MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

حالی کی نظم نگاری

      حالی کی نظم نگاری

میر اقبال

حالی نے جدید انداز کی مثنویاں لکھنے کے علاوہ حقیقت پسند نظم نگاری اور نیچرل شاعری کی روایت کا آغاز کیا۔ ان کی حقیقت پسند نظم نگاری کا سلسلہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب کہ انھوں نے سر سید احمد خاں کے خیالات سے وابستگی اختیار کی اور ان سے استفادہ کے نتیجہ میں "مسدس حالی " تحریر کی جو اردو کی سب سے پہلی طویل نظم کا درجہ رکھتی ہے۔ مولانا حالی نے طویل نظم نگاری کے ساتھ ساتھ اردو نظم کو نیچرل شاعری سے بھی روشناس کیا۔ انجمن پنجاب کے مشاعروں کے ذریعہ موضوعاتی نظمیں لکھ کر مولانا حالی نے نیچرل شاعری کو فروغ دیا۔

       مولانا حالی نے حقیقت پسندی اور فطرت کی عکاسی کے ساتھ ساتھ نظم نگاری میں وطنی اور قومی تصورات کو بھی شامل کرنا شروع کیا۔ مولانا حالی کی وجہ سے ہی اردو نظم کے موضوعات میں تنوع پیدا ہوا۔ انہوں نے ہندوستان کے سیاسی و معاشرتی حالات، قومی اور ملٹی مسائل کو بھی نظم نگاری کا موضوع بنایا۔ ان کی نظمیں انگلستان کی آزادی اور ہندوستان کی غلامی" سے خود پتہ چلتا ہے کہ مولانا حالی کی شاعری کا موضوعاتی دائرہ وسیع ہے۔ سیاسی سماجی اور اخلاقی مسائل ان کی شاعری کے اہم موضوعات ہیں، ان کی نظموں کے اصل مخاطب ہندوستانی مسلمان ہیں جن کی حالی کے خیال میں اصلاح کی شدید ضرورت ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہندوستانی قوم خصوصاً مسلمانوں میں ایسی خرابیاں جڑ پکڑ چکی ہیں جو ان کے سیاسی معاشرتی اور معاشی زوال کا سبب ہیں۔ حالی ان خامیوں اور خرابیوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

      ان اوصاف کے علاوہ مولانا حالی نے اپنی نظموں میں ہئیت کی تبدیلی پر بھی توجہ دی۔ چنانچہ ان کی شاعری میں غزل اور مثنوی کی ہئیت کی نمائندگی اور مثلث ، مربع ، مخمس اور مسدس کے انداز میں نظمیں لکھنے کا انداز بھی دکھائی دیتا ہے۔ نظم نگاری کے لیے حالی کا یہ پہلا تجر نہیں تھا بلکہ ان سے قبل نظیر اکبر آبادی نے اس طرح کے تجربے کیے تھے۔ حالی کے موضوعات اپنے پیش رو شاعروں سے الگ اور نئے تھے۔    

مولانا حالی کو اردو کے نیچرل شاعر کا درجہ دے کر عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ حالی نے صرف فطرت پرستی پر نظمیں لکھی ہیں۔ ایسا تصور ایک خام خیال کی نشاندہی کرتا ہے کیوں کہ حالی کی شاعری کے مختلف موضوعات ہیں۔ انہوں نے قومی ملی معاشی معاشرتی اور سیاسی موضوعات کو ہی اپنی شاعری کا وسیلہ نہیں بنایا بلکہ سماجی ناانصافی، نا برابری، عورت کے حقوق کی پامالی اور اخلاقی گراوٹ، قوم کی تعلیمی پسماندگی پر بھی نظمیں تحریر کیں۔ حالی ایک ایسے نظم گو شاعر ہیں جنہوں نے نظم کے موضوعات کو ایک نیا انداز دیا اور اپنی نظموں کو اپنے دور کے سماج کا عکاس بنادیا۔ یہ کیفیت سب سے پہلے حالی کی نظموں میں ہی دکھائی دیتی ہے ۔ وہ اپنی مثنویوں، نظموں، شخصی مرثیوں اور شہر آشوب کے ذریعہ قدرتی مناظر کے ساتھ ساتھ اپنے زمانے کے دینی، ملی، ساجی اور معاشرتی مناظر کی بھی نمائندگی کرتے ہیں۔

