میر کی مثنوئی نگاری
میر اقبال
اُردو کی کلاسیکی مثنویوں میں میر تقی میر کی مثنویاں بھی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ میر کی مثنویات کو تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول، عشقیہ مثنویاں۔ دوم، غیر عشقیہ مثنویاں۔ سوم ، ہجو یہ مثنویاں۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نے میر کی مثنویات کی تعداد 37 بتائی ہے۔ جب کہ کلیات میر جلد ششم (مثنویات ) مرتبہ کلب علی خاں فائق مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور 1984 میں ان مثنویات کی تعداد 39 بیان کی گئی ہے۔
میر نے مزید کی ایک ایسی عشقیہ مثنویاں بھی تحریر کی ہیں۔ آپ بیتی کے بجائے جگ بیتی کا انداز نمایاں ہے۔ لیکن وہ جگ بیتی کو بھی آپ بیتی کے جذبے میں رنگ دیتے ہیں۔ لہذا ان مثنویوں میں بھی ان کی سیرت و شخصیت کے بعض عناصر ملتے ہیں۔ ایسی عشقیہ مثنویوں میں انہوں نے اپنے زمانے کے مشہور و معروف عشقیہ قصوں کو منظوم کیا ہے۔ ان کیوں میں شعلہ عشق اور دریائے عشق ان کی نمائندہ مثنویاں ہیں۔ شعلے عشق عشق میں جو قصہ بیان ہوا ہے وہ میر شمس الدین فقیر دہلوی کی ایک فارسی مثنوی تصویر محبت میں بیان ہو چکا تھا۔ میر نے اپنی مثنوی کی بنیاد فقیر دہلوی کی مثنوی پر رکھی ہے۔ میر نے شعلہ عشق کی ابتدا میں عشق کی اہمیت اور تصور عشق پر روشنی ڈالی ہے۔
میر کے اپنی عشقیہ جذبات کی گرمی سے یہ مثنوی اثر انگیز بن گئی ہے۔ مثنوی دریائے عشق میں بھی شعلہ عشق کی طرح ہیرو اور ہیروئن دریا میں ڈوب کر حیات جاوداں حاصل کرتے ہیں۔ مشرقی داستانوں میں مرنے کے بعد وصال محبوب کی روایت عام رہی ہے۔ میر کے قصوں کے عاشق و معشوق دونوں ہی بلاک ہو جاتے ہیں۔ وہ پانی کو دونوں کا مدفن بناتے ہیں ۔
میر کی عشقیہ مثنویوں میں عاشق کی موت پر معشوق یا معشوق کی موت پر عاشق بھی جان دینے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ بسا اوقات وہ جذبہ عشق کی تاثیر دکھانے کے لیے لاشوں کو اس طرح واصل کر دیتے ہیں کہ انہیں جدا کرنا ممکن نہیں رہتا۔ جو گویا وہ وصل پس از مرگ کو بیان کرتے ہیں۔ میر کے نزدیک عشق ایک ایسا روگ ہے ، جو موت کے بعد بھی پیچھا نہیں چھوڑتا۔ لیکن ساتھ ہی ان کے نزدیک اپنے مقصد کی خاطر عاشق بڑی آسانی سے جان دے دیتا ہے۔
مثنویات میر کا یہی حصہ سب سے زیادہ دلنشین ہے۔ ان کا عشق مثالیں اور ہمہ گیر ہونے کے ساتھ ساتھ ہمہ سوز بھی ہے۔ میر عاشقیہ المیہ کو بیان کرنے کے لیے کوئی حکایت یا کوئی واقعہ چن لیتے ہیں۔ پھر وہ واقعہ کو اس طرح مرتب کرتے ہیں کہ عشق کی دلسوزی واضح ہو جاتی ہے۔ مثنوی لکھتے وقت وقت میر کا مقصد عشق کی جان سپاری کا بیان ہوتا ہے۔
ان کی تمام تر توجہ اس طرف مرکوز رہتی ہے۔ وہ روح کی گہرائیوں میں اتر جانے والے عشق کا بیان کرتے ہیں۔ وہ پہلے مصرع سے جو فضا باندھتے ہیں اسے آخر تک قائم رکھتے ہیں۔ وہ جذبے عشق کے بیان میں نرمی اور گھلاوٹ کو مقدم رکھتے تھے۔ موضوع کی مناسبت سے ان کا لب و لہجہ بھی حرماں نصیبی اور پاس سے بھرا ہوا ہوتا ہے؎
آہ جو ہمدمی میں سی کرتی ہے اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں لیکن ایسے کوئی نکلتے ہیں
میر قصے کے بجائے دلی کیفیات اور واردات کو بیان کرنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ اسی لیے ان کی بہت سی مثنویوں کے اشعار غزلوں کے مطلعوں کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کی مثنویوں میں قصہ محض ایک قالب ہوتا ہے جس میں وہ عشق کی کیفیات کو بیان کرتے ہیں۔ اسی لیے میر اچھے قصہ نویس نہیں ہیں۔ ان کی عشقیہ مثنویوں میں میں افسانوی دلچسپی کے عناصر کم ہوتے ہیں البتہ وہ عشق کے ترجمان اور شارح بن کر سامنے آتے ہیں۔ وہ مثنویوں کو بھی شدید جذبات و احساسات کی ترجمان بنانا چاہتے تھے۔
ان کی عشقیہ مثنویوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے ہی غموں کے قصے بیان کر رہے ہیں۔ میر کی مثنویوں کے ہیر و عام داستانوی عشقیہ مثنویوں کے ہیروز سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اردو کی دیگر اور خاص کر طویل مثنویوں میں عموماً شہزادے اور شہزادی کے قصے رقم ہوتے ہیں۔ وہ اکثر و بیشتر سر شای خاندانوں کے چشم و چراغ ہوتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment