آغا حشر اور سفید خون
آغا حشر کا اردو ادب میں مقام اُن کی ڈراما نویسی سے ہے۔ آغا حشر نے کوئی 32، 33 سال ڈرامے لکھے۔ اِس مدت میں اُن کی مقبولیت برابر بڑھتی رہی۔ اُن کی ڈراما نگاری کی اِس مدت کو چار دوروں (اَدوار) میں تقسیم کیا گیا ہے۔ ہر اگلے دور میں اُن کی شہرت اور قبولِ عام کا آفتاب برابر زیادہ چمکا اور زیادہ بلند ہوا۔ ظاہر ہے کہ یہ کوئی اِتفاقی بات نہیں ہوسکتی۔ آغا حشر میں ضرور کوئی نہ کوئی ایسی خصوصیت تھی جس نے ہر لمحہ اُن کی شہرت کو پہلے سے زیادہ چمکایا۔ آخر وہ خصوصیت کیا تھی؟۔ اِس سوال کا جواب خود اُن کے ڈرامے دیتے ہیں۔ اِن ڈراموں کو دیکھ کر واضح طور پر دو باتیں نظر کے سامنے آتی ہیں: پہلی تو یہ ہے کہ آغا حشر نے اپنی ڈراما نگاری کے ہر دور میں زمانے کو وہ چیز دِی جو اُس نے اُن سے طلب کی۔ حشر نے اپنے فن کو زمانے کی ضرورت کے سانچے میں بھی ڈھالا ہے اور اپنی جرأت اور اعتماد سے فن کو برابر ایسی شکل بھی دی ہے کہ وہ زمانے کے مذاق کو بہتر بناتا رہے۔ اُن کی ڈراما نگاری کا ہر دور اِنہیں دو بڑی خصوصیات کا حامل ہے، اِن میں سے ہر دور ہم آہنگی، جرأت، اعتماد اور جِدـت پسندی کی ایک نئی منزل ہے۔ آخری منزل کی طرف جرأت اور یقین کا ایک اور قدم ہے۔
وقار عظیم نے آغا حشر کی ڈراما نویسی کو عموماً تین اَدوار میں تقسیم کیا ہے مگر بغور جائزہ لیا جائے تو آغا حشر کی ڈراما نویسی کو چار حصوں میں منقسم کیا جانا چاہیے۔۔ خود آغا صاحب نے پوری تخلیقی زندگی کے یہ حصے کیے ہیں: پہلا دور 1901ء سے 1905ء تک، اِس دور میں مریدِ شک، مارِ آستین، میٹھی چھری اور اسیر حرص نامی ڈرامے لکھے گئے۔دوسرا دور 1906ء سے 1909ء تک: اِس دور میں شہید ناز، خوبصورت بلا، سفید خون اور صید ہوس نامی ڈرامے لکھے گئے۔تیسرا دور 1910ء سے 1916ء تک: اِس دور میں سلور کنگ، خوابِ ہستی، یہودی کی لڑکی، سور داس، بن دیوی اور پہلا نقش نامی ڈرامے لکھے گئے۔چوتھا دور 1917ء سے 1924ء تک: یہ زمانہ کلکتہ کے قیام کا زمانہ ہے۔ اِس زمانہ میں آغا صاحب نے زیادہ تر ہندی کے ڈرامے لکھے۔ مدھر مُرلی، بھاگیرتھ گنگا، بھارت رمنی (قدیم بن دیوی)، ہندوستان (جس کے تین حصے ہیں: شرون کمار، اکبر اور آنچ)، ترکی حور، آنکھ کا نشہ، پہلا پیار اور بھیشم پتاما اِس دور کی یادگار ہیں۔آخری دور میں آغا حشر نے اِصلاحی ڈرامے لکھے۔ 1928ء میں سیتا بن باس، 1929ء میں رستم و سہراب، 1930ء سے 1932ء تک دھرمی بالک، بھارتی بالک اور دِل کی پیاس نامی ڈرامے تصنیف کیے۔
اردو ڈرامے کی دنیا میں ایک بلند قامت حیثیت سے ابھرے۔ انھوں نے ڈرامے کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ انھوں نے مختلف تھئیٹریکل کمپنیوں میں کام کیا۔ اپنی کمپنی قائم کی، متواتر ڈرامے لکھے ، خود ان کی ہدایت کاری کی اور ڈرامے کھیلنے کے معیار کو بلندی بخشی۔ ان کے زیادہ تر ڈرامے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے مقبول و معروف ڈراموں کو انھوں نے اردو جامہ پہنایا۔ انھوں نے کرداروں کے ناموں،مکالمات،گانوں اور ڈراموں کی پوری فضا کو مشرقی رنگ میں ایسا رنگ دیا کہ کہیں اجنبیت اور پردیسیت کا احساس نہیں ہوتا۔ انھوں نے کرداروں کو ہندوستانی تہذیب و معاشرت میں اس طرح ڈھال دیا کہ وہ نامانوس نہیں معلوم ہوتے۔ اپنے چست مکالموں، اعلیٰ پایہ کے گانوں،بر جستہ گوئی اور زبان کے اعلیٰ معیار سے ان ڈراموں کو ادبی وقار بخشا۔
