میر امن اور باغ و بہار
میر اقبال
فورٹ ولیم کالج کی تاریخ میں جو سب سے اہم سنگ میل نظر آتا ہے وہ میر امن کی داستان باغ و بہار ہے ۔ یہ میر امن کا وہ کارنامہ ہے جو ان کو ہمیشہ زندہ رکھے گا۔ یہ فارسی کے ایک بے حد مقبول تھے چہار درویش کا ترجمہ ہے ۔ باغ و بہار کی تکمیل سے تیس برس پہلے امیر خسرو کے چہار درویش کو فارسی سے اردو میں میر محمد حسین عطا خاں تحسین نے نوطرز مرصع کے نام سے لکھا۔ میر امن نے اس کو ۱۸۰۲ء میں باغ و بہار کے نام سے پیش کیا ۔
باغ و بہار میں دہلی کی تہذیب بولتی ہوئی نظر آتی ہے ۔ اس کے امرا میلے ٹھیلے، سیر تماشے، اس کی ضیافتیں اس کی تقریبات رسوم و قواعد ، آداب و مراسم غرض اس میں وہ سب کچھ تھا جو اس وقت کی دلی میں تھا۔ باغ و بہار ایک تہذیب کی آواز ہے ہی ساتھ ہی اس زمانے کے ذہنی رجحانات کا آئینہ دار بھی ہے۔ زمانے کے رجحانات باغ و بہار کے محاوروں میں اپنا عکس دکھاتے ہیں۔ باغ و بہار آسان سادہ اور عام فہم زبان کا پہلا نمونہ ہے۔ میر امن نے اسی زبان میں باغ و بہار لکھ کر سادگی صفائی اور سہل نگاری کا راستہ دکھایا ۔ باغ و بہار کوئی طبع زاد تصنیف نہیں ترجمہ ہے لیکن اسے اردو کے نثری ادب میں نہایت بلند مرتبہ حاصل ہے۔ اردو نثر کو لفاظی ، عبارت آرائی ، قافیہ اور وزن کی پابندی سے نجات دلانے کی طرف یہ پہلا انقلابی قدم تھا۔
باغ و بہار کی سادگی میں غضب کی دلکشی ہے اس کی سادہ اور بے تکلف نثر نے اردو کو ایک نیا راستہ دکھایا اور اہل قلم کو یہ احساس دلایا کہ سادگی میں بھی حسن موجود ہے اور زبان کی ترقی کے لیے سادگی ضروری ہے۔ باغ و بہار میں چار درویشوں کا قصہ ہے۔ چاروں قصوں سے ایک مکمل داستان بنتی ہے۔ ان کہانیوں کی ترتیب میں فنی سوچ و فکر سے کام لیا گیا ہے۔ پہلے تھے میں ایک درویش کا کردار ہے جو عیاشیوں میں پڑ کر مفلسی کا شکار ہو جاتا ہے اور پھر بے غیرتی سے بہن کے یہاں چلا جاتا ہے ۔
دوسرے درویش میں شہزادہ نیم روز کا قصہ ہے۔ فارس کے شہزادے اور بصرہ کی شہزادی کا کردار ہے اور بوڑھے لکڑ ہارے اور حاتم طائی کا کردار ہے ۔ دوسرے درویش کی قصے میں لکھتے ہیں ۔ برس دن کے عرصے میں ہرج مرج کھینچتا ہوا شہر نیم روز میں جا پہنچا۔ جتنے وہاں کے آدمی ہزاری اور نیز ازی نظر پڑے سیاہ پوش تھے۔ جیسا احوال سنا تھا اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ میر امن نے چاروں قصوں کو باہم ربط دے دیا ہے کہ اس داستان میں پاٹ کی موجودگی نظر آتی ہے۔
باغ و بہار کی ایک خوبی اس میں جمع اور قافیہ کا اہتمام ہے اگر چہ عبارت میں ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر ہم قافیہ الفاظ کالا یا جانا غیر قدرتی بات ہے۔ ان کے یہاں مجمع کاری بھی پائی جاتی ہے لیکن مسمع کاری افعال تک محدود ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں که ؎
حیران پریشان زار زار سر پر خاک اڑاتا، کپڑے پھاڑتا ، نہ کھانے کی سدھ، نہ بھلے کی بدھ ہے۔
میر امن نے عام طور پر نثر کو شاعرانہ طریقوں سے موثر بنانے کے بجائے نر کے خاص وسائل کے ذریعہ موثر بنایا ہے۔ ان کی اثر آفرینی کا بڑا حربہ تکرار الفاظ اور تابع مہمل کا استعمال ہے جس سے جوش اور خوش آہنگی پیدا کرنا مقصد میر امن کی باغ و بہار میں عام فضا پر بادشاہوں وزیروں اور امیروں کی زندگی کا گہرا رنگ موجود ہے ۔ بادشاہ کیسے ہوا کرتے ہیں؟ بادشاہ کے کیا فرائض ہیں؟ ، ایک اچھی حکومت کے کیا لوازم ہیں؟ ان تمام باتوں کا علم ہمیں چاروں درویشوں کی بات سےہو جاتا ہے گو کہ اس داستان میں عام زندگی اور اس کے مسائل سے بے تعلقی برتی گئی ہے۔ داستانوی لحاظ سے پہلے درویش اور دوسرے درویش کی کہانیاں زیادہ اہمیت رکھتی ہیں ۔ یہاں مصنف کا فن پوری طرح ابھر کر سامنے آتا ہے۔ پہلے درویش کی
داستان میں میر امن نے بہن کا ایسا صحیح اور موثر تصور پیش کیا ہے کہ ہمارے پورے داستانی ادب میں اس کی مثال ملنی مشکل ہے ۔
باغ و بہار اردو کی دیگر داستانوں کے مقابلے میں نمایاں مقام رکھتی ہے۔ دیگر داستانوں میں طوالت کی وجہ سے پلاٹ کی طرف کوئی توجہ نہیں ملتی لیکن باغ و بہار میں میر امن نے چاروں درویشوں اور آزاد بخت کے قصے کو اس طرح باہم ربط دے دیا ہے کہ اس ناول میں داستان کی طرح پلاٹ کی موجودگی نظر آتی ہے۔
باغ و بہار کے تمام کردار گو کہ مثالی ہیں لیکن میر امن کا یہ کمال ہے کہ انھوں نے بے جان کرداروں کو گویائی عطا کر دی ہے ۔ انھیں دلی کی معاشرت سے قریب کر کے زندہ کردار بنا دیا ہے۔ یہ کردار ایسے ہیں جن میں سماجی اقدار بھی ہیں اور جن
کے جذبات بھی ہماری ہی طرح ہیں ۔ شہزادہ نیم روز کا کردار ایسا کردار ہے جس میں تحیر اور تجس موجود ہے۔ یہ کردار اس دور کے نیم وحشی اور جارحانہ عزائم کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ عاشق بھی ہے، مجنوں بھی ہے، قاتل بھی ہے اور نماز کا پابند بھی ۔ تمام حالات میں کوئی شہزادہ یا رئیس معلوم ہوتا ہے۔ واقعہ نگاری میں بھی میر امن کو مہارت ہے۔ وہ قصے کو بہت دلچسپ انداز سے پیش کرتے ہیں کہ قارئین کی دلچسپی بڑھ جاتی ہے اور پس منظر کے طور پر ہندوستانی تہذیب کو پیش کرتے ہیں ۔
مکالمہ نگاری میں بھی وہ کامیاب نظر آتے ہیں ۔ اگر چہ ان کے بھی کردار ایک انداز اور ایک ہی لبو لہجہ میں بات چیت کرتے ہیں پھر بھی ان مکالموں میں ادبی خوبیاں موجود ہیں۔ ہائی و بہار میں میر امن نے ہندی الفاظ کا کثرت سے استعمال کیا ہے۔ جس سے عبارت میں ترنم پیدا ہوگیا ہے۔ غرض کہ داستان باغ و بہار داستان نگاری کے جملہ فنی لوازم کو بخوبی پورا کرتی ہے اور بحیثیت داستان نگار کے میر امن اپنے دور کے سب سے کامیاب داستان گو ہیں ۔
0 comments:
Post a Comment