اردو داستان کا آغاز و ارتقا
اردو ادب میں داستان گوئی کی روایت کا آغاز ملا وجہی کی داستان ‘سب رس۱۶۳۵ (1635) کے روپ سے ہوا۔ اس میں ایک مسلسل قصہ بیان کیا گیا ہے۔ نثر مسجع و مقفع ہے لیکن اس میں روانی پائی جاتی ہے۔ ملا وجہی نے فرضی قصے کی صورت میں عشق و عقل اور حسن و دل کے معرکے بیان کیا ہے۔ جا بجا مختلف عنوانات سے عشق و عقل کی حقیقت اور کشمکش کو نہایت حسین انداز میں پیش کیا ہے۔ اس طرح یہ داستان تمثیل نگاری کا اولین نمونہ بھی بن جاتا ہے۔ سب رس کے بعد تقریباً ایک صدی تک اردو داستان کی روایت جامد رہی۔ صدی کے ختم ہونے پر طوطی نامہ کے ترجمے کی شکل میں روایت آگے بڑھی۔
طوطی نامہ
طوطی نامہ دنیا کی مقبول عام داستانوں میں سے ایک ہے لیکن اس کا سنِ تصنیف اور مصنف دونوں پردہ خفا میں ہے البتہ بارہویں صدی کا مشہور مصنف ہیم چندر جین اس سے واقف تھا اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب بارہویں صدی عیسوی سے قبل کی تصنیف ہے۔ قصہ اس طرح ہے کہ ایک عورت اپنے شوہر کے پردیس چلے جانے بعد ایک اجنبی مرد کے عشق میں مبتلا ہو جاتی ہے اور روز چاہتی ہے کہ اس سے جا کر ملے لیکن مالک کا خیر خواہ طوطا اس عورت کو روزانہ ایک کہانی سناتا ہے اور اس طرح ستر راتوں تک اسے جانے سے باز رکھتا ہے۔ اس کے بعد اس کا مالک واپس آ جاتا ہے، عورت کا راز فاش ہو جاتا ہے اور وہ قتل کر دی جاتی ہے۔
اس طوطی نامہ کے علاوہ ایک اور طوطی نامہ کا ترجمہ ملتا ہے جسے ابو الفضل غلامی نے اکبر بادشاہ کے حکم پر لکھا تھا لیکن اسے اتنی اہمیت نہیں ملی جتنی کی پہلے والی داستان کی ۔
نو طرزِ مرصع
طوطی نامہ کے بعد نو طرز مرصع داستان کی روایت کو آگے بڑھاتا ہے جسے میر محمد حسین عطا خاں تحسین نے ١٧۸۱-١٧۷۵ (1781-1775)کے درمیان لکھا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ داستان قصہ چہار درویش کا اردو ترجمہ ہے جو کہ مستند نہیں۔ داستان کی عبارت نہایت رنگین و دقیق ہے۔ زبان گنجلک اور تعقید سے بھری ہوئی ہے۔ جا بجا عربی و فارسی الفاظ و تراکیب، تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع کی کثرتِ استعمال ہے۔ قدیم محاوروں اور متروک لفظوں کے ساتھ ساتھ کہیں غلط املا بھی پایا جاتا ہے۔ یہ داستان مقبول عام کی سند سے محروم رہی البتہ اس کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ میر امن کی تصنیف باغ و بہار اسی سے ماخوذ ہے۔
داستان کی ابتدائی کوشش کے بعد دو دبستانوں نے اس کی روایت کو ترقی اور ترویج دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے یعنی دبستانِ فورٹ ولیم کالج اور دبستانِ رام پور. ان دونوں دبستانوں کے ساتھ ساتھ دیگر جگہوں پر بھی داستانیں لکھی جا رہی تھیں۔
فورٹ ولیم کالج کی داستانیں
اٹھارویں صدی کے آخر تک اردو داستان عالمِ طفولیت میں تھا۔ اس میں پختگی اور خود اعتمادی نہ آئی تھی۔ اس کا دائرہ بہت محدود تھا۔ فورٹ ولیم کالج کے زیرِ اثر اردو داستان عالمِ ریعان میں داخل ہو جاتا ہے اور پھر اس کی ایک مسلسل روایت قائم ہو جاتی ہے۔ یہاں کم و بیش پندرہ داستانیں لکھی گئیں۔
توتا کہانی