سفیدخون ،حشرؔ کی ڈراما نگاری کے دوسرے دور کی پیشکش ہے۔ اس کا پلاٹ شیکسپئر کے مشہور المیہ کنگ لیئر (King Lear) سے ماخوذ ہے ، یہ ڈراما اردشیر دادا بھائی ٹھونٹھی کی بمبئی ناٹک منڈلی کے لیے ۱۹۰۷ء میں بمشاہرہ ڈھائی سوروپیہ ماہوار تقریباً سات مہینے میں قلم بند کیا۔ ‘‘(۲۶)
سفیدخون تین ایکٹ کا ڈراما ہے۔ پہلے ایکٹ میں پانچ سین، دوسرے میں بھی پانچ اور تیسرے میں چار ہیں ، کل چودہ سین ہیں۔
سفید خون کا خلاصہ :۔ ڈرامے کا پلاٹ بیٹی کی راست گوئی برداشت نہ ہونے پر شہنشاہ خاقان کا جلد بازی اور عالمِ غیظ و غضب میں ناعاقبت اندیشانہ فیصلہ اور اس کے عبرت ناک نتائج ، وزیروں کی وفاداری ،نیک اور حق گو بیٹی کی آزمائش، خوشامدی اور ریا کار بیٹیوں اور جعل ساز و دغا باز بیرم کی قدم قدم پر سازشوں نیز اقتدار کی ہوس اور نتیجے میں ان کی بد اعمالیوں کے المناک انجام سے متعلق ہے۔
شہنشاہِ خاقان ضعیف ہو جانے کی وجہ سے اپنی سلطنت اپنی تینوں بیٹیوں میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تاکہ وہ انتظامِ حکومت سے دست بردار ہو کر اپنی باقی زندگی سکون سے گزارسکے۔ چنانچہ وہ باری باری اپنی تینوں بیٹیوں ماہ پارہ ، دل آرا اور زارا کو بلا کرسوال کرتا ہے کہ تم کو مجھ سے کتنی محبت ہے ؟ دونوں بڑی بیٹیاں ماہ پارہ اور دل آرا مبالغہ آمیزی سے والد کے لیے اپنی محبت کا اظہار کرتی ہیں مگر چھوٹی بیٹی زارا ان دونوں اور والد کی توقع کے خلاف یہ جواب دیتی ہے کہ میں آپ سے اتنی ہی محبت کرتی ہو ں جتنی ایک بیٹی باپ سے کر سکتی ہے۔
اس حق گوئی پر شہنشاہ چراغ پا ہو جاتا ہے اور ملکیت دونوں بیٹیوں میں نصف نصف تقسیم کر دیتا ہے۔ چھوٹی بیٹی زارا کو اس کے حق سے محروم کر دیتا ہے۔ غصے اور جلد بازی میں کیا گیا غلط فیصلہ شہنشاہ کی ذہنی اور روحانی اذیت کا باعث بنتا ہے۔ خاقان اپنی دونوں بیٹیوں کے یہاں مع اپنے لاؤ لشکر قیام کی غرض سے جاتا ہے لیکن وہ دونوں والد کے ساتھ انتہائی ظالمانہ اور ناقابلِ برداشت سلوک کرتی ہیں۔ خاقان نے اپنی بیٹیوں سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں وہ دم توڑ دیتی ہیں۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس جانکاہ صدمے سے پاگل ہو جاتا ہے اور جنگل کا رخ اختیار کرتا ہے۔
