منٹو اور ٹھنڈا گوشت
میر اقبال
کہانی کہنا اور کہانی سنا انسانی جہات میں شامل ہے۔ لیکن کہانی کو اسٹیج پر دیکھنا، لفظ بہ لفظ ڈرامائی پیش کش کی تکنیک کے ساتھ ، کہانی سننے ہرا اور دیکھنے سے زیادہ دلچسپ ہوتا ہے۔ میں اسکول کے زمانے میں ہی اردو ہندی کے لگ بھگ سینکڑوں مشہور اور غیر مشہور افسانہ نگاروں کے کئی افسانے پڑھ چکا تھا۔ جب شعور بالیدہ ہوا تو یہ شوق اور بھی گہرا ہوتا گیا اور او مغربی افسانہ نگاروں کے افسانے پڑھنے لگا۔ میں نے راجندرسنگھ بیدی ہے کرشن چندر، عصمت چغتائی، خواجہ احمد عباس بلونت سنگھ کو بھی اپنے ۔ مطالعہ خاص میں رکھا ہے۔ جس طرح موپاساں کی کہانیاں قاری کو غور و فکرکرنے پر مجبور کرتی ہے ٹھیک اسی طرح منٹو بھی اپنے قاری کو مجبور کرتا ہے کہ وہ غور و فکر کرے۔
جب میں نے غور و فکر کرنا شروع کیا تو منٹو کے بھی کئی افسانے " میری سمجھ سے باہر تھے۔ جب میں نے پہلی بار اظہر عالم کی ہدایت میں - لعل کیسپیئن کے پیش کردہ منٹو کے چار افسانے اولاؤ " کھول دو، سہائے “ اور ”ٹھنڈا گوشت کو اٹیچ پر دیکھا تو میں دم بخود ہو گیا اور ساتھ ہی ساتھ بہت ساری الجھنیں جو منٹو کے افسانہ "ٹھنڈا گوشت سے منسلک تھیں وہ دھیرے دھیرے clear ہوتی گئیں۔ اس کہانی کے Presentation میں جو رول اظہر عالم ( ایشر سنگھ کے کردار میں ) اور ان کی اہلیہ او ما جھن جھن والا ( کلونت کور کے کردار میں ) نے نبھایا ہے وہ ہر طرح سے قابل تحسین ہے۔ اس Show سے پہلے میرے شعور نے جو کچھ ٹھنڈا گوشت کے متعلق سمجھا تھاوہ ادھورا تھا اور جب میں نے show دیکھا تو منٹو کے وہ فکری گوشے جو ان کے معتوب افسانے سے جڑے ہیں میرے ذہن و دل میں عیاں ہونے لگے۔
منٹو انسانی نفسیات کا گہرا نباض ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کی ترجمانی میں اُس نے کہیں نہ کہیں نفسیاتی حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ لیکن جو افسانے حقائق کو بنیاد بنا کر نہیں لکھے گئے ہیں ان میں بھی قدم قدم پر نفسیاتی حقائق کی ترجمانی نظر آتی ہے۔ منٹو نے خالص جنسی موضوعات پر جو چند افسانے لکھے ہیں اور جن پر خاصا ہنگامہ ہوا ہے وہ بھی نفسیاتی حقائق کی ترجمانی کے سلسلے ہی کی ایک کڑی ہے۔
منٹو کے لگ بھگ ۵ معتوب افسانے ہیں۔ جن میں ٹھنڈا گوشت" ہر اعتبار سے ایک نفسیاتی افسانہ ہے ۔ حالاں کہ کالی شلوار، دھواں ، بواور کھول دو‘ بھی معتوب افسانے ہیں۔ ہدایت کار اظہر عالم نے جس خوب صورت سے ٹھنڈا گوشت
اور کھول دو“ کو ادا کاروں کے ذریعے Stage پر پیش کیا وہ بہترین ہدایت کاری اور اداکاری کا نمونہ ہے۔ Original کہانی کو ادا کاروں کے ذریعے جس طرح اظہر صاحب نے پیش کیا ہے میں سمجھتا ہوں کہ وہ نفسیات جو منٹو پیش کرنا چاہتا تھا وہ من وعن ہمارے سامنے آگئے ۔ ” ٹھنڈا گوشت ایک نفسیاتی افسانہ ہے یہ ایشر سنگھ اور اس کی داشتہ کلونت کور کیکہانی ہے۔ جس کا پس منظر تقسیم ملک کے فسادات ہیں۔
اس افراتفری اور نفسا نفسی کے حشر ساماں دور میں ایشر سنگھ کر پان لے کر بلوائیوں کے ساتھ لوٹ مار اور قتل و غارت گری کرنے گھر سے نکل پڑتا ہے۔ ایشر سنگھ ایک مسلم گھرانے کے سات میں چھ افراد کو تہ تیغ کر دیتا ہے اور ساتو میں فرد کو جو ایک حسین نوجوان لڑکی ہے اٹھا کر لے آتا ہے پہلے تو وہ اسے بھی مار دینا چاہتا ہے لیکن اس کا ارادہ بدل جاتا ہے اور غلط کاری کی سوچ لیتا ہے اور اس فعل کو ملی روپ دینے کے لیے جیسے ہی وہ خود کو تیار کرتا ہے وہ یہ محسوس کرتا ہے کہ لڑکی مردہ ہے بالکل ٹھنڈا گوشت"۔ اس قبیح اور غیر انسانی حرکت پر اشیر سنگھ کا inner concious بیدار ہو جاتا ہے اور بہت ہی گہرا اثر اس کی نفس پر پڑتا ہے اور وہ نفسیاتی نامردی کا شکار ہو جاتا ہے۔
اظہر صاحب نے جس طرح اس کردار کے ذہنی اذیت و کرب کو اپنی اداکاری کے ذریعہ پیش کیا ہے وہ اپنے آپ میں Peerless ہے۔ جب ایشر سنگھ گھر واپس آتا ہے جہاں اُس کی Seductive Wife منتظر ہے لیکن ایشر سنگھ میں اب وہ حدت اور حرارت نہیں ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ اُدھر کلونت کور خلاف توقع مایوسی اور نا امیدی سے بھڑک اٹھتی ہے اور یہ مجھ جاتی ہے کہ اس کی اس غیر حدت کیفیت کے پیچھے کسی عورت کا ہاتھ ہے۔ وہ اس قدر ناراض ہوتی ہے کہ وہ ایشر سنگھ پر تلوار سے وار کرتی ہے اور لہولہان کر دیتی ہے اور ایشر مرجاتا ہے۔ حالاں کہ Original Form میں پیش کیا گیا ہے یہ افسانہ اس لیے گفتگو کرتے وقت ایسے الفاظ اور فقرے استعمال کرتے ہیں جن کو اگر۔
منٹو کے پیش کردہ فکری سیاق و سباق سے ہٹ کر دیکھا جائے تو وہ یقیناً معیوب اور قابل گرفت معلوم پڑتے ہیں۔ ویسے بھی ایسے حالات میں د ونوں سے شائستہ کلامی اور مہذب گفتگو کی امید کرنا بے کار ہے۔ لیکن منٹو نے گالیوں کی شکل وصورت عمد امسخ کر دی ہے تا کہ گالیاں گالیاں نہ لگیں اور ان کو آدھا ہی استعمال کیا ہے۔ اظہر صاحب کے اس کردار نے بھی بہت سلیقے سے اپنی اداکاری کی ہے۔ منٹو پر یہ بھی الزام ہے کہ اس افسانے میں کئی جگہ شہوت پرستانہ مکالمے ہیں لیکن یہ منٹو کا ہی کمال ہے کہ انہوں نے اپنی جدت طرازی سے جنسی عمل کی مبادیات کے مختلف مراحل کو " ایسے پیرائے میں پیش کیا ہے کہ پر معنی ہوتے ہوئے بھی ان میں فحاشی ۔ اور عریانی کی جھلک نہیں ملتی۔ یہ قابل اعتراض بات نہیں بلکہ قابل تحسین کوشش ہے اور منٹو نے اپنے Self-created reforms کے بہتر استعمال سے فحاشی اور عریانی پر دبیز پردہ ڈال دیا ہے۔
اظہر عالم اور اوماجھن جھن والا نے ”ٹھنڈا گوشت کے دونوں کرداروں ( ایشر سنگھ اور کلونت کور ) کو بہت ہی خوب صورت انداز میں پیش کیا ہے۔ اظہر اور او مانے جس طرح دونوں کے Facial Expression کو جو ان کے Emotional Sensation سے پیدا ہوتا ہے بہت ہی خوب صورت انداز میں ادا کیا ہے کہ سامعین کو ایسا لگتا ہے جیسے وہ منٹو کی کہانی نہیں دیکھ رہیں ہیں بلکہ ایک حادثہ کو دیکھ رہے ہیں ۔ اظہر صاحب نے جس طرح یہ منظر پیش کیا ہے وہ یقیناً قابل داد ہے۔ بحیثیت ہدایت کار اظہر نے ایشر سنگھ اور کلونت کور کے درمیان ہم بستری کے سین کو اتنی چابک دستی سے ڈیزائن کیا ہے کہ ایک لمحہ کے لیے بھی وہ سین بخش معلوم نہیں ہوتا بلکہ رونگٹے کھڑے کر دیتا ہے۔
منٹو کی یہ عورت یعنی کلونت کور در اصل موپاساں کی پیش کردہ عورت نظر آرہی تھی۔ جس طرح موپاساں کی عورت بے حد گرم اور بے باک ہوتی ہے ٹھیک یہاں بھی کلونت ویسی ہی ہے۔ موپاساں کے بارے میں یہ بات قابل تحسین ہے کہ جب وہ کلونت کور جیسی عورت کا ذکر کرتا ہے تو اللہ اس کی تحریر کا کاغذ تک تازہ گرم گوشت کے طرح پھڑ پھڑانے لگتا ہے۔ یہی کچھ کیفیت کلونت کور کی بھی ہے۔ جب یہ ڈرامہ ختم ہوا تو ہال کی اندرونی فضا میں مکمل خاموشی طاری تھی ۔ عام طور پر جب ہم کچھ دیکھ کر باہر آتے ہیں تو بات کرتے ہوئے آتے ہیں لیکن اظہر صاحب کے presentation کا یہ کمال تھا کہ ناظر چپ چاپ باہر آ رہے تھے۔ سامعین اور ناظرین منٹو کے اس نفسیاتی حقیقت کو تسلیم کر رہے تھے کہ انسان اگر انسانیت سے بھٹک بھی جائے تو بھی اس میں انسانیت کی رمق باقی رہتی ہے۔
انسان حیوان ہو کر بھی انسانیت کی طرف واپس آسکتا ہے۔ انسان جبلی طور پر انسانیت کے کھونٹے سے کچھ اس طرح بندھا ہے کہ وہ غیر انسانی فعل کرتے ہوئے بھی اپنے اندر کے انسان کا گلا گھونٹ نہیں سکتا ۔
0 comments:
Post a Comment