      حالی کی شاعری میں مظاہرہ کائنات کے علاوہ انسان کے بنائے اصول و قوانین اور طرز زندگی بھی نظموں کے موضوعات میں شامل ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ حالی کی شاعری اور نظموں کے موضوعات محدود ہونے کے باوجود بھی اس دور کے تمام مظاہر کی بھر پور نشاندہی کرتے ہیں۔ 

           حالی نے اپنے دور میں دو مختلف کیفیتوں کو محسوس کیا۔ غدر سے پہلے اور غدر کے بعد کے حالات نے حالی کی شاعری میں بہت بڑا تغیر پیدا کیا۔ بلا شبہ اردو میں قومی اور وطنی شاعری کی روایت کا آغاز حالی کی نظم گوئی سے ہوتا ہے۔ ان کا سب سے بڑا شعری کارنامہ ہے کہ انہوں نے ”مسدس حالی " لکھ کر قومی شعور بیدار کیا۔ پھر اس کے بعد ان کی مثنوی "حب وطن" کی وجہ سے اردو شاعری میں وطنی نظموں کا آغاز ہوا۔ مثنوی کی صنف کو حالی نے حالات حاضرہ سے وابستہ کیا اور شخصی مریے کے ذریعہ اردو مرثیہ نگاری میں ایک بہت بڑ ا تغیر پیدا کیا۔

         حالی کی نظم نگاری کی امتیازی خصوصیات ان کے الفاظ کی بندش، خیالات کی پیش کشی، اظہار کی تازگی اور زبان کا برجستہ اور بر محل استعمال ہے۔ اس قسم کا انداز نظمیہ شاعری میں سب سے پہلے مولانا حالی نے شروع کیا۔ ورنہ مولانا حالی سے قبل تک ہی نہیں بلکہ حالی کے بعد بھی اردو شاعری مبالغہ اور غیر حقیقی واقعات سے معمور نظر آتی ہے۔ حالی کے بعد ہی اردو شاعری کو حقیقت پسندی سے وابستہ کرتے ہوئے نظم کو زندگی کے حقائق کے اظہار کا سیلقہ دیا گیا۔ چنانچہ حالی کے دور سے ہی نظمیہ شاعری کی اس روایت کا آغاز ہوا جسے حقیقت پسندی اور مسائلی شاعری کا نام دیا جاتا ہے۔ حالی نے نظم کی شاعری کو گلے شکوے سے پاک کر کے فطری جذبات اور احساسات کی پیش کشی کے لیے سازگار ماحول پیدا کیا۔ اس لیے نظمیہ شاعری میں حالی کی خصوصیات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

        اگر چہ حالی نے اپنی ابتدائی غزلوں میں روایتی لفظیات کی پیروی کی تھی اور مرزا غالب کی  طرح پیچیدہ زبان اور لفظیات استعمال کرتے رہے لیکن سرسید سے وابستگی کے بعد ان کی شاعری میں ایک بہت بڑا تغیر رونما ہوا اور انہوں نے سادہ الفاظ کو شاعری میں جگہ دینے کی کامیاب کوشش کی۔ حالی کے دور میں عربی اور فارسی کے لفظیات کا چلن عام تھا۔ سنسکرت ہندی بھاشا کے الفاظ اگر کوئی اپنے کلام میں استعمال کر لے تو اسے بے ادبی تصور کیا جاتا تھا۔ حالی نے اپنی نظموں میں لاتعداد ہندی اور سنسکرت بھاشا کے الفاظ استعمال کر کے اردو میں نہ صرف نئی لفظیات کا اضافہ کیا بلکہ آنے والی نسلوں کو دوسری زبانوں سے استفادے کے اصول بھی سکھائے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment