سر محمد اقبال کی نظم نگاری
اقبال نے اردو شاعری میں نئی روح پھونکی ۔ ان کی شاعری میں خودی ، بے خودی ،عمل عشق ومحبت جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ اقبال ملک وقوم کی خدمت انجام دینا چاہتے تھے اسی لئے انھوں نے اردو نظم کی طرف خاص توجہ دی۔ ان کے یہاں قومی نظمیں اور پھر عالمی نظمیں ملتی ہیں ۔ مناظر فطرت کی بھی وہ بہترین عکاسی کر تے ہیں ۔ان کی مختصر نظموں میں جبریل وابلیس ،لینن خدا کے حضور میں اور شعاع امید اور طویل نظموں میں مسجد قرطبہ ، ساقی نامہ خضر راہ، ابلیس کی مجلس شوری ،شمع و شاعر ، ذوق و شوق ،شکوہ، جواب شکو ہ وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔
ان کی شاعری کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں ۔ اقبال کی شاعری کا ابتدائی دور ۱۹۰۵ء تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس دور کی نظمیں و غزلیں ان کے مجموعہ کلام بانگ درا میں ملتی ہیں ۔انھوں نے ابتدا میں روایتی انداز کی شاعری کی اور وطن کی عظمت کے ترانے گاۓ اور فطرت کے حسن کو بے نقاب کیا ۔ ہندوستان کے مختلف حسین مناظر دریا، پہاڑ ، پھول اور پتے انھیں بہت متاثر کرتے ہیں ۔ ترانہ ہندی ، نیا شوالہ ان کی حب وطن کی نظمیں ہیں؎
سونی پڑی ہوئی ہے مدت سے دل کی بستی آ اک نیا شوالہ اس دیش میں بنادے
د نیا کے تیرتھوں سے اونچا ہواپنا تیرتھ ر دامان آسماں سے اس کا کلش ملادے
اس دور میں اقبال نے بہت سی انگریزی نظموں کا اردو میں ترجمہ بھی کیا مثلا پہاڑ اور گلہری ، مکڑا اور مکھی ، گائے اور بکری وغیرہ۔ اس میں تشبہیہ ،استعارہ، منظر نگاری و محاکات کے جادو جگاتے ہیں
پانی کو چھو رہی ہے جھک جھک کے گل کی ٹہنی جیسے حسین کوئی آئینہ دیکھتا ہو
آتی ہے ندی فراز کوہ سے گاتی ہوئی کوثر تسنیم کی موجوں کو شرماتی ہوئی
اس دور میں اقبال نے گل رنگین ، شمع ، ماہ نو اور خفتگان خاک سے سوال جیسی تنظیمیں بھی لکھیں جس میں اقبال دنیا کے عظیم مسائل پر غور وفکر کرنے کی کوشش کرتے نظر آ تے ہیں۔
اقبال کی شاعری کا دوسرا دور ۱۹۰۵ء سے شروع ہوتا ہے۔ جب وہ یورپ تشریف لے گئے اور وہاں تین سال مقیم رہے ۔ اس دور میں فارسیت کی طرف متوجہ ہوۓ اور شاعر کے ساتھ انھوں نے پیامبر کی حیثیت حاصل کر لی ۔ ان کی فکر و خیال کی دنیا میں انقلاب برپا ہوا۔ یورپ کے فلسفہ اور اسلامی فلسفہ کا نھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ۔ اس دور میں ان کی نظموں میں فلسفیانہ رنگ گہرا ہے۔ وطن پرستی کے محدود دائرے سے نکل کر وہ آفاقی مسائل کی طرف متوجہ ہوئے ۔ انھوں نے اس دور کے سنگین مسائل کی طرف توجہ کی ۔ جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام کوتنقید کا نشانہ بنایا۔ وہ دنیا کو یہ پیغام دینے لگے۔
نرالا سارے جہاں سے اس کو عرب کے معمار بنایا بناہمارے حصار ملت کی اتحادوطن نہیں ہے
۱۹۰۸ء سے اقبال کی شاعری کا درخشاں دور شروع ہوتا ہے ۔اس دور کی شاعری کی بدولت ان کو دنیا کے لازوال شعرا کی صف میں جگہ ملی ۔اس دور میں اقبال اپنے اہل وطن اور ملت اسلامیہ کوخود اعتمادی کے ساتھ یہ پیغام دیتے ہیں؎
یقیں محکم عمل پیہم محبت فاتح عالم جہاد زندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیر میں
اب اقبال جو ترانہ ہندی گاتے تھے ۔ واضح طور پر وطن پرستی وقوم پرستی کوانسانی تہذیب کی بقا ارتقا کی راہ میں حائل قرار دیتے ہیں اور اس بت کو توڑنے کا پیغام دیتے ہیں جوصرف وطن پرستی کی تعلیم دیتا ہے ؎
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اپنی مشہور نظم شکوہ جواب شکوہ میں اقبال نے اتحاد وملت کی دعوت دی اور اپنے پیام کوشعر کا جامہ پہنایا۔ وہ مسلمانان کو اسلامی طرز اختیار کر نے ،قرآن پر عامل ہونے اور رسول سے والہا نہ تعلق استوار کر نے کا پیغام دیتے ہیں ؎
حرم پاک بھی اللہ بھی قرآن بھی ایک کچھ بڑی بات تھی ہوتے جومسلمان بھی ایک
کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
جب ہندوستان میں خلافت کی تحریک شروع ہوگئی ۔ جلیان والا باغ اور مسجد کانپور کی شہادت جیسے واقعات پیش آۓ ۔اس موڑ پر اقبال نے اپنی مشہور نظم خضر راہ لکھی ۔ اس نظم میں اقبال اپنی اصل صورت میں نمودار ہوتے ہیں ۔ اس نظم میں عالم اسلام کے انتشار اور جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کا نقشہ پیش کیا گیا ہے ۔ اسی نظم میں اقبال کی صحرائیت پسندی اور تکلف و تصنع سے نفرت کا اظہار ملتا ہے ؎
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی یا بندۂ صحرائی یا مرد کمہستانی
بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوۓ کم آب اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی
اقبال کی نظموں کے مجموعے بانگ درا ، بال جبر میں ، ضرب کلیم اور ارمغان حجاز منظر عام پر آۓ ۔ ان کی نظموں میں ترنم وتغزل کی کیفیت ملتی ہے ۔ ان کے مجموعے بال جبریل کی سب سے اہم نظم مسجد قرطبہ ہے۔ اس میں اقبال کی فکر اورفن دونوں کا شاہکار ہے ۔نظم ساقی نامہ میں فارسی ترکیبیں ،تلمیحات استعارے سلاست و روانی ملتی ہے ۔ منظرکشی ،جذبات نگار فلسفہ وحکمت کے جواہر پارے اس میں موجود ہیں ۔
عشق دم جبرئیل عشق دل مصطفی عشق خدا کا رسول عشق خدا کا کلام
ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ غالب و کارآ فر یں کارکشا کارساز
تصو ر خودی کو اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ اگر خودی کے تصور کو سمجھ لیا جائے تو اقبال کی شاعری کو سمجھنا آسان ہو جاتا ہے۔ اقبالیات کے ہر نقاد نے خودی پر کسی نہ کسی شکل میں اظہار خیال کیا ہے۔ اقبال کے نقطہ نظر سے ”خودی“ زندگی کا آغاز، وسط اور انجام سبھی کچھ ہے۔ فرد وملت کی ترقی و تنزل، خود ی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔ خودی کا تحفظ، زندگی کا تحفظ اور خودی کا استحکام، زندگی کا استحکام ہے۔ ازل سے ابد تک خودی ہی کی کارفرمائی ہے۔ اس کی کامرانیاں اور کار کشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں۔ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نئے انداز میں کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز دورنِ حیات
خودی کیا ہے بیدارئی کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حداس کے پیچھے نہ حد سامنے
زمانے کی دھارے میں بہتی ہوئی
ستم اس کی موجوں کے سہتی ہوئی
خودی کا نشیمن ترے دل میں ہے
فلک جس طرح آنکھ کے تل میں ہے
خودی کا سرِ نہاں لاالہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لاالہ الا اللہ
اقبال کے کلام میں مرد مومن کی صفات اور خصوصیات کو کافی تفصیل سے پیش کیا گیا ہے اور ان صفات کا بار بار تذکر ہ اس صورت سے کیا گیا ہے۔ کہ اس کی شخصیت اور کردار کے تمام پہلو پوری وضاحت سے سامنے آجاتے ہیں۔ یہ مرد مومن وہی ہے جس نے اپنی خودی کی پوری طرح تربیت و تشکیل کی ہے اور تربیت اور استحکامِ خودی کے تینوں مراحل ضبط نفس، اطاعت الہٰی،اور نیابت الہٰی طے کرنے کے بعد اشرف المخلوقات اور خلیفتہ اللہ فی الارض ہونے کا مرتبہ حاصل کر لیا ہے۔اقبال کا مرد مومن حیات و کائنات کے قوانین کا اسیر نہیں بلکہ حیات و کائنات کو اسیر کرنے والا ہے۔ قرآن مجید نے انسانوں کو تسخیر کائنات کی تعلیم دی ہے اور مرد مومن عناصر فطرت کو قبضے میں لے کر ان کی باگ اپنی مرضی کے مطابق موڑتاہے۔ وہ وقت کا شکار نہیں بلکہ وقت اس کے قبضہ میں ہوتا ہے۔
جہاں تمام ہے میراث مرد مومن کی
مری کلام پہ حجت ہے نکتہ لولاک
مہر و مہ و انجم کا محاسب ہے قلندر
ایام کا مرکب نہیں راکب ہے قلندر
ان کی نظموں میں صوتی نغمگی اور خوش آہنگی ترنم قدم قدم پر ہے ۔ محا کات کی عمدہ مثالیں ملتی ہیں۔ الفاظ کے تکرار سے بھی خوش آہنگی کا کام لیتے ہیں ؎
عشق کی مضراب سے نغمہ تار حیات عشق ہے نورسیات عشق ہے تارحیات
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف وصوت معجز و فن کی ہے خون جگر سے نمود
0 comments:
Post a Comment