آغا حشر کاشمری کی ڈراما نگاری
میر اقبال
آغا حشر نے ۱۹۰۱ء سے ڈارمے لکھنے شروع کیے اور ۳۲ سال ڈراموں کی دنیا میں گزار دیئے ۔ بہت ہی جلد انھوں نے اتنی شہرت حاصل کرلی کہ اردو ڈرامے کے شیکسپر کہلائے۔ انھوں نے ڈرامے کے معیار کو بہت بلند کیا انھیں بچپن سے ڈرامے کا ایسا شوق ہوا کہ وہ بنارس سے بمبئی بھاگ گئے جہاں ابتدا میں وہ الفریڈ تھیٹریکل کمپنی میں ملازم ہوئے بعد میں انھوں نے خود اپنی ایک کمپنی قائم کی اور شیکسپیر تھیٹریکل کمپنی اس کا نام رکھا۔ آغا حشر کے ڈرامے اردو ڈرامہ نگاری میں سنگ میل کا درجہ رکھتے ہیں۔ انھوں نے ڈرامہ نگاری کے تقاضوں کو پورا کیا اور اس صنف کے لیے راہیں ہموار کیں اور ڈرامے کو ادبی معیار بخشا اور اس صنف میں کافی ترقی کی ۔ انھوں نے عوام کے ذوق کی تربیت کی ڈرامے اور اسٹیج کو بلندی پر پہنچا دیا۔ آغا حشر نے ڈراموں میں کچھ تبدیلیاں کیں۔ اس میں گانوں کی بے جا تعداد کو کم کیا اور مکالمے عام بول چال سے قریب کیے ۔ ڈرامے کے اصول کے مطابق چھوٹے چھوٹے فقرے لکھے لیکن قافیے کی پابندی کو برقرار رکھا۔ عوام کے مزاج اور مذاق کے مطابق ڈرامہ کو ڈھال کر نئی اور ادبی شکل بخشی انھوں نے ڈراموں میں نشر کا حصہ زیادہ رکھا۔ ڈراموں میں سیاسی اور سماجی افکار داخل کیے اور زبان کو با معنی بنایا۔ آغا حشر لکھتے ہیں؎ میں وقت اور سوسائٹی کی حالت کو پیش نظر رکھتا ہوں اور اس کے پیش نظر اپنا اصلاحی پروگرام مرتب کرتا ہوں ۔ میں نے منتقلی اور بے سر و پاڈراموں کو ، جن کا آج سے میں برس پہلے بہت رواج تھا اسٹیج کو خیر باد کہنے کے لیے مجبور کر دیا ہے لیکن مجھے پبلک کو ادبی ڈراما کے لیے تیار کرنے پر کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑا۔“ آغا حشر کے ڈراموں کی بنیاد کش مکش پر ہوتی ہے۔ پلاٹ عام طور پر سادہ ہوتا ہے ۔ ان کے ڈراموں میں شدید کش مکش کے بعد سچائی کی جیت اور باطل کی ہار ہوتی ہے ۔ ان کے کامیاب ڈراموں میں خوبصورت بلا، یہودی کی لڑکی ، دل کی پیاس ، آنکھ کا نشہ ، ترکی حور ، رستم و سہراب وغیرہ بہت مشہور ہیں اور ان میں اصلاحی، مقصد زیادہ دکھائی دیتا ہے ۔ سلور کنگ وہ ڈراما ہے جو انگلستان کے علاوہ امریکہ کے اسٹیج پر بھی اپنی آب و تاب دکھاتا رہا اور آغا حشر نے اسے سلور کنگ کے نام سے اردو میں ترجمہ کیا اور اس میں کچھ تبدیلیاں بھی کیں ۔ یہ ڈراما حشر نے ۱۹۱۰ء میں لکھا اور اپنی ذاتی کمپنی سے اس کا پہلا شو کیا۔ یہ ڈراما نیک پروین کے نام سے بھی مشہور ہوا۔ اس کے علاوہ یہ مختلف ناموں سے بھی کئی جگہ اسٹیج ہوا۔ نیک پروین ، پاک دامن ، اچھوتا دامن ، جرم دفا، ناعاقبت اندیش، دو چور وغیرہ ۔ اس ڈرامے میں اشعار کا استعمال کم ہے ۔ مقفی اور مجمع زبان سے پر ہیز ہے ۔ اردو زبان میں مکالمے ہیں جو بہت سلیس ہیں ۔ اس کے کرداروں میں پروین افضل اور تحسین پورے ڈرامے میں چھائے ہوئے ہیں۔ اور پروین کے کردار کو بہت سنوار کر پیش کیا گیا ہے ۔ یہ ایک عبرت آموز ڈرامہ ہے۔ آغا حشر نے شیکسپیر وغیرہ کے ڈراموں کو اردو میں ترجمہ کیا ہے اور ہندی میں بھی بہت سے ڈرامے تصنیف کیسے اور ڈرامے میں بھی عوامی کردار کو جگہ دینے کا سلسلہ شروع کیا۔ زمانے کے مزاج کے مطابق ڈرامے میں نوک جھونک ، فقرہ بازی، شوخی و شرارت کو جگہ دی اور عوام کی پسند کے مطابق ڈراموں کے گانوں کو دوبارہ بھی نایا جا تا تھا یا کسی منظر کو بھی دہرایا جاتا تھا۔ ان کی کمپنی شیکسپیئر تھیٹریکل کمپنی بہت کامیاب ہوئی اور بہت سے شہروں میں جاکر اس کے ذریعہ ڈرامے اسٹیج کیے جاتےتھے ۔ اس میں اصلاحی مقصد کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ زبان عوام کے مطابق دلچسپ ہوتی تھی غرض آغا حشر نے ڈراما نگاری کے تمام تقاضوں کو پورا کیا۔
0 comments:
Post a Comment