نذیر احمد کی ناول نگاری
اردو ناول پر نذیر احمد کا بہت بڑا احسان ہے کہ اردو میں ناول نگاری کی بنیاد انہی کے مبارک ہاتھوں سے پڑھی ۔ مولوی نذیر احمد نے بہت سی کتابیں لکھیں مگر ان کی شہرت کا اصل مدار ان کے ناولوں پر ہے ۔ ان کے ناول اتنے پسند کیے گئے کہ حکومت کی طرف سے ان کو انعام و اکرام سے بھی نوازا گیا ۔ ان کا پہلا ناول " مراۃ العروس ” ہے ۔یہ ناول ۲۹ ۱۸ ء میں شائع ہوا ۔ یہ کتاب اپنی بیٹی کو اردو سکھانے کے لیے لکھ کر دیتے تھے ۔ ایک انگریز افسر کی فرمائش پر اس کو چھپایا گیا اور حکومت کی طرف سے انعام بھی دیا گیا ۔ عام لوگ اس قصے " اکبری اصغری کا قصہ ” اور مولوی صاحب کو ” اکبری اصغری والے مولوی صاحب کہنے لگے تھے ۔ یہ ناول لڑکیوں کی تربیت کے سلسلے میں ہے ۔ اس میں دکھایا گیا ہے کہ ایک معمولی لڑکی کس طرح ایک گھرانے کی اصلاح کا ذرایہ بن جاتی ہے ۔ سر سید احمد خان اس ناول کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ” نذیر احمد نے مراۃ العروس لکھ کر زنانہ سوسائٹی پر ایک انتہام باندھا ہے اس ناول کے دگر کردار : محمودہ ماما عظمت ، حسن آرا ۔ نات النعش مراۃ العروس کے تین سال بعد شائع ہوئی ۔ اس کا موضوع بھی خانہ داری کی تربیت اور اخلاق کی تعلیم ہے ۔
توبتہ النصوح مولوی نذیر احمد کا تیسرا ناول ہے جس کو ان کا شاہکار کہنا چاہیے ۔ ۱۸۷۷ ء میں شائع ہوا ۔ یہ اولاد کی تربیت کے بارے میں ہے ۔ اس ناول کے ذریعے یہ حقیقت روشن کی گئی ہے کہ اولاد کی محض تعلیم ہی کافی نہیں ہے اس کی پرورش اس طرح ہونی چاہیے نیکی اور دینداری کے جذبات پیدا ہوں ۔ نصوح ایک خواب دیکھنے کے بعد اپنے پورے خاندان کی اصلاح پر متوجہ ہوتا ہے مگر اپنے بیٹے کلیم کی صلاح میں ناکام رہتا ہے ۔ نصوح نے اپنی اولاد کی تربیت ٹھیک طرح سے نہیں کی تھی شہر میں ہینہ پھیلا نصوح خود بھی پیار ہوا ۔ اسی دوران اس نے خواب دیکھا کہ حشر کا میدان بپا ہے ، ہر ایک کے اعمال کا حساب ہو رہا ہے ۔
جذبہ اصلاح مولوی نذیر احمد کے تمام ناولوں میں کار فرما ہے ۔ ان کا ہر ناول کسی نہ کسی مقصد کے تحت لکھا گیا اور سر ورق پر اس مقصد کا بالعموم اعلان بھی کر دیا گیا ۔ نذیر احمد اردو کے پہلے ناول نگار ہیں ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ان کے ناول ، ناول نہیں تمثیل ہیں ۔ مگر یہ خیال درست نہیں ہے ۔ یہ البتہ درست ہے کہ ان کے ناولوں میں کچھ نقص پائے جاتے ہیں ۔ ان کے سامنے اردو میں ناول کا کوئی نمونہ موجود نہیں تھا ۔ اردو میں وہ اس صنف کا آغاز کر رہے تھے ۔ نذیر احمد کا کارنامہ یہ کچھ کم نہیں کہ خیالی اور فوق فطری دنیا سے دامن چھڑا کر اصلی دنیا اور حقیقی زندگی کی تصویر کشی کی ۔ اپنے ناولوں میں جابجا مسلم معاشرت کے مرقعے پیش کر دیے ۔ پلاٹ کی طرف وہ بہت خاص توجہ دیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پلاٹ مر بوط ہیں ۔
کردار نگاری میں بھی مہارت حاصل ہے ۔ مگر ان کے کردار یا تو صرف عیبوں کا مجموعہ ہیں یا صرف خوبیوں کا مجسمہ ۔ اس لئے پروفیسر آل احمد سرور کا ارشاد ہے کہ ” ان کے کر دار یا تو فرشتے ہوتے ہیں یا پھر شیطان ، انسان نہیں ہوتے ۔
حقیقت نگاری مولوی نذیر احمد کے ناولوں کے سب سے اہم خصوصیت ہے ۔ نذیر احمد کے ناولوں میں حقیقی زندگی کی مرقعے نظر آتے ہیں اور اصلی دنیا کے انسان سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں ۔
مکالمہ نگاری میں نذیر احمد کو ایسی مہارت حاصل ہے کہ کم ناول نگاروں کو حاصل ہو گی ۔ سبب یہ ہے کہ ہر طبقے کے لوگوں سے ان کا واسطہ رہا ۔ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ کس کر دار کی زبان سے کیا مکالمات ادا ہو سکتے ہیں ۔ انسانی نفسیات سے وہ گہری واقفیت رکھتے تھے ۔
ظرافت مولوی صاحب کے مزاج میں رچی بسی ہوئی تھی ۔ اس ظرافت نے ان کے ناولوں کو حد درجہ دلچسپ بنادیا ۔ اہل نظر کا ایک حلقہ ایسا ہے جو نذیر احمد کے ناولوں کی خامیوں کی نشاند ہی کر تا ہے ۔ انہیں ناول تسلیم نہ کرتے ہوۓ قصوں اور تمثیل کا نام دیتا ہے ۔ مگر بعض خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود نذیر احمد کے ناول اردو فکشن کا قیمتی سرمایہ ہیں اور انہی کی بنیاد پر آگے چل کر اردو ناول کا قصر بلند تعمیر ہوا۔
0 comments:
Post a Comment