MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں تشریح

علامہ اقبال کی غزل

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں 

تشریح

کبھی اے حقیقت منتظر نظر آ لباس مجاز میں 

کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں 

طرب آشنائے خروش ہو تو نوا ہے محرم گوش ہو 

وہ سرود کیا کہ چھپا ہوا ہو سکوت پردۂ ساز میں 

تو بچا بچا کے نہ رکھ اسے ترا آئنہ ہے وہ آئنہ 

کہ شکستہ ہو تو عزیز تر ہے نگاہ آئنہ ساز میں 

دم طوف کرمک شمع نے یہ کہا کہ وہ اثر کہن 

نہ تری حکایت سوز میں نہ مری حدیث گداز میں 

نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی 

مرے جرم خانہ خراب کو ترے عفو بندہ نواز میں 

نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں 

نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں 

جو میں سر بہ سجدہ ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا 

ترا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں

              ایک مرتبہ علامہ اقبال تعلیمی کانفرنس میں شرکت کی غرض سے لکھنؤ گئے۔ اسی سفر کے دوران ہوا یوں کہ انہیں اردو کے مشہور فکشن رائٹر سید سجاد حیدر یلدرم کے ساتھ تانگے میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا۔ دونوں حضرات پیارے صاحب رشید لکھنوی کے گھر پہنچے۔ دوران گفتگو اقبال نے اپنی یہ مشہور غزل انھیں سنائی اقبال کی اس غزل کو پیارے صاحب رشید بڑی خاموشی سے سنتے رہے اور کسی بھی شعر پر داد نہ دی۔ جب وہ اپنی پوری غزل سنا چکے تو پیارے صاحب نے فرمایا،” اب کوئی غزل اردو میں بھی سنا دیجے۔ ” اس واقعے کو علامہ اقبال اپنے دوستوں میں ہنس ہنس کے بیان کرتے تھے۔ 

     ثقیل الفاظ کے معنی

حقیقت منتظر : حقیقت جس کا انتظار کیا جائے

طرب آشنائے خروش : شور و غل اور ہنگامے سے خوشی حاصل کرنے والا

 دم طوف : چکر لگانا

 کریک شمع : چراغ کا نانگا پروانہ 

 عفو بندہ نواز : ایسی معانی جس میں بندے پر لطف و کرم کیا گیا ہو

            مطلع:       پیش نظر غزل کے مطلع میں رب ذوالجلال کو خطاب کر کے کہا گیا ہے کہ اے مالک حقیقی ! تو نے خود کو ابتدائے آفرینش سے حجاب میں چھپا رکھا ہے لیکن تیرے بندے دیدار کے لیے ترس رہے ہیں۔لہذا اب ضروری ہو گیا ہے کہ حجاب سے نکل کر مادی شکل اختیار کرلے کہ میری عجز و انکسار میں ڈوبی پیشانی میں ہزارہا سجدے مضطرب و منتظر ہیں کہ کب تو سامنے ہو اور ہم سجدہ ریز ہو جائیں۔ 

              دوسرا شعر:      دوسرے شعر میں شاعر کہتا ہے کہ اے رب تجھے تو اس عالم رنگ و بو کے ہنگاموں سے لطف اندوز ہونا چاہیے کہ تیرا وجود ایک ایسی صدا کے مانند ہے جس کی رسائی عام لوگوں کی سماعت تک ہو۔ یوں بھی ایسے تھے کی کیا حیثیت ہے جو ساز کے پردے کی خامشی میں گم ہو کر رہ جائے۔ اس شعر کا مفہوم بھی مطلع سے ملتا جلتا ہے۔

                تیسرا شعر:    اے محبوب! تیرا دل بے شک ایک آئینے کی مانند ہے ۔یہ بھی فطری امر ہے کہ تو اسے ٹوٹنے سے بچا رہاہے۔ لیکن یہ عمل شاید مفید نہ ہو کہ جب دل ٹوٹ جاتا ہے تو باری تعالیٰ کی نگاہوں میں زیادہ عزیز ہو جاتا ہے۔

              چوتھا شعر:      شمع کے گرد طواف کرتے ہوئے پروانے نے کہا کہ اے شمع! کہ ماضی کی وہ تاثیر نہ تو تیرے جلنے میں موجود ہے نا ہی میرے جل مرنے کے عمل میں باقی ہے۔ اس لیے کہ اب ہمارے عمل میں خلوص موجود نہیں رہا۔    

         پانچواں شعر:    اے مولائے کائنات ! میرے گناہ گار وجود کو ساری دنیا میں کسی مقام پر بھی پناہ نہیں مل سکی جب کہ اس گناہ نے مجھے برباد کر کے رکھ دیا تھا۔ پناہ ملی بھی تو محض تیرے دامن رحمت ہیں۔ جہاں میرے گناہ کر کو نہ صرف یہ کہ چھپا لیا بلکہ معاف کر دیا۔ 

چھٹا شعر: اب تو صورت حال ایسی ہو گئی ہے یعنی زمانے میں اس طرح کا انقلاب رونما ہوا ہے کہ عشق میں بھی پہل کی طرح حرارت نہیں رہی نا ہی حسن میں وہ شوخیاں باقی رہیں اس کی وجہ سے نہ تو غزنوی میں وہ تڑپ ہے نا ہی ایاز کی زلفوں میں وہ پیچ و خم باقی ہیں جو کشش کے آئینہ دار تھے۔ مراد یہ ہے کہ عاشق اورمحبوب دونوں اپنی صفات سے بیگانہ ہو چکے ہیں۔

            آخری شعر:    غزل کے آخری شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ اپنی بے عملی کے باوجود میں اگر کبھی سجدہ ریز ہوا تو زمین سے یہ آواز آتی سنائی دی کہ دل تو تیرا بتوں کا پرستار ہے پھر تجھے اس نماز میں آخر کیا ملے گا کہ خلوص کے بغیر کوئی عمل درست نہیں ہوتا۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment