MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

بوستان خیال کا تنقیدی جائزہ

      بوستان خیال کا تنقیدی جائزہ

میر اقبال

    بوستان خیال ایک فارسی داستان ہے جس کے مصنف میر محمد تقی خیال ہیں۔ فارسی زبان میں اس کی پندرہ جلدیں بتائیں جاتی ہیں۔ داستان امیر حمزہ کی طرح ایک مخنیم داستان ہے۔ میر محمد تقی ۱۸۳۸ء میں احمد آباد سے ملازمت کی تلاش میں دہلی آئے یہاں بھی داستان گوئی کا شغل جاری رہا یہاں ایک امیر کے ملازم ہو گئے۔

        بوستان خیال اردو کی ایک ضخیم داستان ہے جس کا فارسی سے تر جمہ کیا گیا۔ فارسی میں پندرہ جلدوں میں یہ موجود ہے اور اس کے مصنف میر محمد تقی خیال جنھوں نے 1100 ھ میں دہلی میں اسے لکھنا شروع کیا تھا۔ ۱۷۰ھ میں مکمل کیا۔ انیسویں صدی میں اس کے کئی اردو ترجمے ہوئے سب سے پہلے عالم علی نے ۱۸۴۴ء میں زبدۃ الخیال کے نام سے اس کا ترجمہ کیا اسی زمانے میں دربار رام پور سے متعلق عالم علی خاں نے طلسم سعید کے نام سے اس کا ترجمہ کیا لکھنو میں بوستان خیال کا ترجمہ مرزا محمد عسکری نے کیا پھر کئی لوگوں نے اس کے تراجم کیے جو نول کشور پریس سے ؟

جلدوں میں چھپے۔

            اس داستان کے مرکزی کردار معز الدین صاحب قرآن اکبر) خورشید تاج بخش (صاحب قرآن اعظم ) اور بدر منیر ہیں معز الدین حسن پرست اور بہادر انسان ہے داستان میں ۵ بڑے طلسم میں تین طلسم کے فاتح ہیں۔ ان پر داروند حکمت حکیم قسطاس کی نگاہ کرم ہے۔ جس سے ہر مشکل آسان ہو جاتی ہے۔ بیگمات کے میں شمسہ تاجدار اور ملکہ نو بہار گلشن افروز ہیں۔ دشمنوں میں جمشید خود پرست ہے۔ دیگر داستانوں کی طرح اس میں بھی عیاروں کی ایک جماعت موجود ہے جو بڑے

کارنامے انجام دیتی ہے۔ جمشید خود پرست پہلے مصر کا وزیر تھا پھر بادشاہ کو مار کر خود بادشاہ بن گیا۔ جادو میں اس کو مہارت حاصل ہے۔ 

     اس داستان کے اصل ہیرا معز الدین کے حالات اتنے طول طویل ہو گئے ہیں کہ ایک وقت میں تین کہانیاں بیان کی گئی ہیں پروفیسر گیان چند کے الفاظ میں ہر داستان اتنی پیچیدہ ہے اس میں اتنے زیادہ افراد، اتنے ممالک، اتنے واقعات ہیں کہ وہ اگر سر تا پا مسلسل لکھے جائیں تب بھی حافظہ میں محفوظ رہنا مشکل ہے۔ بیچ بیچ میں سودوسو صفحے کی دوسری داستانیں آجاتی ہیں۔ خورشید کے ساتھ پانچ اور رفیق ہیں جو ملتے بچھڑتے ہیں ۔ سب کا کردار یکساں ہے صرف نام کا اختلاف ہے۔ اس میں طرح طرح کی جنگیں اور طرح طرح کے جادو سامنے آتے ہیں داستان میں پانچ بڑے طلسم ہیں مثلاً اجرام، ابسام، بیضا وغیرہ عیاروں میں ابوالحسن جو ہر سب سے نمایاں ہے۔ 

       اس داستان میں عیار منیر توفیق کو داستان امیر حمزہ کے عمر و عیار کی نقل کہا جاسکتا ہے۔ بوستانِ خیال کے جادوگر کا درجہ داستان امیر حمزہ کے جادوگروں سے بلند نہیں بلکہ یہ خاصے کمزور ہیں اس داستان کا مصنف جادو کے بے تحاشا استعمال کا قائل نہیں چنانچہ یہ داستان داستان امیر حمزہ کے رتبہ کو نہیں پہنچ سکی ہے پھر بھی اس قصے میں واقعیت نگاری کا وہ احساس

جس کے تحت محمد تقی خیال اپنی داستان کو حقیقت سے قریب لانے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں اہمیت رکھتا ہے۔

         بوستانِ خیال کا مصنف اپنے کرداروں کے تعارف میں کافی طوالت سے کام لیتا ہے۔ معز الدین کے اباواجداد پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے اور اس سلسلے میں مشہور تاریخی کتابیں تاریخ طبری، مرات الخیال وغیرہ کے تفصیل سے حوالے دیئے گئے ہیں، بیان واقعہ میں جگہ جگہ داستان نگار نے اپنے علم وفضل کا اظہار کیا ہے۔ بڑی فلسفیانہ گفتگوئیں ملتی ہے، مذاہب عالم کے بارے میں معلومات دی گئی ہے، کائنات کی تخلیق کی کہانی کہی گئی ہے، طب و نجوم پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ 

         مصنف فحش باتیں لکھنے میں بھی کسی تکلف سے کام نہیں لیتا ۔ صاحب قرآنوں ، عیاروں اور جادوگروں کی اوارگی اور عیاشی کا ذکر تفصیل سے ملتا ہے۔ کلیم الدین کے الفاظ میں ” یہ سب ظرافت کے لیے کیا گیا ہے“۔ داستان کی زبان سلجھی ہوئی ہے لیکن طلسم ہوش ربا کی طرح دلکش نہیں ۔ فارسی اشعار اور الفاظ بھرے ہوئے ہیں بہر حال یہ ساری داستانوں کا سر چشمہ مانی جاتی ہے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment