خوباں کے حضور
گول دستار تیری باعث رسوائی ہے
کیا بے خبر ہوا ہے معلم صنم کو دیکھ
مکتب میں آ کے بھول گیا ہے کتاب آج
غرض کہ ولی نے اُردو غزل میں ، خارجیت کے ساتھ داخلیت کو بھی شامل کرلیا اور اس طرح غزل جب داخلی جذبات و احساسات اور واردات قلبیہ کے اظہار کا ذریعہ بن گئی تو یہ ایک ایسی صنف ہو گئی کہ اس میں زندگی کے ہر رنگ کے تجربات کو بیان کرنے کی صلاحیت پیدا ہوگئی ۔ غزل کی وہ روایت جو آئندہ دور میں اپنے عروج پر پہنچی اسی کا سر چشمہ ولی کی غزل ہے۔ جتنے مضامین غزل سے وابستہ ہیں وہ سب کم و بیش ولی کے یہاں ملتے ہیں۔ اس لئے ولی کا نام اپنی اولیت اور روایت کے بانی کی حیثیت سے ہمیشہ سر فہر ست بر قررا ہے گا۔
ان کے دیوان میں بہت سے ایسے اشعار ملتے ہیں جن کی زبان تین چار سو برس پہلے کی زبان نہ ہو کر زمانہ حال کی زبان معلوم ہوتی ہے۔اشعار ملاحظہ ہوں۔
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
عجب کچھ حسن رکھتا ہے شب خلوت میں گل رو سوں
خطاب آہستہ آہستہ جواب آہستہ آہستہ
ولی کے یہاں تشبیہات و استعارات میں ایک نیا پن ملتا ہے۔ وہ صنائع بدائع اور تکرار لفظی کا بھی استعمال کرتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے یہاں فارسی ترکیبیں بھی پائی جاتی ہیں۔ دہلی کے محاورات وزبان کو وہ بے جھجھک استعمال کرتے ہیں ؎
تجھ لب کی صفت لعلِ بدخشاں سو کروں گا
جادو ہیں ترے نین غزالاں سو کہوں گا
گل و بلبل کا گرم ہے بازار
اس چمن میں جدھر نگاہ کرو
غرض ولی کی شاعری زبان و بیان کے اعتبار سے اور معنی و مطالب کے لحاظ سے سراپا اعجاز ہے۔ ولی کا یہ امتیاز ہے کہ اردو غزل نے جو رخ اختیار کیا اس کے رہبرولی ہی رہے۔
0 comments:
Post a Comment