میر تقی میر کی مرثیہ نگاری
میر اقبال
میر تقی میر کی طبیعت مرشے کی طرف ابتدا ہی سے مائل تھی، اس لیے انھوں نے اس فن کو پختگی اور ادبیت عطا کی۔ایک طرف اگر مراثی میر سے اس عہد کی عزاداری کے رسوم ورواج کا علم ہوتا ہے۔ تو دوسری جانب گریہ و ماتم کےطور طریقہ پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ میر نے مربع ،ترجیع بند ، ترکیب بند اور مفردہ کی شکل میں مراثی کہے ہیں۔ میر کوامام حسین سے بے پناہ عقیدت تھی۔ کربلا کے المیے سے وہ بے حد متاثر ہیں۔ کربلا کے دل دوز اور جگر گداز مناظرکے بیان میں تکرار سے بھی کام لیا ہے۔ لیکن ہر بار تاثیر کی جدا گانہ کیفیت قائم ہوئی ہے۔ میر نے مقصد شہادتحسینی کو لازمی طور پر پیش نظر رکھا ہے، جس میں امام حسین کی شخصیت کے کچھ اہم اور گراں قدر پہلو سامنے آجاتےمیں میر کی زندگی خود یک مری تھی۔ باپ چھٹا سا چھوڑ کر گئے، بائی کی بے رخی ایذا رسانی اور دوسرےعزیزوں کی نامہربانی سے زندگی تلخی اور پریشانی میں گزری، جس سے دل بجھ گیا،طبیعت رندھ گئی۔ اس بجھے دل روری ہوئی میت کو غزل میں پیش کرکے روتےاور اتے سے بھٹو کی تو رونے رلانے کےلیے مرثیہ ہاتھ آگیا۔ اب عمر بھی آخر ہو چلی تھی اس لیے اس صنف سخن کو اپنالیا؎ ہر چند شاعری میں نہیں ہے تری نظیر اس فن کے پہلوانوں نے مانا تھی کو میر پر ان دنوں ہوا ہے بہت تو ضعیف و پیر کہنے لگا جومرثیہ، اکثر بجا کیا میر نے فن کی پختگی اور استادی کی منزل پر پہنچ کر مر ہیے کہے۔ طبیعت مرثیت پر پہلے ہی سے مائل تھی اس لیے بہت اچھے مریے کہے، جسے ادبی حیثیت اور مرثیت کے لحاظ سے بلند درجہ حاصل ہے۔ ان کے مرغیچے میں غزل کا پیرایہ بیان ، اصطلاحیں اور مفرد طرزفکر بھی ملتی ہے۔ میر کے یہاں خیال کی بے پناہ بلندی ان کی پاس وحزن کی کیفیت کی وجہ سے ہے۔ ان کا غم والم ان کے اشعار میں اس طرح ڈھلتا ہے کہ وہ دل میں اتر جاتا ہے۔ زبان کی فصاحت، سادگی سوز و گداز مضامین کی جدت اور تاثیر ایسی خوبیاں ہیں جو اردو کے کسی بھی شاعر میں مجمع نہیں۔ ان کے مرثیوں میں اس وقت کے مراسم بھی ملتے ہیں۔ میر کے مرثیوں میں زبان اور بیان کا لطف ہے۔ بین کے گوشے بھی ملتے ہیں۔ ادب کا تقاضا بھی پورا ہوتا ہے اور مرغے کا مقصد بھی ہاتھ سے نہیں جاتا۔ ان کے کلام کے بارے میں محمد حسین آزاد اپنی رائے قائم کرتے ہوئے رقمطراز ہیں؎ " میر صاحب کی زبان شستہ ، کلام صاف بیان پاکیزہ جیسے باتیں کرتے ہیں دل کے خیالات کو جو کہ سب طبیعتوں کے مطابق ہیں، محاورہ کا رنگ دے کر باتوں باتوں میں ادا کر دیتے ہیں اور زبان میں خدا نے ایسی تاثیر دی ہے کہ وہی باتیں ایک مضمون بن جاتی ہیں۔ اسی واسطے ان میں یہ نسبت اور شعرا کے اصلیت کچھ زیادہ قائم رہتی ہے بلکہ اکثر جگہ یہی معلوم ہوتا ہے کہ نیچر کی تصویر کھینچ رہے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ دلوں پر اثر بھی زیادہ کرتی ہے گویا وہ اردو کے سعدتی ہیں۔“ (بحوالہ میر وسودا کا دور، ثنا ء الحق ، ص: ۲۶-۳۲۵) میر کے مرھیوں میں ان کا اپنا انداز ہے۔ ان میں درد بھی ہے اور سوز بھی مگر ایسا نہیں کہ لوگ سنیں اور پھوٹ ہیں۔ وہ حسین کے ثبات وعزم کے شیدائی ہیں جس کا ذکر اکثر ان کے مرثیوں میں ملتا ہے۔ میر کے مرثیوں میں روایتیں بھی ہیں۔ ان کے مرمیوں میں کہیں کہیں پر تو اس وقت کے عام رجحانات کا بھی اشارہ ملتا ہے۔ مثلا یزیدی فوج کی ذہنیت کو میر نے دیکھیے کس طرح بیان کیا ہے؎ میر نے ۳۴ مر ثیے اور ۳۷ سلام لکھے ہیں۔ ان کے غم زدہ مزاج سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ اس صنف سخن میں بھی غزل ہی کی طرح کمال کو پہنچیں گے ۔ چوں کہ اس صنف کا خاص مقصد جذباتی اثر پیدا کر کے غم والم کی ایسی کیفیت طاری کرتا ہے کہ سننے والا آہ و بکا کرنے لگے۔ لیکن ان کے سارے مرثیوں کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ان میں وہ اثر انگیزی نہیں ہے جو بعد کے دور میں انیس و دبیر کے یہاں ملتی ہے۔ میر کے دور تک مرثئیے کی بیت بھی مقر ر نہیں ہوئی تھی۔ میر کے زیادہ تر مرثیے مربع کی ہیئت میں ہیں۔ مسدس مرثیے تین ہیں اور تین مرثیے غزل کی ساخت میں ہیں۔ میر تشبیب نہیں بلکہ اپنا مرثیہ براہ راست مدح امام حسین سے شروع کر دیتے ہیں اور مدح میں جیسے وہ قصیدے میں کامیاب نہیں ہیں۔ اسی طرح وہ مرثیوں میں بھی کامیاب نہیں ہیں۔ وہ اپنے عقیدے کا اظہار ضرور کرتے ہیں، ان کے دل میں خلوص کی گرمی بھی ہے، مگر مرثیہ چوں کہ داخلی شاعری نہیں ہے، اس لیے اس میں جس خارجی انداز کی ضرورت تھی میر اس تک نہیں پہنچتے ۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ رونے کا عمل اسی وقت پیدا کیا جا سکتا ہے جب بتدریج جذباتی سطح کو ابھارا جائے اور پھر مصائب کا بیان ایسے موقع پر لایا جائے کہ سننے والا بے اختیار بکا کرنے لگے۔ یہ ایک شعوری اور خارجی عمل ہے۔ برخلاف اس کے میر کے لیے اپنی ذات اور اس کے غم زیادہ اہم ہیں وہ جس خوبی سے اپنے غم عشق کو مثنویوں میں بیان کرتے ہیں اس طرح وہ دوسروں کے غم کا اظہار نہیں کر سکتے ، یہ ان کی مجبوری ہے۔ انھوں نے اپنے مرثیے مجلسوں کی ضرورت کے لیے لکھے تھے اور ان میں مخصوص واقعات مثلاً: حضرت قاسم کی شادی، حضرت عابد کی اسیری بجلی اصغر کی پیاس، خاندان حسین کی عورتوں کی بے حرمتی وغیرہ کو موضوع سخن بنایا ہے۔ ان موضوعات کو مر ثیے میں نظم کرنے کی روایت دکنی مرثیوں سے شمال پہنچی اور پھر میر کے مرثیوں سے ہوتی ہوئی میرانیس کے مرشوں میں اپنے کمال کو پہنچی ۔ اسی طرح میر نے اپنے مرثیوں میں سہل ممتنع کا طرز اختیار کیا جسے بعد میں میرانیس نے اسے کمال تک پہنچایا۔ میر کے مرثیوں میں حزن و ملال کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ خاص طور سے کربلا کے انہی واقعات کومر نیچے کے لیے انتخاب کیا ہے جو بہت درد ناک خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کو مقصد شہادت حسین کا احساس زیادہ ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے مرثیوں میں بار بار ان کے کردار کے مختلف پہلوؤں اور ان کی عظمتوں پر زور دیا ہے۔ ان کے یہاں مسلسل واقعہ نگاری کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں ، البتہ ایسے ٹکڑے ضرور ملتے ہیں جن کو معمولی واقعہ نگاری کا نمونہ قرار دیا جا سکتا ہے، مثلاً؎ بھائی بھتیجے خویش و پسر یاور اور یار جادویں کے مارے آنکھوں کے آگے سب ایک بار ناچار اپنے مرنے کا ہوگا امیدوار ہے آج رات اور یہ مہمان روزگار ان کے یہاں مراثی میں ادبی شان پیدا کرنے یا صنائع بدائع کے استعمال کی کوئی شعوری کوشش نہیں ملتی ہے۔ بلکہ سراسر سوز اور تعزیت کا انداز ملتا ہے۔ ان کے بیشتر مراثی تمام اسقام (عیوب) شعری سے پاک ہیں، جسے عوام و خواص دونوں سن کر یکساں روحانی لطف اٹھا سکتے ہیں۔ انھوں نے در حقیقت امام حسین کے بلند مقصد ، مظالم پر صبر اور بے پناہ جذبہ ایمانی کی پراثر تصویریں کھینچی ہیں ، جس میں ایک خاص قسم کا تسلسل ہے، سادگی ہے اور درد انگیزی بھی۔ میر کے مرثیوں کی اس خصوصیت پر خلیق اور دلگیر نے اپنے بہن یہ مراثی کی بنیاد استوار کی ہے۔ میر نے مرثیوں میں اپنے زمانے کے رسوم اور معاشرت کے عناصر بھی داخل کیے ہیں، جن کے مطالعے سے اس زمانے کی عزاداری کے متعلق بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں جواب غالباً متروک ہیں۔ مثلاً نوحہ و ماتم میں جس طرح آج کل حسین حسین حسین امام حسین ، حسن، حسین ، یا حسین شاہ حسین کی صدائیں لگائی جاتی ہیں۔ اسی طرح اس وقت ” ہے دوست ہے دوست کی صدائیں لگانے کا بھی رواج تھا۔ محرم میں لوگ سیاہ کپڑے کا کفن پہن کر اظہار غم کے لیے نعل اور لوہے کی دوسری چیزوں کو گرم کر کے اپنے جسم کو داغ لیا کرتے تھے۔ میر کے بعض مرثیے ایسے بھی ہیں جن سے یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ ماتم کے ساتھ پڑھنے کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان کی بحروں سے پرانے طرز کی سینہ زنی کے آہنگ اور اتار چڑھاؤ کا صاف اندازہ ہوتا ہے۔ حضرت قاسم کی شادی اردو مرثیہ گویوں کا خاص موضوع رہا ہے۔ میر وسودا نے بھی اس میں بہت سے پہلونکالے ہیں ۔ میر نے ایک مرتبہ " قاسم کی شادی اس دن رچائی تو اس مضمون سے شروع کیا ہے اور اس میں ہندوستانی شادی کے رسوم، برات سبرا بگن دھرانا ، آرسی مصحف، آتش بازی، مجز، نینگ وغیرہ کے ذکر سے درد پیدا کیا ہے۔ میر کے مرثیے میں امام حسین کے کردار کی بلندی اور حق کی حمایت میں جان کی قربانی دینے کے اشارے ملتے ہیں۔ حضرت قاسم کا امام حسین سے میدان کی اجازت چاہنا، ان کا انکار، پھر حضرت قاسم کا بازو کا تعویذ دکھانا ، امام کا حضرت قاسم کو لے کر خیمے میں جانا، دھن سے ان کی رخصت اور میدان میں جا کر شہادت پانا، امام حسین کی شہادت کے بعد عورتوں کی فریاد اور حضرت عابد کی مصیبت ، ان کی ذمہ داریاں، ان کی بے چارگی اور تنہائی کے بیانات وغیرہ میر کے خاص موضوعات ہیں ۔ انھوں نے اپنے مراثی کا بنیادی مقصد محدود مذہبی نقطۂ نظر سے گریہ و بکا ہی قرار دیا۔ انھوں نے گریہ و بکا اور بین و ماتم کی جو تصویر کھینچی ہے اس میں کربلا سے زیادہ اپنے عہد اور اپنے گردو پیش کے ماحول کی تصویر کشی کی ہے۔ بیٹے کی لاش پر ماں کی بین، امام حسین کی بہن اور اہل حرم سے رخصت کا منظر اور حضرت فاطمہ کی روح کا میدان کربلا میں آکر گریہ و بکا کرنا ایسے مناظر ہیں جن کو میر نے بڑے اہتمام سے نظم کیا ہے۔ انھوں نے بالخصوص اپنے مرثیوں میں گر یہ خیز پہلو بہت پیدا کیے ہیں اور کربلا کے واقعات میں سے درد انگیز مناظر منتخب کر کے انھیں بار بار ظلم کیا ہے۔ مثلاً حضرت علی اصغر کے لیے پانی کا سوال ، امام حسین کی شہادت اور اس کے بعد کی لوٹ مار، حضرت عابد کی اسیری ، اہل حرم کی بے چادری، حضرت قاسم کی شادی وغیرہ۔ بحیثیت مجموعی میر کے مراثی ادبی اور تاریخی دونوں حیثیت سے گراں قدر ہیں۔
0 comments:
Post a Comment