سب رس اور ملا وجہی
میر اقبال
دکنی زبان کے نثری افسانے کی قدیم ترین کتاب سب رس ہے جو کہ ۱۹۳۵ء میں تصنیف ہوئی اس کے مصنف ملا وجہی ہیں ۔ ملا وجہی دکنی ادب کے پہلے نف ہیں جس نے نظم و نثر کو گھلا ملا کر ایک نئے اسلوب کی بنیاد رکھی ۔ یہ قصہ فتاحی نیشا پوری کے حسن و دل سے لیا گیا ہے جو کہ قلی قطب شاہ کی فرمائش پر لکھا گیا ۔ لیکن ملا وجہی نے اس کتاب میں اس کے ماخذ کا کہیں بھی ذکر نہیں کیا ۔ مولوی عبد الحق کا خیال ہے کہ وجہی کو مقامی کی حسن و دل جو نثر میں ہے ہاتھ لگ گئی تھی۔ دستور عشاق اس کی نظر سے نہیں گزری تھی ۔ اس کے کئی وجوہ ہیں ایک تو یہ کہ وجہی نے اپنی نثر میں اس کا طرز اڑایا ہے مجمع اور منطقی عبارت لکھی ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جن امور کا ذکر دستور عشاق میں مفصل ہے اور نثر کے خلاصے میں سرسری یا برائے نام ہے اس کی تفصیل وجہی کے یہاں بھی نہیں پائی جاتی ہے۔
تاریخی اعتبار سے سب اس کی اہمیت دو ہری ہے ایک تو یہ کہ خالص اور بے میں تمثیل کے لحاظ سے یہ منفرد حیثیت کی حامل ہے۔ دوسرے یہ کہ سب رس اردو کا پہلا ادبی کارنامہ ہے۔ سب رس قرون وسطی کے اس عالمگیر حصے کو موضوع ذکر بنایا گیا ہے جو اس وقت ساری دنیا میں مقبول و معروف تھا۔ اس کے علاوہ سب رس کی زبان ایسے نئے لسانی و تہذیبی عناصر کے اخراج سے بنی ہے جو اس دور میں ایک بالکل نئی چیز ہے۔ سب رس دکنی زبان کی پہلی داستان ہی نہیں بلکہ پہلی تمثیل بھی ہے۔ جس میں حسن و عشق کا معاشقہ علامتی انداز میں پیش کیا گیا ہے۔
سب رس کے اسلوب بیان کے جو خصائص خود و جہی نے بیان کیے ہیں اسمیں بات مصنف کے نزدیک یہی ہے کہ اس نے نثر میں شعریت کے انداز پیدا کیے نظم و نثر کو ملا کر ایسے پیرائے ایجاد کیے جس سے نثر میں شعر کا لطف پیدا ہو گیا۔ جو کر معاشرت اور کلچر کی نمایاں خصوصیات تھیں ۔ وہی شاعرانہ مزاج اور رنگینی سب لک کے طرز کی جان ہے سب رس کی نثر پر فارسی کا اثر صرف الفاظ و محاورات تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کے اسلوب لہجہ اور صرفی پہلو پر چھایا ہوا ہے ۔ سب رس میں وجہی اپنی زبان کو زبان ہندوستان کہتا ہے اس کا سبب یہ ہے کہ وجہی شمالی ہند کی زبان کی اس روایت کی پیروی کر رہا تھا جو دکن میں پروان چڑھی تھی ۔
سب رس قصہ گوئی کے دائرے میں آتی ہے بالکل اسی طرح سے جیسے قطب مشتری یہ دونوں کتابیں جو ایک نظم میں اور دوسری نثر میں ہے۔ اردو زبان کے ارتقا کی ایک ہی منزل پر لکھی گئی۔ سب رس ایک کامیاب ممتیلی داستان ہے ۔ قصہ کا مقام یونان ہے۔ یہ وہی جگہ ہے جو رستم کی جائے پیدائش ہونے کی وجہ سے مشہور ہے۔ مگر سب رس میں یہاں کے بادشاہ کا نام عقل بتایا گیا ہے اور کائنات کے ذرے ذرے کا اس کا تابع فرمان ہونا عقل کے سلسلے میں اہمیت رکھتا ہے ۔ اس داستان میں عقل اور عشق دو طاقت ور بادشاہوں کی جنگ کی داستانیں بتائی گئی ہیں ۔ دراصل یہ انسانی فطرت کے دو ایسے تقاضے ہیں جن کی آویزش ذہن انسانی میں ہر آن جاری رہتی ہے اگرچہ بظاہر ان میں بعد المشرقین پایا جاتا ہے یعنی ایک مشرق کا دوسرا مغرب کا لیکن زندگی کا سلیقہ دونوں کی ہم آہنگی سے پیدا ہوتا ہے۔
اس داستان میں عقل کے بیٹے کو دل اور عشق کی بیٹی کو حسن بتایا گیا ہے۔ مزید یہ کہ تمثیل نگار نے جس کی ذات کو بھی چاہا اشخاص میں تبدیلی کر دیا ہے نازغمزہ ادا دل رہائی ، خوش نمائی اور لطافت کو حسن کی سہیلیاں بتایا گیا ہے اس طرح حسن اور دل کی ہا بھی کشش ایک ایسا عام تجربہ ہے جس کے لیے کسی ترتیب یا تیاری کی قید نہیں اور جو ازل سے ہر شخص کا مقدر بن چکا ہے۔
سب رس میں عقل اور عشق حسن اور دل کے علاوہ دیگر کردار بھی رمزینکا نقاب چہرے پر ڈالے ہوئے ہیں نظر دل کا دوست ہے ظاہر میں بھی اہلِ دل نظر کے ذریعے ہی حسن کا مشاہدہ کرتے ہیں زہد کو ایک پہاڑ بتایا ہے ۔ رقیب کو سبک سار شہر کا محافظ بتایا ہے ۔ جو شہر کی دیوار کے راہ میں حائل - اور یہ حقیقت بھی ہے کہ دیدار حسن کی راہ میں رقیب حائل ہوتا بھی ہے اس کے علاوہ ہمت کے بھائی کا نام قامت بتایا ہے۔ حسن کی سہیلیوں میں اس کی ایک پہیلی لٹ بھی ہے۔ وجہی نے رمزیت میں اضافہ کرنے کے لیے اس کی سہیلی کا رنگ کالا بتایا ہے۔ حسن کے غلام کا نام خیال ہے وجہی نے خیال کو مصور بنا کر ایک حسین رمز یہ کا نقشہ پیش کیا ہے اور غضب اور بحران کو قید خانہ بتایا ہے۔ وجہی نے نہ صرف خیالات و محسوسات کو شکل میں پیش کیا ہے بلکہ موجودات جیسے دل، زلف اور قامت کو بھی اجسام دے دیئے ہیں چوں کہ وجہی نے خیالات کو داستان کی طرز میں پیش کیا ہے اسی لیے اس میں پلاٹ، کردار اور ماحول کی موجودگی کے علاوہ داستانی روایت بھی موجود ہے اور ہر تمثیلی داستان کی طرح اس داستان کی دوسطحیں ہیں ایک داستانی اور دوسری صوفیانہ ۔
اس داستان میں ایک نقص یہ بھی ہے کہ عام قاری کے لیے اس کی صوفیانہ تمثیل آخر تک ایک راز ہی رہتی ہے۔ قصہ اور اس کے سارے کردار بھی تمثیلی ہیں۔ وجہی کے طویل بیانات اور وعظ کے دفتر نے اس داستان میں الجھاؤ سا پیدا کر دیا ہے۔ سب رس میں منظرنگاری برائے نام ہے اور چند جملوں سے آگے بڑھتی ہے اس میں بھی حقیقت نگاری کی جگہ شاعری کی گئی ہے ۔ منظر نگاری، سراپا نگاری ہر جگہ مصنف نے ایک ہی شاعرانہ زبان استعمال کی ہے کہیں بھی حقیقت نگاری سے کام نہیں لیا ہے۔ وجہی کا مقصد معاشرتی رنگ پیش کرنا نہیں تھا پھر بھی داستان میں ایک ایسی دنیا ضرور موجود ہے جو فرضی نہیں ہے۔ وجہی نے سب رس میں موقع موقع سے فارسی ، برج بھاشا اور دکن کے کافی شعر سموئے ہیں۔ جن کے باعث نثر میں لطافت کا اضافہ ہو گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرانی آیتیں اور حدیثیں بھی نقل کی ہیں اور جابجا ایرانی دکنی برج بھاشا مرہٹی اور دہلوی زبان کے مقولے، کہاوتیں بھی شامل کر دی ہیں جس سے اسلوب بیان میں دل چسپی اور رنگینی پیدا ہوگئی ہے۔
0 comments:
Post a Comment