اردو غزل کا آغاز وارتقاء
جہاں تک اردو غزل کے آغاز وارتقاء کا سوال ہے محققین نے امیر خسروکواردو کا پہلا غزل ک گوتسلیم کیا ہے اور اس سلسلے میں امیر خسرو کی ایک غزل پیش کی جاتی ہے جس کا مطلع یہ ہے؎
زحال مسکیں مکن تغافل دراۓ نیناں بنائے بتیاں
کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جاں نہ لیہو کا ہے لگاۓ چتیاں
شمالی ہند میں امیر خسرو کے بعد تقریبا تین سو سال بعد تک غزل کے اکا دکا نمونے ملتے ہیں ۔ ان تمام غزلوں کی پہچان یہی ہے کہ ان میں ہندی اور فارسی کے الفاظ کی آمیزش ہے۔ شاہ جہاں کے عہد میں منشی ولی رام ولی اور چندر بھان برہمن کا نام غزل کے سلسلے میں ہم ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ زبان میں احساسات و جذبات کے اظہار کی قوت پیدا ہو چلی ہے
چندر بھان برہمن کی غزل کا ایک شعر ملاحظہ ہو؎
خدا نے کس شہر اندر بہن کو لائے ڈالا ۔
نہ دلبر ہے نہ ساقی ہے نہ شیشہ ہے نہ پیالا ہے
جس عہد میں اردو غزل کے خال خال نمونے شمالی ہند میں نظر آتے ہیں اسی عہد میں دکن میں غزل کے اچھے خاصے نمونے ملتے ہیں ۔ دکنی غزل کے اولین نمونے ہمیں بہمنی دور کے شاعر مشتاق او الحفی کے یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں یمنی سلطنت کے زوال کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی سلطنتیں وجود میں آتی ہیں جہاں غزل اپنے ارتقاء کے کئی مدارج طے کریا ہے ۔غزل ابتدا سے ہی گولکنڈ میں ایک مقبول صنف سخن کی حیثیت سے ابھر رہی ہے جس کے نقش و نگار پہلی بار ایک با قاعدہ روایت کی شکل میں فیروز محمود اور خیالی کے یہاں نظر آتاہے۔ حمود بنیادی طور پر غزل کا شاعر ہے ۔ موضوعات میں تنوع ہے ۔ فارسی تراکیب و بندشوں کے استعمال سے شعر میں روانی اور آہنگ کا احساس ہوتا ہے۔ فیروز کی غزلوں میں تصور عشق مجازی اور حقیقی دونوں ہے ۔ خیالی کی غزلوں کا وہی مزاج ہے جو فیروز اور محمود کی غزلوں کا ہے۔قلی قطب شاہ حسن وعشق کا شاعر ہے ۔ اس کے یہاں فکر کی گہرائی نہیں ۔ سادگی ، روانی ، برجستگی اور حقیقت نگاری اس کی غزلوں کی خصوصیات ہیں ۔ ایک شعر دیکھئے ؎
پیاباج پیالہ پیا جاۓ تا
پیا باج اک تل جیا جاۓ تا
حسن شوقی نے غزل کے لئے رواں بحروں کا انتخاب کیا ہے اور فارسی رمزیات نمیات بھی غزلوں میں پروئے ہیں ،شاہی، نصرتی اور ہاتھی تینوں میں مزاج کے لحاظ سے یکسانیت ہے ۔نصرتی کے یہاں لذت جسم اورعشق کا جنسی پہل کھل کر سامنے آتا ہے ۔
لیکن دو نام و لی اور سراج اورنگ آبادی ایسے ہیں جنھوں نے نہ صرف قدیم دکنی غزل کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ اس میں مستقبل کے امکانات پیدا کئے ۔ یہ دونوں دکنی غزل کے آخری علمبر دار بھی ہیں اور آنے والے دور کے لئے مشعل راہ بھی ۔ولی کے دور تک غزل کے موضوعات محدود تھے۔ تھوڑا بہت تنوع کا احساس محمود، فیروز اورحسن شوقی کی غزلوں میں ضرور ہوتا ہے ۔ ولی نے اس روایت کو اپنا کر اس میں زندگی کے رنگارنگ تجر بات بتنوع اور داخلیت کو سموکر غزل کے دائرے کو پوری زندگی پر پھیلا دیا۔اس کے ساتھ حسن و عشق غم جاناں وغم دوراں اردو غزل کی نئی علامتیں بن گئیں اور انسانی زندگی کے چھوٹے بڑے تجربات غزل کے دامن میں سمٹ آۓ ۔ ولی کا ایک شعر دیکھئے ؎
مفلسی سب بہار کھوتی ہے
مرد کا اعتبار کھوتی ہے
اردو غزل نے اپنا سفر شمال سے شروع کیا تھا۔ اس کا پہلا پڑاؤ سرزمین دکن تھا۔ دکن میں یہ خوب پھلی پھولی اور ایک بار پھر اس نے شال کا رخ کیا مگر اس دوران اس نے اپنے ارتقا کی کئی منزلیں طے کر لی تھیں ۔ولی کے دیوان کی آمد سے دلی میں جگہ جگہ شعرو شاعری کے چرچے ہونے لگے۔
حالاں کہ اس سے پہلے بھی یہاں اردو رائج تھی مگر اردوکو در باری سر پرستی ملی تو بعض فارسی گوشعراء نے تفنن طبع کے طور پر ریختہ میں شعر کہنا شروع کیا جن میں مخلص ، بیدل ، واؤ داورامید وغیرہ اہم ہیں لیکن سب سے اہم نام آرزو کا ہے ۔ فارسی کی طرح ان کے کلام میں ایک ٹھہراؤ اور سنجیدگی کا احساس ہوتا ہے۔ میر کا کہنا ہے کہ اردوشعر گوئی کے جس فن کو ہم نے اپنا یا اسے معتبر بنانے والے خان آرزو ہی تھے ۔ ان کا یہ شعر د یکھئے ؎
اس زلف سیہ فام کی کیا دھوم پڑی ہے
آئینے کے گلشن میں گھٹا جھوم پڑی ہے
اس دور میں کچھ ایسے شاعر بھی ہیں جنھوں نے ایہام گوئی کو اپنا طرہ امتیاز بنایا۔ ان میں آبرو مضمون ، ناجی ، یکرنگ، میر وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔ایہام کی جتنی صورتیں ہو سکتی تھیں ان سب کا اظہار انھوں نے اپنی شاعری میں کر دیا ہے جس کی وجہ سے ان کی غزلوں کی معنویت اور اثر آفرینی مجروح ہوئی اور شاعری احساسات و جذبات کی ترجمانی کے بجاۓ افظی گورکھ دھندہ ہو کر رہ گئی ۔
اس دور کے غیرایہام گوشعراء میں مبتلا ، صابر ، فائز عزلت اہم ہیں لیکن فائز سب سے اہم ہیں ۔ ان کے یہاں غور وفکر کے عناصر نہیں بلکہ دوسامنے کی باتیں رواں دست انداز میں بیان کر دیتے ہیں ۔ لیکن بہت جلد ایہام گوئی کے خلاف رومل کی تحریک کا دور شروع ہوتا ہے جس کے قائد مظہر جانجاناں تھے۔ اس تحریک سے وابستہ دوسرے شعراء میں حاتم ، تاباں ، بیان، یقین اور فقاں بھی اہم ہیں ۔ایہام گوئی اور تکلف وتصنع کی جگہ اردوغزل میں سادہ کوئی اور انسانی جذبات و احساسات کی ترجمانی پر زور دینے کا سہرا جاناں کے سر جاتا ہے۔
میر ، درد اور سودا کا عہد اردو شاعری کا شاندار عہد ہے ۔ ان حضرات نے غزل کو نیا رنگ و روپ عطا کیا۔ اگر چہ یہ تینوں ایک ہی زمانے سے تعلق رکھتے ہیں لیکن سب کا طرز اک الگ ہے۔ میر کی شاعری قلبی واردات و احساست کی شاعری ہے۔ ان کے یہاں رانیت اپنی انتہا کو پچی ہوئی ہے۔ درد بنیادی طور پر تصوف کے شاعر ہیں ۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود ان کے پسندید و موضوعات ہیں ۔ ان کی زبان بہت صاف اور کوثر تسنیم سے دھلی ہوئی ہے ۔ وہ عام طور پر چھوٹی بحروں کا انتخاب کر تے ہیں مگر وہ اتنی موثر ہیں کہ بقول آزاد تلواروں کی آبداری نشتروں میں بھر دی ہے ۔ ان کے فن کی پاکیزگی اور اثر آفرینی اپنی جگہ مسلم ہے ۔۔ جنگ میں آ کر ادھر ادھر دیکھا تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا سودا نے اردو غزل کو داخلیت سے خارجیت کی طرف موڑا۔
دیکھتے ہی دیکھتے لکھنو میں ایک شاندار محفل سخن آراستہ ہوگئی۔ ان لکھنوی شعراء میں انشاء، جرات ، سنی ، ناسخ اور آتش اہم ہیں ۔ انھوں نے معنی آفرینی اور جذبات نگاری کے مقابلے میں لفظی زیبائش و نیا پر زیادہ زور دیا جس کی وجہ سے اردو غزل میں صنعت گری ، تکلف اور آورد کا اضافہ ہوا معنوی اعتبار سے غزل معلمی لذت کشی اور جنسی جذبات کی عکاسی ہو کر رہ گئی لیکن آتش کے یہاں روایتی سطحیت کے بجائے فکروفون کی جگہ گاہٹ بھی موجود ہے۔
جس زمانے میں بھی اور آتش کے ہاتھوں لکھنو میں ہی لکھنوی شاعری مختلف نئے دبستان کی شاعری کی بنیاد میں استوار ہورہی تھیں تقریبا اس زمانے میں دلی میں اردوغزل نصیر، ذوق ، غالب اور مومن کے ہاتھوں بالکل نیا قالب اختیار کر رہی تھی ۔ ان شعراء نے نہ صرف اردو غزل کو نیا وقار بخشا بلکہ اسے ایک بار پھر تجربات و مشاہدات کا نازک ترین ذریعہ اظہار بنا دیا ۔ ان ستونوں نے گرتے ہوۓ ایوان کو سنبھالا اور ان روایات کو اور زیادہ طاقت ور اور وسیع بنا دیا جنھیں میر ، درد اور سودا نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے زندہ کیا تھا۔ غالب نے اردو غزل کوفکروفن دونوں اعتبار سے متاثر کیا۔ بقول مجنوں’’ غالب نے اردوغزل کو مجہول داخلیت اور سطحی خارجیت دونوں کے تنگ دائرے سے نکال کر فطرت انسانی سے قریب کر دیا اور اسے معنویت سے روشناس کرایا اور مروجہ الفاظ میں نئے ابلاغی امکانات کے تلاش کئے ۔ مومن نے عشق ومحبت کے محدود دائرے میں جدتیں پیدا کی اور معاملات عشق کی جزئیات کو ایسی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا کہ ندکسی پستی کا احساس ہوتا ہے اور نیکسی یکسانیت کا۔ انھوں نے اردوغزل میں ایک اچھوتے انداز کی بنیاد ڈالی اور بات کہنے کا ایک نیا ڈھنگ نکالا ۔مو من اور غالب کے ایک ایک شعر دیکھئے؎
تم مرے پاس ہوتے ہو گویا
جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا ؎ مومن
موت کا ایک دن معین ہے لیکن
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ؎ غالب
اس کے بعد آزاد نے جدید شاعری کی بنیاد ڈالی اور دیکھتے ہی دیکھتے نظم غزل کے مقابلے آ کھڑی ہوئی اور ایسا
محسوس ہونے لگا کہ ایسے ماحول میں غزل کا زندہ رہنا مشکل ہے ۔ لیکن اسی دور میں کچھ ایسے غزل گو شعراء سامنے آئے جنھوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ غزل ہر دور میں زندہ رہ سکتی ہے اور ہر ماحول کا ساتھ دے سکتی ہے۔ان شعراء میں حسرت، اصغر، فانی، ریاض، شاد، اقبال، ایاند، سیماب عزیز نظر اور جگر وغیرہ اہم ہیں ۔ ان شعراء نے غزل کے جسم میں نیا خون دوڑایا اور غزل کو حسن وعشق کے محدود دائرے سے باہر نکال کر زندگی کی تلخ حقیقتوں سے آنکھیں ملانے کے قابل بنایا۔ اس سے پہلے بھی غزل میں حسن وعشق کے علاوہ زندگی کے مختلف پہلوؤں کی عکاسی کی گئی تھی مگر ان میں اتنی شدت نہیں تھی ۔اب غزل میں سیاسی ،سماجی حالات کا اظہار پہلے سے کہیں زیادہ واضح طور پر کیا جانے لگا۔اقبال اصغر اور فانی کا ایک ایک شعر ملاحظہ ہو؎
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں ؎ اقبال
خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈھتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے ؎ اصغر
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ ؎ فانی
۱۹۳۶ میں ترقی پسندتحریک کا آغاز ہوا اور اردو شاعری میں حقیقت پسندی پر زور دیا جانے لگا اور غزل کوفراری ، انفرادی اور اجتماعی شعور سے بیگانہ اور بے وقت کی راگنی قراردے کر اس کی مخالفت کی گئی کہ غزل میں نئے زمانے کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے اور نت نے تجربات کی ترجمانی کرنے کی اہلیت نہیں ہے۔ لیکن غزل بڑی سخت جان نکلی ۔ خود ترقی پسند شعراء نے غزل کے نئے امکانات تلاش کئے اور غزل کی بے پناہ اشاریت اور رمزیت سے فائد واٹھاتے ہوئے اس کی معنویت میں اضافہ کیا اور اس کو ایک نئی جہت سے آشنا کیا۔ ترقی پسند غزل گو شعراء میں فیض، فراق، جوش ، سردار جعفری ، ساحر جذبی ، مجاز مجروح ، تاباں ، جاں نثار اختر ،اختر انصاری ، شاد عارفی ،اختر جمال وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔
آزادی کے تقریبا پندرہ بیس برس بعد اردوغزل نے پھر ایک نئی کروٹ لی جسے ہم نئی غزل کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ یہ وہ غزل ہے جس میں شاعر کی انفرادیت ، اس کا مزاج اور اس کے تجربات و محسوسات نمایاں ہیں ۔ مگر نئے شاعروں نے جب اپنے دل پر گذری ہوئی کیفیات کو اپنے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی تو انھیں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لیے نئی غزل پر مبہم اور مہمل ہونے کا الزام بھی لگا۔ لیکن جن شاعروں نے اپنی دلی کیفیات کو کامیابی کے ساتھ پیش کیا ہے ان کو سچا شاعر اورفنکار تسلیم کیا گیا۔ان شاعروں میں ناصر کاظمی ، احمد فراز، خلیل الرحمن اعظمی ، وحید اختر ، پروین شاکر، ظفر اقبال ، بشیر بدر،احمد مشتاق کے علاوہ بہت سے اور نام گنائے جا سکتے ہیں ۔ ان شاعروں نے عشق و عاشقی، تھے اور فلسفہ و پیغام سے اپنے آپ کو بچایا۔ زندگی کی محرومیاں اور مایوسیاں یا پھر کبھی کبھار حاصل ہونے والی چھوٹی مچوٹی خوشیوں کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا۔ غرض ان کے یہاں صرف وہ واردات ملتی ہے جو خود ان کے دل پر گذری ہے۔ انھوں نے انتخاب الفاظ کے اصولوں سے انحراف کیا اور اپنے لینے کا تعین خود کیا۔ نیا شاعر زندگی کو غزل سے اونچارتبہ دیتا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ کہیں اپنا تجر بہ قاری تک پہنچانے میں کامیاب رہتا ہے اور کہیں نا کام ۔
0 comments:
Post a Comment