یہ سید حیدر بخش حیدری کی تصنیف کردہ داستان ہے۔ حیدری کو شہرت و قبولیت دو داستانوں کی وجہ سے ملی جن میں ایک طوطا کہانی جبکہ دوسرا قصہ مہر و ماہ ہے۔ حیدری نے یہ داستان ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۱ (1801) میں سید محمد قادری کے طوطی نامہ کا ترجمہ کر کے تصنیف کی ۔ داستان سادہ اور آسان زبان میں لکھی گئی ہے لیکن تعقید سے خالی نہیں۔ جا بجا فارسی محاورات کا لفظی ترجمہ بھی نظر آتا ہے البتہ عبارت رواں اور دلچسپ ہے۔ جملے چھوٹے اور ہلکے پھلکے ہیں جو پڑھتے وقت آواز کے اتار چڑھاؤ سے برابر ہم آہنگ رہتے ہیں۔ عبارت میں روزمرہ اور محاورے کا بھی خاص خیال رکھا گیا ہے جس کی وجہ سے تسلسلِ بیان میں کوئی کمی نہیں آنے پائی ہے۔
آرائشِ محفل
داستان کی روایت میں حیدری کی دوسری تصنیف آرائشِ محفل بھی قابلِ ذکر ہے ۔ یہ داستان ١٨٠١ (1801) میں فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا گیا۔ داستان میں حیدری کی زبان طوطا کہانی کی زبان سے زیادہ مشکل ہے اور جملے بھی طویل تر ہیں۔ جا بجا عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کا استعمال بھی ملتا ہے جن سے بیان کی روانی اور قصے کی دلچسپی پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ صحیح ہے کہ میرا من کا سا سوز و گداز، رنگینی اور بانکپن ان کے یہاں نہیں ملتا پھر بھی طرز بیان میں ایک گھلاوٹ اور چاشنی پائی جاتی ہے ۔ اس داستان میں واقعات و حالات باغ و بہار سے کہیں زیادہ بعید الفہم، دور از قیاس اور مافوق فطرت ہیں ۔ قصے کی بنیاد ہی ایک مہرے پر رکھی گئی ہے جس سے تمام مہمات سر کی جاتی ہیں۔ حیدری تصویر کشی میں بھی فنی چابکدستی سے عاری نظر آتا ہے۔ ان کے بیان سے واقعات و مناظر کی کوئی تصویر ذہن میں نہیں بنتی ۔ اپنے زمانے کی معاشرت و تمدن کا جیسا نقشہ میر امن نے کھینچا ہے اس کا بھی یہاں نشان نہیں ملتا۔ تخیل کی پرواز میں سرعت و بلندی تو ہے لیکن ضبط و ترتیب نہیں ۔
ان دو داستانوں کے علاوہ حیدری نے قصہ مہر و ماہ ۱۷۹۹ ( 1799)، قصہ لیلیٰ مجنوں ۱۸۰۰ (1800) اور گلزار دانش ۱۸۰۴ (1804) میں لکھی ہیں۔
داستانِ امیر حمزہ
مولوی خلیل علی خاں اشک نے ١٨٠١ (1801)میں ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش سے داستان امیر حمزہ کو پہلی بار فارسی سے اردو میں ترجمہ کیا۔ اس داستان میں چار دفتر اور اٹھاسی داستانیں ہیں۔ داستان کی عبارت بہت سادہ، سلیس اور رواں ہے اور اس میں سنجیدگی کے ساتھ ساتھ گھلاوٹ بھی ملتی ہے۔ داستان میں جا بجا ہندوستانی اور ایرانی رسم و رواج کی آمیزش نظر آتی ہے۔ اس کے علاوہ ترجمہ میں مترجم کے تخیل کو جہاں جہاں سے تحریک ملی ہے وہ بھی صاف ظاہر ہوتا ہے۔
باغ و بہار
اردو نثر کی تاریخ میں باغ و بہار کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اس میں ایک بادشاہ اور چار درویشوں کی کہانیاں بیان کی گئی ہیں جنہیں تمہید اور خاتمے کے ذریعے آپس میں جوڑ دیا گیا ہے۔ میر امن دہلوی نے یہ داستان جان گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۰ (1800) میں تحسین کے نو طرزِ مرصع سے آسان اور سہل زبان میں تصنیف کیا۔ اس داستان کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ پانچ چھوٹی چھوٹی کہانیوں کی شکل میں ہمارے سامنے نمودار ہوتی ہے جس میں مختصر افسانے کی جھلک نظر آتی ہے۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دہلی کی تہذیب و معاشرت کی مکمل مرقع کشی نظر آتی ہے ۔ کسی شہر و دیار کا ذکر کیا جا رہا ہو مگر بچشم غور دیکھیے تو دہلی کے در و دیوار پیش نظر ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں خصوصیات کے علاوہ باغ و بہار کی ایک اور اہم امتیاز ہے اور وہ ہے اس کا اسلوب بیان اور طرزِ نگارش جو کہ عام بول چال کی زبان اور روز مرہ کے آسان اور زود فہم جملوں اور محاوروں پر مبنی ہے ۔
مذہبِ عشق
نہال چند لاہوری نے فورٹ ولیم کالج میں تقرری کے بعد عزت اللہ بنگالی کے ‘قصہ گل بکاؤلی کا ۱۸۰۳ ( 1803 ) میں ترجمہ کیا اور اس کا نام مذہب عشق رکھا۔ یہ داستان چھبیس ابواب پر مشتمل ہے جس کی کہانی تین حصوں میں منقسم ہے۔ پہلے حصے میں شہزادہ تاج الملوک کی پیدائش اور بادشاہ زین الملوک کے نابینا ہونے کو دکھایا گیا ہے۔ بادشاہ کی بینائی واپس لانے کے لیے چاروں شہزادے اور تاج الملوک باغِ بکاؤلی کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں۔ داستان کو طول دینے کے لئے دوسرے حصہ میں راجا اندر اور امر نگر کی کہانی کو شامل کیا گیا ہے۔ دوسری کہانی کے ساتھ ساتھ ایک اور کہانی چلتی رہتی ہے جس میں وزیر زادے بہرام اور روح افزا کی داستان ہے جو کہ اس داستان کا تیسرا حصہ ہے۔ داستان کا تانا بانا ما فوق فطرت عناصر سے باندھا گیا ہے جو اسے طول دینے میں بہت کردار ادا کرتے ہیں۔ اس داستان کی زبان فارسی آمیز اور اسلوب پُر تصنع اور پُر شکوہ ہے جو ابتدا تا انتہا یکساں نہیں۔ کہیں گنجلک فقرے اور دقیق ترکیبوں کا استعمال ہے تو بعض جگہ محاورے اور روز مرہ کا استعمال ۔
نثر بےنظیر
یہ داستان میر حسن کی مثنوی سحرالبیان کا نثری خلاصہ ہے جسے میر بہادر علی حسینی نے ڈاکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش پر ۱۸۰۲ (1802) میں ترتیب دیا ۔ یہ داستان ۱۸۰۳ ( 1803 ) میں شائع ہوئی۔ داستان کے فقرے چھوٹے اور مختصر ہیں ۔ عبارت آسان اور رواں ہیں۔ کہیں کہیں پر قافیے کا بھی التزام ہے جس سے داستان میں تعقید پیدا ہو جاتی ہے۔ حسینی نے بیچ بیچ میں مثنوی سحر البیان کے اشعار بھی نقل کئے ہیں۔
اخلاقِ ہندی
میر بہادر علی حسینی کی یہ داستان نثر بے نظیر سے زیادہ مشہور اور مقبول ہوئی۔ حسینی نے داکٹر جان گل کرسٹ کی فرمائش سے فارسی داستان مفرح القلوب کا ۱۸۰۲ (1802) میں اخلاقی ہندی کے نام سے ترجمہ کیا۔ داستان کی عبارت سلیس اور سادہ ہے۔ عربی و فارسی الفاظ کا استعمال نہایت معتدل ہے لیکن انشا میں فارسی ترجمے کی شان پائی جاتی ہے۔ جملوں کی ساخت اور طول و اختصار میں کوئی توازن نہیں ہے نیز زبان پر میواتی کا اثر جھلکتا ہے۔
بیتال پچیسی
اس داستان کا اصل ماخذ سنسکرت ہے۔ یہ سنسکرت سے ۱۷۴۰ (1740) میں برج بھاشا میں منتقل ہوئی پھر۱۸۰۴ (1804) میں مظہر علی خان ولا نے للولال گوی کی مدد سے اسے اردو میں ترجمہ کیا جو۱۸۰۵ (1805) میں شائع ہوئی۔ داستان کی زبان صاف اور سلیس نہیں ہے۔ اس میں ڈھیٹ ہندی کے الفاظ بکثرت استعمال کیے گئے جن میں سے بعض بعید از فہم ہیں۔ مواد بھی خالص ہندو دیو مالا اور قدیم ہندو تہذیب سے لیا گیا ہے اس کے باوجود یہ داستان عوام میں بہت مقبول ہوئی۔
قصہ مادھونل و کام کندلا
اس داستان کو مظہر علی خان ولا اور للو لال کوی نے ١٨٠٣ (1803) میں سنسکرت سے اردو میں ترجمہ کیا۔ یہ داستان ایک حسین برہمن مادھونل کی کہانی ہے جسے راجا گوبند راؤ اپنے محل سے نکال کر شہر بدر کر دیتا ہے۔ داستان کی زبان خالص اردو ہے جسے مصنف نے فارسی کے فقرے اور تراکیب سے چار چاند لگا دیا ہے ۔ . اس کی فضا ہندی روایات و اسالیب سے بنی گئی ہے جس میں جنسیات کے کوک شاستر کو کافی اہمیت دی گئی ہے۔
سنگھاسن بتیسی
یہ داستان بھی سنسکرت سے اردو میں منتقل ہوئی ہے جسے کاظم علی جوان اور للو لال کوی نے۱۸۰۱ (1801) میں لکھا۔ اس داستان میں اس قدیم ہندو معاشرت کے مرقعے پیش کیے گئے ہیں جو مذہبی کتابوں اور سنسکرت ادب میں ملتے ہیں۔ اس کی زبان صاف، سادہ اور جملے سیدھے سادھے ہیں۔ تصنع اور صنائع سے پرہیز کیا گیا ہے البتہ بھاشا کے الفاظ کا بکثرت استعمال کیا گیا ہے ۔
شکنتلا
کاظم علی جوان نے للو لال کوی کی مدد سے اس مشہور داستان کو سنسکرت سے اردو میں۱۸۰۱ (1801) میں ترجمہ کیا۔ داستان کی زبان سہل و سادہ ہے لیکن جملے مجسع و مقفع تراکیب سے بھری پڑی ہیں جس سے اس کے پلاٹ میں تعقید اور پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ مشکل و گنجلک عبارت کی وجہ سے داستان نہ تو لطف و انبساط پیدا کرنے میں کامیاب نظر آتی ہے اور نہ ہی ڈرامے جیسی دیسی فضا قائم کرنے میں کامیاب ہو سکی۔
خرد افروز
یہ داستان شیخ ابوالفضل غلامی کی کتاب عیار دانش کا اردو ترجمہ ہیں جس کا اصل ماخذ سنسکرت ہے. حفیظ الدین احمد نے عیار دانش سے پہلی بار۱۸۰۳ (1803) میں یہ قصہ اردو میں منتقل کیا اور خرد افروز نام رکھا۔ داستان کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ قواعد زبان کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور فارسی سے لفظی ترجمہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ مترجم نے فارسی محاوروں کا بھی ترجمہ کر دیا ہے اور جا بجا جملوں کی ساخت میں بھی فارسی اسلوب بیان کی پیروی کی گئی ہے البتہ ہندی، عربی اور فارسی الفاظ کے استعمال میں اعتدال برتا گیا ہے۔
فورٹ ولیم کالج کے باہر کی داستانیں:
رانی کیتکی اور کنور اودے بھان کی کہانی
داستان رانی کیتکی کی کہانی انشاء اللہ خاں انشاء کی لسانی صلاحیت کا ایک ادبی نمونہ ہے ۔ انشاء نے عمداً اس کہانی میں عربی، فارسی اور سنسکرت زبان و الفاظ کی آمیزش سے احتراز کیا ہے۔ یہ کہانی ۱۸۰۳ (1803) میں رانی کیتکی اور کنور اودھے بھان کی داستانِ عشق کی شکل میں زیور تصنیف سے آراستہ ہوئی۔ اس کہانی میں ہندی کی سادگی اور انشاء کی فطری شوخ کا کامیاب میل نظر آتا ہے۔ بول چال کے سہل اور سادہ الفاظ میں اس قدر معنویت پیدا کر دیا ہے کہ یہ طول طویل زبان و بیان پر فوقیت رکھتی ہے۔ نیز نئی نئی تشبیہوں اور استعاروں کے استعمال نے اس کی ادبی حیثیت و معنویت میں اور بھی اضافہ کر دیا ہے۔ کہانی کا اہم کردار رانی کیتکی ہے جو کہ نسوانی کردار کی ایک بے مثل اور شاہکار نمونہ ہے۔
گلشن ِ نو بہار
اس داستان کو محمد بخش مہجور نے ۱۸۰۵ (1805) میں غالباً کسی فارسی قصہ سے اردو میں منتقل کیا۔ اس داستان کی اہمیت یہ ہے کہ مرزا رجب علی بیگ سرور نے اپنی مشہور زمانہ داستان فسانہ عجائب کو تحریر کرتے وقت اسے سامنے رکھا اور شعوری و غیر شعوری طور پر اس سے کسب فیض کیا۔ داستان شہزادہ مہر افروز اور شہزادی ماہ پرور کی عشقیہ کہانی پر مبنی ہے۔ داستان کا پلاٹ خاصا طویل ہے جس کی وجہ سے اس میں تعقید اور پیچیدگی پیدا ہو گئی ہے۔ داستان میں فوق فطرت عناصر کی بہتات ہے جبکہ اس کی عبارت مرجز اور قافیہ بند ہے۔
فسانہ عجائب
فسانہ عجائب رجب علی بیگ سرور کی طبع زاد تصنیف ہے جو ۱۸۲۴ (1824) میں زیور تحریر سے آراستہ ہو کر منظرِ عام پر آئی۔ یہ داستان اپنے عہد کے رائج دوسرے قصوں سے مختلف نہیں۔ اس میں عام طور پر وہی کہانیاں موجود ہیں جو اس زمانے کی کسی نہ کسی داستان میں شامل تھیں۔ یوں تو اس میں شہزادہ جان عالم اور شہزادی انجمن آرا کے عشق کی کہانی بیان کی گئی ہے لیکن اس میں کہیں مہجور کی گلشن نو بہار کی جھلک دکھائی دیتی ہے، کسی جگہ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان کا عکس نظر آتا ہے، کبھی داستان امیر حمزہ، بہار دانش اور پدماوت کا فیض دکھائی دیتا ہے۔ ممکن ہے سرور نے براہ راست ان رائج الوقت قصوں سے استفادہ نہ کیا ہو لیکن لاشعوری طور پر ان کے اثرات و کوائف فسانہ عجائب میں در آئے ہوں۔
داستانیں موضوع اور کردار کے اعتبار سے ایک دوسرے سے بہت مماثلت رکھتی ہیں۔ عموماً داستانوں میں عشق و محبت اور رزم و بزم موضوع ہوتا ہے۔ شہزادے، شہزادیاں، دیو، پری اور جن وغیرہ کردار ہوتے ہیں البتہ جو بات ان داستانوں میں فرق پیدا کرتی ہے وہ ہے اس کا اسلوب اور اس میں معاشرت کا بیان۔ اس لحاظ سے فسانہ عجائب کا ذکر کافی اہم ہو جاتا ہے۔ فسانہ عجائب کے طرز بیان نے انیسویں صدی کی نثر کو بہت متاثر کیا ہے۔ باغ و بہار کی سلاست اور سادگی کی ڈگر سے ہٹ کر لکھی جانے کے باوجود فسانہ عجائب کی نثر اپنے عہد میں بہت مقبول ہوئی۔ اسی مقبولیت کے سبب بار بار اس کی طباعت بھی عمل میں آئی۔ باغ و بہار کو اپنی سادگی اور سلاست کی وجہ سے قبولِ عام نصیب ہوئی تھی اور اس کے جواب میں لکھی گئی فسانہ عجائب اپنے مقفیٰ، مسجع اور مرصع اسلوب کی وجہ سے پسندیدگی کی نظر سے دیکھی گئی۔ فسانہ عجائب کی تخلیق کے وقت تک لکھنؤ کے دربار کی آرائش و زیبائش اور پُر تکلفانہ ماحول ختم نہیں ہوا تھا۔ اس پر تکلفی کے اثرات براہ راست نظم و نثر پر بھی پڑ رہے تھے۔ فسانہ عجائب کی پُر تکلف نثر اسی لیے اس دور میں پسند کی گئی۔
بستان حکمت
۱۸۳۶ (1836) میں فقیر محمد خان گویا نے فارسی داستان انوار سہیلی کا اردو ترجمہ بستان حکمت کے نام سے کیا۔ داستان کی عبارت نکھری و رواں ہےالبتہ عربی و فارسی کے بے شمار الفاظ و تراکیب من و عن نقل کر دیے گئے ہیں۔ جملے اور فقرات کی ترتیب پرانی ہے جبکہ زبان پر قدامت پسندی کا رنگ و روپ صاف جھلکتا ہے۔ عربی و فارسی الفاظ و تراکیب کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے داستان کی زبان گرچہ پیچیدہ معلوم ہوتی ہے تاہم کہانی کی جاذبیت اور دلکشی میں کوئی کمی نہیں ہے۔
قصہ گل و صنوبر
اس داستان کو منشی بیم چند کھتری نے ۱۸۳۷ (1837) میں فارسی سے اردو میں منتقل کیا۔ یہ داستان بادشاہ قیموس شاہ بن لیموس شاہ کی شہزادی مہر انگیز اور سلطان شمشاد لعل ہوش کے شہزادے الماس روح بخش کے داستانِ محبت پر مبنی ہے۔ داستان کا پلاٹ سادہ ہے جبکہ زبان سلیس اور رواں اور عبارت گنجلک، تصنع اور لفظی آرائش سے پاک ہے البتہ الفاظ و فقرات کی ترتیب فارسی آمیز ہے۔
بوستان خیال
اردو میں جو طول طویل داستانیں لکھی گئی ہیں ان میں ایک اہم داستان بوستانِ خیال بھی ہے۔ اس داستان کا مصنف محمد تقی خیال مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلے کے عہد حکومت میں گجرات سے دہلی آئے اور یہاں رہ کر انہوں نے اس طویل فارسی داستان کی ابتدا کی جسے بعد میں فارسی سے اردو میں منتقل کرنے کا کام خواجہ امان دہلوی نے انجام دیا ۔ انہی کی بدولت بوستان خیال جیسی قابل قدر داستان ۱۸۵۹ (1859) میں اردو والوں تک پہنچی۔ اردو میں یہ داستان نو ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جس کا اہم اور بنیادی ہیرو معز الدین اور ملکہ شمسہ تاجدار ہیں۔ داستان گو نے داستان میں تاریخی حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیے معز الدین کے کردار کو تاریخ سے لیا ہے جو کہ مصر کے فاطمی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک سلطان ہے ۔ بہرحال داستان گو تاریخ سے کچھ افراد اور ممالک کے نام لے کر اپنی تخیل بیان کو حقیقی رنگ دینے کی کوشش کرتا ہے۔ اس داستان میں اگرچہ تاریخی کردار ہیں لیکن اس کی کہانی دوسری داستانوں سے مختلف نہیں۔ یہاں بھی شہزادوں اور شہزادیوں کے عشق کی بزم آرائیاں ہیں۔ دیو، جن، پری اور ان کی جادوگری ہے۔ حق اور شر کی جنگ ہے۔ الغرض کہ یہ داستان بہت سی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ہر قصہ کو مرکزی کردار معز الدین سے جوڑنے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً معز الدین کے اجداد کے قصے یا شمسہ تاجدار کے اجداد کے قصے جن کا زمانہ معز الدین سے سات سو سال پہلے کا ہے۔ داستان گو نے داستان کے ویلن جمشید خود پرست کی بھی پوری کہانی بیان کی۔
سروشِ سخن
سید فخر الدین حسین سخن نے ۱۸۶۰ (1860) میں داستان سروشِ سخن تصنیف کی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ داستان سرور کے فسانہ عجائب کے جواب میں لکھا گیا ہے جو کہ چین کے شہزادہ آرام دل اور فارس کی شہزادی ملکہ حسن افروز کی عشقیہ کہانی پر مبنی ہے۔ داستان کا پلاٹ تھوڑا پیچیدہ ہے جبکہ زبان قافیہ و سجع بند ہے۔ عبارت شروع سے آخر تک نہایت رنگین اور دلکش ہے البتہ تفصیل نگاری اور جزئیات نگاری کمزور ہے جس کی وجہ سے مناظر و محافل کا نقشہ واضح طور پر سامنے نہیں آ پاتا ۔
طلسم فصاحت
یہ داستان محمد حسین جاہ نے ۱۸۷۴ (1874) میں اپنے ممدوح منشی نولکشور کے ایما پر تحریر کی تھی۔ داستان کا پلاٹ بالکل سادہ ہے جو شہزادہ قمر ضیا اور شہزادی خورشید جمال کی داستانِ محبت پر مبنی ہے۔ داستان میں معاشرتی حالات، واقعات اور مناظر کو اتنی فنی چابکدستی سے بیان کیا گیا ہے کہ اس وقت کے لکھنوی تہذیب و معاشرت کا نقشہ آنکھوں کے سامنے کھنچ جاتا ہے۔ زبان کا استعمال اور جملوں و ترکیبوں کا التزام اس فن کارانہ انداز سے کیا گیا ہے کہ قاری کچھ وقت کے لیے اسی ماحول میں گم سا ہو جاتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment