حبیب تنویر کی ڈرامانگاری
حبیب تنویر آزادی ہند کے بعد کے ڈراما نگاروں میں اس لحاظ سے کافی مشہور ہیں کہ ان کا ڈراما آگرہ بازار سب سے زیادہ اسٹیج پر پیش کیا گیا ۔ عطیہ نشاط اس ڈراما کے بارے میں تھتی ہیں : ” اس ڈراما کو پڑھنے یا دیکھنے کے بعد یہ احساس ہوتا ہے کہ حبیب تنویر نے اسیج پر آنے والے کرداروں اور تماشائیوں کے فاصلہ کو بالکل کم کرنے کی جو کوشش کی ہے اس میں مشہور ڈراما نگار بریخت کے تصورات کی آمیزش ہے ۔
اس طرح ڈاکٹر ظہور الدین نے آگرہ بازار میں ایپک تھیٹر کے اثرات کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ڈراما آگرہ بازار، میں نہ کوئی پلاٹ ہے نہ ہیرو، نہ کوئی مخصوص نقطہ نظر ہے اور نہ کوئی بڑی کشمکش لیکن ایک ایسی فضا ضرور ہے جو ہمیں تھوڑا بہت متاثر کرتی ہے۔ اگر چہ اور چیزوں کی کمی اسے ڈرامے کی حیثیت سے کمزور بنا دیتی ہے.البتہ فضا کا تاثر کچھ دیر باقی رہتا ہے۔
حبیب تنویر کے ڈراموں میں موضوع تو اہم ہے اور زبان سادہ ہے لیکن ان کی دلکشی نہیں جیسی کہ آغا حشر کے ڈراموں میں ملتی ہے۔ البتہ ان کے ڈرامے آگرہ بازار میں اسٹیج پر کامیاب ہونے کے لیے کافی خوبیاں ہیں۔ اس کی مرکزی شخصیت نظیر اکبر آبادی ہیں اور اس ڈرامے میں سنگیت وغزلوں کی بھر مار ہے ۔ اس کا پلاٹ مختصر ہے۔ نظیر اکبر آبادی کے گرد مختلف قصے اور روایتیں یکجا کر دی گئی ہیں ۔ اس کے بعد حبیب تنویر کافن ترقی کرتا رہا ۔ انھوں نے اپنا کے لیے کئی ڈرامے لکھے۔ مختلف مسائل کو اپنے ڈراموں کا موضوع بنایا ۔ سادگی ، اختصار اور دلچسپی سب میں پائی جاتی ہے۔
حبیب تنویر کے دیگر ممتاز ڈراموں میں شطرنج کی بازی“ پریم چند کی کہانی پر مبنی ہے ۔ ان کا دوسرا ڈراما جھاڑ کرشن چندر کی کہانی پر مبنی ہے۔ ”مرزا شہرت" مولیر کے ڈرامے پر مبنی ہے۔ تلچھٹ گورکی کے ڈرامے کا ترجمہ ہے ” جالی درا پر دے روسی ڈراما کا ترجمہ ہے۔ حبیب تنویر نے صفدر ہاشمی کے ساتھ مل کر کام کیا اور تھیز کے مسائل سے ان کو کافی دلچسپی تھی۔
ٹی وی کے فروغ نے ڈراما اور تھیٹر کو پیچھے ڈھکیل دیا لیکن ملک کی یونیورسٹیاں اس فن کو فروغ دینے کی کوشش کرتی رہیں۔ بیگم قدسیہ زیدی اور حبیب تنویر نے اس میدان میں قابل قدر کام کیا ہے۔ ان کی کوشش سے ہندوستانی تھیٹر کے نام سے ایک ادارہ قائم ہوا جس نے سہراب اور رستم مٹی کی گاڑی ، شکنتلا، خالد کی خالہ ، گڑیا گھر وغیرہ ڈرامے پیش کیے۔
0 comments:
Post a Comment