آتش کی غزل گوئی
آتش کا اردو کے شیریں کلام شاعروں میں شمار ہوتا ہے۔ ان کی شاعری میں زبان کا حسن اور جذبے کی صداقت دونوں گھل مل جاتی ہے اور یہی ان کا سب سے بڑا کارنامہ ہے؎
بندش الفاظ جڑنے سے محموں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
یہی مرصع سازی ہے جس نے لکھنؤ کو دہلی سے ممتاز کر دیا لیکن آتش کی شاعری میں مرصع سازی کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے۔ مصحفی کا خیال ہے کہ آتش کا کلام تین اور سنجیدہ ہے۔ مولانا عبد السلام ندوی ان کی شاعری کو عشق و محبت کے اسرار و رموز کا آئینہ قرار دیتے ہیں۔ آتش کی رائے میں شاعر کار تکمین، دلکش خیال تصویر بن کر شعر کے سانچے میں ڈھل جاتا ہے جیسے جو ہری نگینوں کو جڑتا ہے اور خود آتش کا کلام اس کسوٹی پر پورا اترتا ہے۔ ان کی فکر میں رنگینی ہے اور خیال میں رعنائی ملتی ہے جیسے کسی نے موتی پرو دئیے ہوں۔ یہ سب اُسی وقت ہی ممکن ہے جب شاعر کے دل میں خوشیوں کا سمندر موجود ہو۔ آتش کے زمانے میں لکھنو میں امن وسکون کا ماحول تھا اور شاعری میں داستان لکھنؤ کا یہ بیش قیمت تحفہ ہے۔ آتش کے کلام میں سادگی اور صوفیانہ شان بخوبی نظر آتی ہے؎
بت خانہ کھود ڈالیے مسجد کو ڈھائیے
دل کو نہ تو ڑیئے یہ خدا کا مقام ہے
بادشاہی سے فقیری کا ہے پایا بالا
بور یا چھوڑ کے مت تخت سلیماں مانگو
آتش کے مزاج میں سرشاری اور سرمستی کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا تھا ۔ مزاج میںشوئی لطافت اور رنگینی بدرجہ اتم موجودتھی۔ کسی طرح کی پابندی اور بندش کے وہ قائل نہ تھے۔ ان کی زندگی کے یہ امتیازات ان کی شاعری میں بخوبی نظر آتے ہیں ۔ جس کے نتیجے میں بے نیازی درویشی اور قلندرانہ شان کے مضامین ان کے کلام میں کثرت سے ملتے ہیں۔ ان کے مزاج کی سرمستی ملاحظہ ہو؎
یہ آرزو تھی تجھے گل کے روبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے
اس بلائے جاں سے آتش دیکھیے کیوں کر بنے
دل سوا شیشے سے نازک دل سے نازک خوئے دوست
آتش کی شاعری میں رجائیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ وہ ہجر کے نہیں وصال کے شاعر ہیں۔ ہجر کی صعوبتوں اور مایوسیوں سے ان کی شاعری پاک ہے۔ وہ اپنے لئے ایسے حسن کا انتخاب کرتے ہیں جس پر خزاں کا سایہ بھی نہ آئے ؎
ہر شب شب برات ہے ہر روز روز عید
سوتے ہیں ہاتھ گردن مینا میں ڈال کر
چمنِ دہر کا ہر گل ہے خوب
نسترن یاسمن سے بہتر ہے
آتش غزل کے وسیلہ سے اسی عہد کے تقاضوں کو پورا کرنے میں بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ اس وقت طویل داستان ، طویل مثنوی اور لمبی غزلوں کا رواج تھا۔ آتش نے بھی ۳۰،۲۰ اشعار کی غزلیں لکھیں۔ ان کے کلام میں عربی و فارسی کے مغلق الفاظ اور ادق اصطلاحات ملتی ہیں؎
اک مشت استخواں پہ نہ اتنا غرور کر
قبریں بھری ہوئی ہیں عظام رحیم سے
آتش نے بھی روایت کے مطابق مسائل تصوف کا بیان کیا اور ان روایات کا پاس رکھتے ہوئے اپنی شاعری کو رفعت کے اس مقام تک پہنچا دیا جو ایک اچھے شاعر کے شایان شان ہوتا ہے؎
نظر آیا تماشائے جہاں جب بند کیں آنکھیں
صفائے قلب سے پہلو میں ہم نے جام تم دیکھا
ان کی شاعری میں سرشاری و سرمستی کے جذبے کے ساتھ ساتھ شوخی لطافت اور رنگینی بدرجہ اتم موجود تھی۔ کلام میں رجائیت کی جھلک نظر آتی ہے۔ ردیف و قافیے کے استعمال میں وہ حرکت و نشاط اور روانی و جھنکار کی کیفیت برقرار رکھتے ہیں۔ داخلیت و خارجیت دونوں کی خوبیاں ان کے کلام میں نظر آتی ہیں۔ یہی وجہ ہے شاہ عبدالسلام ان کی شاعری کو دبستان لکھنو اور دبستان دہلی کی شاعری کا حسین امتزاج قرار دیتے ہیں ۔ آتش اپنے کلام میں صرف معنی پر ہی توجہ نہیں دیتے بلکہ انداز بیان کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اسے پرکشش بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے کلام میں مصوری اور پیکر تراشی ملتی ہے جس سے کہ شعر کے حسن میں اضافہ ہو جاتا ہے تشبیبہ واستعارہ کا وہ بطور خاص اہتمام کرتے ہیں ؎
نہ پوچھ عالم برگشته طالعی آتش
برستی آگ جو باراں کی آرزو کرتے
آتش غزل کے ایک ماہر فن کار ہیں ۔ ان کے یہاں تغزل شعریت روانی سادگی اور صناعی کے پہلونمایاں ہیں تمثیلی استدلال اور حسن تعلیل میں انھیں مہارت حاصل ہے؎
خلاف وضع ہے انساں کے واسطے معیوب
بدن کو زیب نہ دیوے کبھی قبا اُلٹی
آتش کا لب ولہجہ اردو غزل میں جدید اور منفرد ہے اور ان کے طرز کو بہت سے شعرا نے آگے چل کر اختیار کیا ۔ یہاں تک کہ مضمون اور اسلوب کے اعتبار سے آتش غالب کے بھی پیش رو نظر آتے ہیں۔ آتش کا مقابلہ اپنے زمانے کے شاعر ناسخ سے کیا جاتا ہے ۔ وہ لفظوں کے انتخاب و ترتیب میں بڑی توجہ سے کام لیتے ہیں۔ تضع و تکلف سے اسلوب میں آور نظر آتی ہے۔ ان کا یہ شعر میں ان کی پوری شاعری کی خبر دیتا ہے ؎
گوید می حسد سے نہ دے داد تو نہ دے
آتش غزل یہ تو نے کہی عاشقانہ کیا
0 comments:
Post a Comment