مصائب کے اس طوفان میں دونوں وزیرارسلان اور سعدان،زارا اور اس کا شوہر خاقان کا ساتھ دیتے ہیں۔وزیر سعدان کے دو بیٹے ہیں بیرم اور پرویز۔ پرویز نیک اور شریف ہے جب کہ بیرم انتہائی مکار ، دغا باز، سازشی اور آوارہ ہے۔ وہ ایک جعلی خط کے ذریعہ والد سعدان پر یہ ثابت کر دیتا ہے کہ پرویز جائداد کے لالچ میں سعدان کو قتل کرنا چاہتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وہ خود باپ کو اپنے راستے سے ہٹانا چاہتا ہے۔سعدان ، بیرم کے ذریعہ طرّم سپہ سالارکو خط بھجواتا ہے جس میں اس کو شہنشاہ خاقان کا ساتھ دینے کے لیے لکھا ہے۔ بیرم وہ خط طرّم کی بجائے ماہ پارہ اور دل آرا کو دکھاتا ہے جس پر انھیں بہت غصہ آتا ہے اور وہ غدّاری کے جرم میں سعدان کو مار ڈالنا چاہتی ہیں مگر عین وقت پر دل آرا کا شوہر جلاّد کو ہلاک کر دیتا ہے اور سعدان کی طرف داری کرتا ہے۔ ردِّ عمل کے طور پر دل آرا اپنے شوہر کو ختم کر دیتی ہے اور ماہ پارہ ،سعدان کے گولی مار دیتی ہے۔ دونوں خبیث بہنیں ماہ پارہ اور دل آرا اپنے باپ خاقان کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتی ہیں۔ بیرم بیک وقت دونوں بہنوں سے اپنی جھوٹی محبت کا دعویٰ کرتا ہے۔ وہ تینوں بہنوں اور خاقان کو قتل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے تاکہ وہ سلطنت پر قابض ہو جائے۔ بیرم، ماہ پارہ کو زارا کے قتل کے لیے آمادہ کرتا ہے۔ وہ دل آرا کو شراب پلا کر مست کر دیتا ہے۔ وہ عالمِ نشہ میں زارا کے پلنگ پر لیٹ جاتی ہے۔ مرتے وقت دل آرا ، ماہ پارہ کو بیرم کی چال بازی کے متعلق بتا دیتی ہے۔ ماہ پارہ، بیرم کے طمنچہ مارتی ہے اور بیرم ، ماہ پارہ کے۔ دونوں مر جاتے ہیں۔ خاقان کو جو سپاہی گرفتار کر کے لے گئے تھے ان کو زارا کا شوہر ختم کر دیتا ہے۔ آخر میں شہنشاہ خاقان ، زارا اور اس کا شوہر تینوں مل جاتے ہیں۔
’’سفید خون‘‘ میں زارا کا کردار سب سے زیادہ متاثر کرتا ہے۔ اس کا کردار ایک حق پسند ، صاف گو، فرمانبردار اور اطاعت گزار بیٹی کا کردار ہے۔ حالانکہ سچ بولنے پر خاقان اسے اپنی ملکیت میں اس کا حق دینے سے قطعی انکار کر دیتا ہے۔ لیکن جب دونوں بیٹیوں ماہ پارہ اور دل آرا کے غیر انسانی اور بہیمانہ سلوک سے وہ اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھتا اور مصائب کے طوفان میں گھِر جاتا ہے تو زارا ہی اس کی خبرگیری کرتی اور بیٹی ہونے کا فرض خوش اسلوبی سے انجام دیتی ہے۔ وہ بلندیِ کردار اور راست بازی کی وجہ سے قارئین و ناظرین کی ہمدردی حاصل کر لیتی ہے۔ وہ شرافت ،ایمانداری اور فرض شناسی جیسے اوصاف کا ایک جیتا جاگتا نمونہ ہے۔
خاقان کے کردار میں جذبات کی شدّت،گفتگو میں تیزی اور مزاج میں غصہ اور خوشامد پسندی پائی جاتی ہے۔ وہ خود اپنی کمزوریوں کا شکار ہو کر مصیبتوں میں گرفتار ہوتا ہے۔ وہ غصہ ور اور خوشامد پسند ہے اور اسی کمزوری کے باعث وہ غلط فیصلہ کر کے پریشانیوں اور تکلیفوں کو دعوت دیتا ہے۔ ماہ پارہ اور دل آرا کے ناقابلِ برداشت سلوک سے اس کے شاہانہ وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے۔ ان کے خلاف اس کے سینے میں نفرت کا دہکتا ہوا لاوا بد دعاؤں کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ خاقان کو یہ احساسِ شدید کہ خوشامد اور جھوٹی تعریف ہی کی وجہ سے وہ اپنا سب کچھ لٹا بیٹھا اور سچ کو برداشت نہ کر سکا ، بار بار کچوکے لگا تا ہے اور اسے ایک عام انسان کے دکھوں کا اندازہ ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ خاقان کا کردار انتہائی عبرت ناک اور سبق آموز ہے جو زندگی کے نشیب و فراز کا آئینہ دار ہے۔
ارسلان اور سعدان ، نیک دل ، سعادت مند، فرمانبردار وزیر ہیں جو ہر حالت اور ہر قیمت پر اپنے مالک خاقان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس کا احترام کرتے ہیں اور اس کی مصیبت میں برابر کے شریک ہیں۔ماہ پارہ اور دل آرا اور بیرم کے کردار ہمارے معاشرے کے ایسے کردار ہیں جو اقتدار کی ہوس میں ہرنا جائز کام کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ احسان فراموشی جن کا شیوہ اور دوسروں حتیٰ کہ اپنے شوہر اور باپ کو ایذا پہنچانا جن کا مقصدِ حیات ہے۔
حشرؔ نے ماہ پارہ ، دل آرا اور بیرم کے کرداروں کے ذریعہ ہمارے سماج کے ایسے افراد کی تصویر کشی کی ہے جو انتہائی خودغرض ، ناپاک اور رذیل ہیں جو اپنے مقدس رشتوں کا بھی ذرہ برابر لحاظ نہیں رکھتے۔ معاشرے کو بگاڑنے اور اسے اپنے اعمالِ بد سے پستی کے غار مین ڈھکیلنے کے ذمہ دار ہیں۔ ایسے افراد کا انجام ہمیشہ عبرت ناک ہوتا ہے جیسا کہ ماہ پارہ ، دل آرا اور بیرم کا ہوا۔
حشرؔ ، پرویز کے ساتھ انصاف نہ کر سکے۔ اسے اپنے اوپر لگائے گئے الزام کا علم بھی نہ ہو سکا۔ بیرم، سعدان کو پرویز سے متنفر کرنے میں کامیاب ہو گیا لیکن پرویز کو اتنا موقع نہ دیا گیا کہ وہ اپنی صفائی پیش کر سکتا۔ اس طرح ایک اچھا کردار بے جان ہو کر رہ گیا۔
سفید خون کے کردار مافوق الفطرت کردار نہ ہو کر زندگی کے گوناگوں پہلوؤں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ کردار معاشرے کو سنوارنے اور بگاڑنے میں موثر رول ادا کرتے ہیں۔ خاقان کے کردار کو پیش کرنے میں حشر نے اپنی فنّی کاریگری اور ڈرامائی صلاحیت کا پورا ثبوت دیا ہے۔
زبان و بیان :۔ ڈرامے کی زبان صاف اور سلیس ہے۔ مکالموں میں خطابت کا رنگ غالب ہے ، کرداروں میں زورِ عمل پیدا کرنے اور ان کی شخصیت کو مؤثر بنانے کے لیے حشرؔ نے اشعار اور قافیے کا بر محل استعمال کیا ہے۔ چھوٹے چھوٹے فقروں سے کرداروں میں ایکٹ کرنے کی گنجائش پیدا کی ہے۔سفید خون میں اشعار اور گانوں کی تعداد خاصی ہے۔ گانوں میں اردو ہندی کی آمیزش ، برجستگی ،دلکشی اور موسیقی کا حسین امتزاج ہے۔ حالانکہ’’سفید خون‘‘ حشرؔ کی ڈراما نگاری کے دوسرے دور کی نمائندگی کرتا ہے لیکن اکثر محاسن کے اعتبارسے اپنے دور سے زیادہ بلند ہے۔ یہ قدیم اسٹیج کا دلچسپ اور عبرت ناک ڈراما ہی نہیں بلکہ حشرؔ کے عہد آفرین آغاز کا عمدہ نمونہ بھی ہے۔
ڈرامے کا مزاحیہ حصہ انتہائی غیر سنجیدہ ، مبتذل اور عامیانہ ہونے کی وجہ سے نہیں دیا گیا ہے۔ ویسے بھی اصل کہانی سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ راقمہ
0 comments:
Post a Comment