میر کی غزل گوئی
میر اقبال
میر کو اردو شاعری کا خدائے سخن کہا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا اہم وصف قلبی واردات کا اظہار ہے۔ ان کی عظمت کا اعتراف بڑے بڑے شاعروں نے کیا ہے۔ غالب ان کے بارے میں فرماتے ہیں ؎
ریختہ کے تم ہی استاد نہیں ہو غالب
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا
ذوق بھی کمال میر کے معترف ہیں۔فرماتے ہیں؎
نہ ہوا پر نہ ہوا میر کا انداز نصیب
ذوق یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
حالی نے اپنے مقدمہ شعر و شاعری میں چاک گریباں کی جو تفصیل بیان کی ہے اس میں سب سے بہترین شعر میر کے اس شعر کو قرار دیا؎
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
میر کی شاعری کوالمیہ رنگ و آہنگ ان طوفانوں نے بخشا تھا جس سے وہ اپنی ذاتی زندگی میں گزرے تھے ۔ مشہور شاعر شیلے کا قول کہ” ہمارے شیریں ترین نغمے غم انگیز خیالات کی ترجمانی کرتے ہیں ۔ صحیح ہے تو میر کی شاعری یقینی طور پر اسی خیال کی عملی تفسیر ہے۔ دہلی کی بربادی کا بھی میر کی شاعری پر گہرا اثر پڑا۔ چنانچہ بقول خواجہ احمد فاروقی ان کی شاعری دلی اور دل کا مرثیہ بن گئی ۔ میر خود لکھتے ہیں ؎
دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا
ان کے یہاں عشق ایک ایسی آگ کے مانند ہے جوان کی ہڈیوں تک کو جلا دیتی ہے۔ زندگی بسر کرنے کا جو حوصلہ اور غموں میں مسکرانے کا جو پُر وقار انداز ہمیں میر کے یہاں ملتا ہے کہیں اور نہیں ملتا ۔ ان کے یہاں خود داری اور سنجیدگی کے ساتھ مصیبت سے لڑنے کا حوصلہ موجود ہے ۔اسی ضمن میں یہ شعر ملاحظہ ہوں؎
مرے سلیقے سے میری بھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
میر نے اپنی شاعری کی بنیاد حقائق نگاری پر رکھی اور ان تلخ حقیقتوں کو اشعار کا جامہ پہنایا جن سے ہمارے شعر اگھبراتے تھے۔ حقائق نگاری کی بنا پر ان کے اشعار در دو کرب میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ میر کو بھی اس کا احساس تھا۔ چنانچہ انھوں نے خود ہی اپنی شاعری کو دردو غم کا مجموعہ قرار دیا ؎
ہم کو شاعر نہ کہو میر کہ صاحب ہم نے
درد و غم اتنے کئے جمع کہ دیوان ہوا
جہاں سے دیکھیے اک شعر شور انگیز نکلے ہے
قیامت کا ساہنگامہ مچا ہے میرے دیواں میں
زندگی کے پیچ و تاب سے گزرنے اور طرح طرح کی صعوبتیں اٹھانے کی وجہ سے میر کے کلام میں سماجی شعور جھلکتا ہے۔ ان کا خیال تھا کہ سب کچھ بننا آسان ہے مگر حقیقی انسان بننا نہایت دشوار ۔ وہ دل کے نازک آبگینے کو سنبھال کر رکھنے کا مشورہ دیتے ہیں ؎
لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کا رگہہ شیشہ گری کا
دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے سنو ہو یہ بستی اجاڑ کے
میر نے اپنی غزلوں میں واردات عشق کی طرح طرح سے عکاسی کی ہے اور اس کو ہر پہلو سے بیان کیا ہے مگر ان کا معیار عشق بہت بلند ہے۔ ان کو کائنات کے ہر ذرے میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے اس لئے ان کو اس دنیا کا ہر انسان عزیز ہے۔ انھوں نے عشق کے ساتھ ساتھ عقل کو بھی اہمیت دی ہے۔ میر اپنی نامراد ہوں کو تقاضائے عشق قرار دیتے ہیں اورناسازگار حالات میں بھی اپنے اندر ہمت و حوصلہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میر کی شاعری میں مجازی محبت کے ساتھ ساتھ حقیقی محبت کے جلوے بھی نظر آتے ہیں۔ ان کو کا ئنات کے ہر ذرے میں خدا کا جلوہ نظر آتا ہے۔ میر کے یہاں زندگی بسر کرنے کا جو سلیقہ ہمیں نظر آتا ہے وہ واقعی حیران کن ہے۔ انتہائی غم کے باوجود میر زندگی سے گھبراتے نہیں ؎
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا
مت سہل ہمیں جانو پھرتا ہے فلک برسوں
تب خاک کے پردے سے انسان نکلتے ہیں
میر کے فن میں غنائیت، موسیقیت اور ترنم ہے اور الفاظ کی تکرار سے اس میں اور بھی سریلا پن بڑھ جاتا ہے۔ وہ اپنے کلام میں فارسی الفاظ و تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندی الفاظ بھی استعمال کرتے ہیں۔ میر الفاظ کے جادو گر ہیں ان کے یہاں سادگی وسلاست کےساتھ ساتھ دلکش ترکیبیں اور صنائع بھی ہیں۔ خوشنما فارسی تراکیب کا استعمال میر کے کلام کی نمایاں خصوصیت ہے؎
پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے
میر کو عمر بھر اپنی زبان اور اپنے اطوار پر ناز رہا لکھنؤ آنے کے بعد بھی انھوں نے سرخم نہ کیا اوراپنی زبان کا پرچم سرنگوں نہ ہونے دیا البتہ یہ شکوہ ضرور رہا؎
کس کس ادا سے ریختہ میں نے کہا ولے
سمجھا نہ کوئی میری زباں اس دیار میں
غرض میر الفاظ و معنی کا توازن قائم رکھنے، ایجاز و اختصار سے بات کہنے، محاور نے اور لفظی رعایتوں کا اہتمام کرنے اور اجزائے کلام کی اصلی ترتیب کو قائم رکھنے میں ماہر ہیں۔ چنانچہ ان کی غزل کیا فکر کیا جذبہ کی زبان ہر پہلو سے سر بلند ہے اور آج بھی وہ غزل کی دنیا میں سب سے ارفع و اعلیٰ مقام رکھتے ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment