MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

اخترالایمان کی خودنویشت سوانح نگاری اس آباد خرادے کا تنقیدی جائزہ

اخترالایمان کی خودنویشت سوانح نگاری

اس آباد خرادے کا تنقیدی جائزہ

میر اقبال

          اخترالایمان بنیادی طور پر نظم نگار تھے۔ انہوں نے نثر میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ ’اِس آباد خرابے میں‘ اخترالایمان کی خودنوشت ہے۔اس کی پہلی قسط ستمبر ۱۹۹۱ء میں اور آخری قسط مارچ ۱۹۹۶ء کے شمارے میں شائع ہوئی ہے۔ کتابی شکل میں اس کی اشاعت کا ذمہ پہلے ہی ’دہلی اردو اکادمی‘ نے لے لیا تھا۔ اس لیے ان کی وفات کے بعد ۱۹۹۶ء میں ہی اردو اکادمی ،دہلی نے اسے شائع کیا۔

             اخترالایمان کی زندگی عسرت و تنگ دستی اور خانہ بدوشی میں گزری تھی۔ کھیت میں مزدوری کرنے والے اخترالایمان نے آگے چل کر قلم کو ہتھیار بنایا اور ادب میں اپنا نام سنہرے حرفوں میں رقم کردیا۔ ذاکر حسین کالج سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور پھر بمبئی کی زندگی میں بہت سارے مقامات آئے جو ان کی زندگی کی یادگار ہیں۔ انھوں نے ان سارے لمحات کو اس خود نوشت میں رقم کردیا ہے۔ نیز اس میں مصنف کے کردار کے ساتھ دوسروں کا کردار بھی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ 

          اس کی شہرت و مقبولیت کی خاص وجہ یہ ہے کہ خود نوشت نگار نے اپنی زندگی کے سچ کو چھپانے کے بجاے اس کے سفید و سیاہ پہلوؤں کو بڑی سچائی کے ساتھ اجاگر کیا ہے۔ یہ خود نوشت پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ درد و کرب کے کتنے پڑاؤ، مصائب کے کتنے مراحل اور آہ و فغاں کے مختلف مراحل سے گزرے تھے۔ جیسا کہ وہ خود لکھتے ہیں؎

            میں نے اس خود نوشت میں جیسی مجھ پر گذری ہے سب لکھ دیا۔ روکھے پھیکے واقعات ہیں۔ ان میں کوئی جی کو لبھانے والی بات نہیں۔

                کلچر اور ثقافت کی شکست و ریخت ان کی شاعری کا اہم موضوع ہے۔ خودنوشت میں بھی اس کے مسمار ہونے پر افسوس ظاہر کیا گیا ہے۔ دلّی کی مرتی ہوئی تہذیب کو کئی مقامات پر اجاگر کیا گیا ہے۔ ’موت اور وقت‘ اختر الایمان کے اہم موضوعات ہیں۔ ’اس آباد خرابے میں‘ وقت کی ناگزیری کے ساتھ سو سے زیادہ متعلق اور غیر متعلق لوگوں کی موت کی اطلاع ملتی ہے۔

                 غریبی بہت بری بلا ہے۔ انسان اس کے سبب مجبور اور بے بس ہوجاتا ہے۔ غربت کب کس کو کہاں لا کھڑا کردے یہ کسی کو پتہ نہیں ہوتا۔ اخترالایمان کو بھی غربت اور ناداری کے باعث یتیمی کے دور سے بھی گذرنا پڑا۔اس وقت ان کی عمر دس گیارہ سال تھی اور وہ سگھ مدرسہ میں زیر تعلیم تھے؎

          سگھ مدرسہ در اصل ایک یتیم خانہ تھا جو ایک بغیر چھت کی مسجد اور چند پھونس کے چھپروں پر مشتمل تھا۔ اس سگھ مدرسہ کے مہتمم اور روح رواں ’حافظ اللہ دیا‘ نام کے ایک صاحب تھے۔

            اختر الایمان طالب علمی کے زمانہ میں مالی پریشانیوں کے سبب ذہنی طور پر پریشان رہے۔ تعلیم کے اخراجات کی تکمیل کے لیے انھوں نے شہر کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک گھوم کر ٹیوشن پڑھانا شروع کردیا۔ اس سے انھیں راحت ملی۔ پھر انھوں نے اپنے گھر کے بغل میں ایک روم کرایہ پر لے لیا اور اسی میں انھوں نے اپنے ٹیوشن کا انتظام کرلیا۔ 

           اختر الایمان نے اپنی دوستی کا ذکر بھی خوب کیا ہے۔یہ اتنے خوش مزاج انسان تھے کہ لوگوں کا ان سے باتیں کرنا خوب بھاتا تھا۔ ویسے تو لوگ ان کے مزاج سے واقف تو ہوگئے تھے کہ یہ زیادہ تر باتوں کا برا نہیں مانتے تھے یہ بہت ہنس مکھ انسان تھے۔ اختر الایمان کے اندر ہمدردی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ ہر شخص سے اچھے انداز سے ملتے اور باتیں کرتے تھے۔ جنھیں وہ جانتے بھی نہ ہوں، ان سے بھی ایسے ملتے کہ وہ برسوں کا شناسائی معلوم ہوتا۔

           اسی زمانے میں میری ملاقات ایک صاحب سے ہوئی جن کا نام یوسف پیر بھائی تھا۔ اچھے دوست نواز اور ہمدرد قسم کے آدمی تھے۔ کسٹوڈین کی دی ہوئی مدت بھی ختم ہو رہی۔ میں نے پیر بھائی سے رجوع کیا۔ انھوں نے مجھے ایک پارسی خاتون سے ملوایا جن کا نام ’مس پاؤری‘ تھا۔  ’مس پاؤری‘  کے مکان میں ایک کمرہ خالی تھا جس کا انھوں نے چھپن روپیہ بھی مانگا تھا۔ میرے پاس وہ چھپن روپیہ بھی نہیں تھے۔ مگر تھوڑا بہت بھروسہ تو مستقبل پر رکھنا ہی پڑتا ہے۔ میں نے وہ کمرہ لے لیا اور میراجی کے ساتھ ماضی کی ساری پریشانیاں اور اندیشے بھی وہیں دفن کردیے اور میں اس کمرے میں منتقل ہوگیا۔

        اختر الایمان نے اپنی خود نوشت میں ماریشس کا بھی ذکر کیا ہے۔ گرچہ انھوں نے سفر کی تفصیلات سے احتراز کیا ہے۔یہ تفصیلات زیادہ معنی نہیں رکھتیں۔ اس لیے کہ انھوں نے اتنے اچھے انداز میں اس کا تعارف کرایا ہے کہ تفصیل کی ضرورت ہی نہیں محسوس ہوتی ہے۔ انھوں نے یہاں سکونت اختیار کرنے والے بہار کے باشندوں کا ذکر کیا ہے۔ اس سے بہار کی قدیم تہذیب اور وہاں کا ماحول ہمارے ذہن میں تازہ ہوجاتا ہے۔

         اخترالایمان کی اس خودنوشت سے شاعروں کی طوائف پرستی کا بھی حال معلوم ہوتا ہے۔ اس زمانے کے جی۔ بی۔ (گرسٹن بسٹن ) روڈکا ذکر بھی کیا ہے۔ اس طرح کے واقعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخترالایمان نے اپنی زندگی میں پیش آمدہ واقعات کو چھپانے اور اپنی شخصیت کو مجروح ہونے سے بچانے کی کوشش نہیں کی ہے۔

           اخترالایمان نے جس ’نیوگ‘ کا ذکر کیا ہے۔ دسویں کال کھنڈ میں یہ شاہی رواج رہا ہے۔ اس زمانے میں یہ دستور عام تھا۔ روایت کے مطابق ملیہ راجیہ کا راجہ ’نامرد‘ تھا جس کی وجہ سے ان کے ہاں کوئی نر اولاد نہیں تھی۔ تبھی راج پنچایت نے یہ فیصلہ کیا کہ رانی صاحبہ نیوگ کریں تاکہ بادشاہ کا جانشین میسر آئے۔ رانی ہر ممکن منطق سے انکار کرتی رہی مگر رانی صاحبہ کو مجبوراً اس کے لیے تیار ہونا پڑا۔ رانی جب صبح کی پہلی کرن کے ساتھ نیوگ سے واپس لوٹی تو اس کے پورے وجود پر حجاب آمیز مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ دوبارہ ’نیوگ‘ کا آنند اٹھانے کی خواہش میں مچلنے لگی، مگر راجہ صرف سلطنت کی خاطر اس کی اجازت دیتے تھے۔ عورت کو اپنے ادھورے پن کی تکمیل کے لیے اِس کی اجازت نہیں تھی۔

           اس خودنوشت میں بہت سارے ادیبوں اور شاعروں کا کچا چٹھا بھی پیش کیا گیا ہے اور ان کی شخصی خامیاں اور کمزوریاں پیش کی گئی ہیں۔ اِس میں ایک ایسا واقعہ بھی درج ہے جس سے معاصر شاعری کے بارے میں بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ بات تو ایک محفل کی ہے۔ مگر اپنے اندر بہت ساری سنجیدگی اور رمز سمیٹے ہوئے ہے اور اِس سے اس دور کی شاعری کا اندازہ ہوتا ہے۔ جس دور سے اخترالایمان اور ان کی قبیل کے شاعروں کا تعلق تھا اور جس دور کی تخلیقی زرخیزی سے ہم آج تک محظوظ ہورہے ہیں۔ اِس میں ایک طرح سے سبق بھی ہے اور عبرت بھی۔ اخترالایمان لکھتے ہیں:

              ایک بار سنسکرت ہائی اسکول میں ایک ادبی نشست ہوئی۔ میں بھی اس میں شامل ہوا۔ کچھ بزرگ لکھنے والے بھی تھے۔پنڈت امیر چند ساحر ، خواجہ حسن نظامی اور امن صاحب اور بھی شاعر تھے جن کے نام اس وقت ذہن میں نہیں۔ میں نے ایک نظم پڑھی۔ عنوان اِس وقت ٹھیک سے یاد نہیں۔ شاید ’موت‘ تھی۔ نظم سن کر امر چند ساحر بگڑ گئے۔ یہ لونڈے معلوم نہیں کیا شاعری کرتے ہیں۔ ورڈسورتھ اور ٹینی سن پڑھ پڑھ کے شاعری کرنے لگتے ہیں۔ (9)

          اخترالایمان کی نظم سن کر امر چند ساحر نے جس ردعمل کا اظہار کیا تھا۔ سنجیدگی سے سوچا جائے تو آج کی بیش تر شاعری پڑھ کر سچے قاری کا یہی رد عمل ہوگا۔ ایک فہرست بنائی جائے اور دیانت داری سے مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ شاعری میں بھی ترجمہ نگاری کی روایت چل پڑی ہے۔ مغرب اور مشرق کے شعرا کو ہی دہرایا جارہا ہے۔ اِن شاعروں کے پاس نہ اپنی سوچ ہے نہ اپنی فکر۔ اِس کتاب میں ہمارے سارے ادیب و شاعر اپنے حقیقی حلیے اور تخلیقی اعمال نامے کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ اخترالایمان نے جن تخلیق کاروں کو قریب سے دیکھا، پرکھا اور بھگتا ہے، ان میں سے کسی کے بائیں ہاتھ میں تو کسی کے دائیں ہاتھ میں ان کا اعمال نامہ بھی تھما دیا ہے۔ اِس اعمال نامے میں ہماری نسل کے لیے بہت کچھ ہے۔ وہ کچھ جس سے وہ اپنے نظریات پر ازسر نو غور و فکر بھی کرسکتے ہیں اور اپنی تنقیدات اور تفکرات کی تشکیل بھی۔

       اخترالایمان نے اپنی خود نوشت میں جہاں سماجی، معاشرتی اشارے کیے ہیں وہیں اس وقت کی ادبی تحریکات، رویے اور رجحانات کا ذکرکرتے ہوئے ترقی پسند تحریک اور حلقہ ارباب ذوق کے تعلق سے جو کچھ تحریر کیا ہے:

            انھوں نے اپنے عہد کے ادبی منظر نامے کے تعلق سے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ ان میں تعصبات کی آمیزش ممکن ہے۔ لیکن مجموعی طور پر ان احساسات و تبصرات میں صاف گوئی سے ہی کام لیا گیا ہے۔ ان کی کہانی میں بہت سے عزت مآب اور عالی مقام افراد پستہ قد نظر آتے ہیں۔ ن۔م۔ راشد کے بارے میں ان کے تاثرات پڑھ لینے کے بعد راشد کی عظمت زمیں بوس ہوتی نظر آتی ہے۔ اس کی روشنی میں کمزور، خوف زدہ اور عدم تحفظ کے شکار تخلیق کار کی شبیہ سامنے آتی ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے فن پارے میں متناسب نظر آنے والے حضرات اپنی ذات میں کس قدر کمتر ثابت ہوتے ہیں۔

           اس خودنوشت میں اخترالایمان کی دوسری بیگم سلطانہ کا بھی خاصا ذکر ہے۔ وہی بیگم سلطانہ ان کی جدوجہد، مشقت اور کلفت کی گواہ ہیں۔ انھوں نے اپنی بیٹیوں شہلا، اسماء اور رخشندہ اور اپنے بیٹے رامش اور داماد امجد خان کا بھی ذکر کیا ہے اور اپنی فلمی زندگی کے واقعات اور تجربات بھی درج کیے ہیں۔

          اس خودنوشت کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس میں شعوری کوشش کارفرما نظر نہیں آتی۔ مصنف کے حافظہ میں جو واقعہ ابھرا۔ اسے بلا کم و کاست انھوں نے حوالۂ قرطاس کردیا ہے۔ اس میں ترتیب اور نظم و ضبط کا بھی خیال نہیںرکھا گیا ہے۔ بہت ساری باتوں کو مکرر بیان کیا گیا ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مصنف نے اپنی شخصی نقوش اور اپنے دور کی سچائیوں کو پیش کردینے پر ہی اکتفا کیا ہے۔

          اختر الایمان کی پسندیدہ تکنیک ہے۔ انھوں نے نظموں میں بھی اس کا استعمال کیا ہے۔ خود نوشت میں بھی اس تکنیک کا خوب خوب استعمال ہوا ہے۔ اسی کے زیر اثر اپنے حالات زندگی کو مربوط قصہ بنانے کے بجاے ماضی ، حال اور مستقبل کواس طرح گوندھ دیا ہے کہ ایک سرے سے دوسرے سرے تک پہنچا ممکن نہیں ہے۔ اظہار کا یہ طریقہ انوکھا ہی نہیں ندرت کا حامل بھی ہے جوقاری کے تجسس کو انگیخت کرتا رہتا ہے۔ نیز اس میں کیمرے کی تکنیک کا استعمال بھی نظر آتا ہے۔ اختر الایمان کی نثر میں جمال و زیبائی اور دل فریبی و رعنائی بھی ہے ۔ وہ چھوٹے چھوٹے جملوں میں اپنی بات کہتے ہیں۔ یہ خیالات قاری کی زندگی سے اتنے قرب ہوتے ہیں کہ ان کی ترسیل آسانی سے ہوجاتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ ’اس آباد خرابے میں‘ قارئین کے ہر طبقے میں مقبول ہے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment