MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

فسانہ عجائب کا اجمالی جائزہ

فسانہ عجائب کا اجمالی جائزہ

میر اقبال
                باغ و بہار کا جواب دینے کے ارادے سے رجب علی بیگ سرور نے فسانہ عجائب کے نام سے ۱۸۲۴ء میں ایک داستان لکھی جو ۱۸۴۳ء میں پہلی بار شائع ہوئی۔ فسانہ عجائب سرور نے کانپور میں لکھی اس کے تمہیدی باب میں دو قسم کے بیانات ملتے ہیں ایک تو لکھنؤ کی تعریف میں جس سے سرور کی ذہنی وابستگی ہے دوسرے کانپور کی بنت جہاں مصنف کو جلا وطنی کی زندگی گزارنا پڑا۔ یہی وجہ ہے کہ اس داستان میں دو بادشاہوں کی مدح سرائی کی گئی ہے ۔ ایک تو بادشاہ غازی الدین حیدر کی ، دوسرے بادشاہ نصیر الدین حیدر کی، جن کے دربار میں یہ داستان پیش کی گئی۔ 

               فسانہ عجائب ایسی طلسمی داستان ہے جو کہ لکھنوی تہذیب و معاشرت کی بہترین عکاسی کرتی ہے۔ اسے عجیب الخلقت ہاتوں اور داستانوں پر فوقیت حاصل ہے۔ زندگی کی عکاسی اس طرح کی گئی ہے کہ اسے ہمیشگی کا دستاویز مان لیا گیا ہے ۔ اس میں طوالت سے کام نہیں لیا گیا ہے۔ تین اہم کردار شہزادہ جان عالم ، ملکہ مہر نگار، انجمن آرا ہیں ۔

            میر امن نے در پردہ اہل لکھنو پر جو چوٹ کی تھی فسانہ عجائب کے دیباچے میں اس کا بھی بدلہ لے لیا گیا ہے۔ قصے میں دو طرح کا اسلوب نظر آتا ہے۔ پہلا تو یہ کہ ابتدائی حصے میں شعریت رنگینی، ادبی لطافت، زور تخیل اور دوسرا حصہ یعنی اصلی داستان جس میں قافیہ پیمائی مبالغہ آرائی اور تصنع موجود ہے۔ اس کا تاریک پہلو اس میں کثرت سے اشعار کا پایا جاتا ہے جو بے لطف بے محل اور غیر متوازن ہے۔ فسانہ عجائب کی اہمیت در اصل اس کے اسلوب اور اس کے زبان و بیان کی وجہ سے ہے ہر دور کا ادب اپنے عہد کی معاشرتی ، معاشی، سماجی قدروں کا آئینہ ہوتا ہے۔ سرور کا عہد وہ عہد ہے جب شعر و شاعری کا چمچہ صرف خواص میں ہی نہیں بلکہ عوام میں بھی تھا۔

           سرور نے اپنی داستان کی بنیاد فارسی کی آراستہ و پیراستہ ثقیل اور پر تکلف عبارت پر ہی رکھی ۔ لیکن زندگی کی صداقتوں سے لبریز کر کے اور جذبات نگاری کی تاریکی سے زندگی کی جیتی جاگتی تصویر پیش کر کے اسے سادہ اور شگفتہ نثر بنا دیا ۔ فسانہ عجائب میں سرور نے عام طور سے قافیہ کا بڑا فنکارانہ استعمال کیا ہے۔ کہیں کہیں تو یہ استعمال اس قدر برمحل اور خوبصورت انداز میں ہے کہ نثر میں بھی نظم کا سا لطف آ گیا ہے۔ اس داستان میں مصنف نے اپنے عہد کی فصیح با محاورہ اور شگفتہ زبان استعمال کی ہے۔
        فسانہ عجائب کے مختلف حصوں میں مصنف یہ شعوری کوشش کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ افسانہ ایسے انداز میں لکھے جو شرف قبول حاصل کر سکے۔ میر امن کے باغ و بہار نے بے تکلف اسلوب کی وجہ سے جو مقبولیت ان کو عطا کی تھی ان سے یہی مطالبہ کیا گیا تھا کہانی ایسی زبان میں ہو جو روز مرہ گفتگو ہماری تمہاری ہے ایسی زبان میں نہ ہو کہ ہم فقرے کے معنی فرنگی محمل کی گلیوں میں پوچھتے پھریں۔

         فسانہ عجائب کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ اپنے عہد کا سچا مرتع ہے لکھنو کی عام زندگی اور اس کے معاشرت و ماحول کی پیداوار ہے۔ اس میں زندگی کا رنگ مثنوی سحر البیان سے زیادہ گہرا اور حقیقی محسوس ہوتا ہے۔ لکھنو کی سب سے بڑی خصوصیت شیریں بیانی ہے۔ اس کا اظہار وہاں کے انداز کے علاوہ روز مرہ کی معمولی گفتگو ، پچھیتی فقرے بازی اور حاضر جوابی کی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔

           فسانہ عجائب کے کرداروں میں جان عالم اس داستان کے ہیرو اور انجمن آرا اس کی ہیروئن ہے۔ اس کے علاوہ ملکہ مہر نگار ضمنی کرداروں میں ہے۔ اس میں فوق الفطری کردار بھی ہیں۔ سرور نے اس داستان میں کردار نگاری اس طرح کی ہے کہ اسے ناول سے قریب کر دیا ہے۔ فوق الفطری کرداروں کے باوجود اس داستان میں ایسے بھی کردار ہیں جو ہماری طرح زمین کی پیداوار ہیں۔ جان عالم کا کردار عاشق مهجور کا ہے۔ اس کردار میں بھی ہیرو کی وہی خصوصیات ہیں جواردو کی داستانوں میں عام ہوتی ہے اس کردار میں حسن کے ساتھ ساتھ غیر معمولی طاقت اور قوت عمل بھی موجود ہے۔ انجمن آرا اس داستان کی ہیروئن ہے۔ دولت کی پروردہ ہے۔داستان کی ہیروئن کی طرح حد درجہ حسین ہے اور حسن ہی اس کی نمایاں خصوصیت ہے پھر بھی خلوص ، شرافت محبت ہمدردی کے جذبات موجود ہیں۔ مہر نگار کا کردار قابل توجہ کردار ہے دور اندیش اور انتظامی صلاحیت کی مالک ہے۔

            فسانہ عجائب صرف لکھنوی تہذیب کا مرقع ہی نہیں بلکہ اس داستان میں مخلوط ہندوستانی تہذیب کو بھی پیش کیا گیا ہے اور اس میں ہندوستانی عناصر بکھرے پڑے ہیں ۔ شہزادے کی پیدائش پر جنم پتری کا تیار ہونا اور شادی کے موقعے پر گھڑی اور ساعت کا خیال مخلوط تہذیب کی نمائندگی کرتا ہے۔ 

         مکالمہ نگاری میں سرور نے معاشرت کے ساتھ ساتھ حفظ مراتب کا خاص خیال رکھا ہے۔ اعلیٰ طبقہ کے علاوہ سرور نے ادنیٰ طبقہ کی گفتگو بھی نہایت کامیابی سے پیش کی ہے۔ غرض کہ سرور نے داستان میں مختلف طبقوں کے لوگوں کی گفتگو پیش کی ہے اور ہر جگہ بلاغت کو مد نظر رکھا ہے ۔ اگر ایک طرف انھوں نے نوابی زبان سے فیض اٹھایا تو دوسری طرف لکھنو کے پشت اور متوسط طبقہ کے لوگوں کی فقرے بازی کھیتی اور چغل خوری سے بھی لطف اندوز ہوئے ہیں ۔ فسانہ عجائب کی مکالمہ نگاری میں ہندوستانی معاشرت اور لکھنوی  تہذیب کو پیش کرنے میں سرور کامیاب رہے ہیں ۔
x

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment