اردو نظم کا آغاز و ارتقاء
اردو نظم نگاری کا ابتدا دکن میں ہوئی۔ مذہبی اور صوفیانہ نظموں کی شکل میں اردو نظم کے ابتدائی نقوش نظر آتے ہیں۔ دکن کی بہمنی سلطنت نے اردو ادب کی خاصی پزیرائی کی ۔ سلطان قلی قطب شاہ اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔ قلی قطب شاہ نے غزل، قصیدہ، مرثیہ، مثنوی اور نظم میں طبع آزمائی کی۔ ان کے فکر کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان کے کلام میں مختلف موضوعات پر نظمیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ شب برات، عید، بسنت، برسات، اور حسن و عشق وغیرہ کا بیان بڑے دلکش اندازمیں کیا ہے۔دکن کے شعرا میں قلی قطب شاہ کی شاعری اپنے موضوعات کے اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ ان کی نظموں کے موضوعات اور عنوانات عوامی زندگی سے بہت قریب نظرآتے ہیں۔
شمالی ہند میں اردو نظم نگاری کا ابتدا سترہویں صدی میں ہوئی۔ محمد افضل افضل اور جعفر زٹلی کے یہاں اردو نظم کے ابتدائی نمونے دیکھے جاسکتے ہیں۔اس عہد کی ایک اہم تصنیف محمد افضل افضل کی ’بکٹ کہانی، ایک سنگ میل کا درجہ رکھتی ہے۔’بکٹ کہانی‘ کوبارہ ماسا کی روایت میں اہم مقام حاصلہے۔ افضل نے ایک عورت کی زبانی اس کے ہجر کی کیفیات کی تصویر کشی موثر انداز میںکی ہے۔ اس نظم میں مکمل تسلسل، اثر آفرینی اور بیان میں روانی موجود ہے۔ اس دورکے بعد اردو شاعری کا وہ دور آتا ہے جسے ہم میر و سودا کا دور کہتے ہیں۔ گوکہ میر و سودا کی حیثیت نظم نگارکی نہیں ہے لیکن ان کی مثنویوں، قطعات، ہجو اور شہر آشوب کو ان کے روایتی مفہوم سے الگ کرکے دیکھیں تو اس عہد کے مسائل اور انفرادی و اجتماعی زندگی کی کشمکش کاا ندازہ ہوتا ہے۔ میر کی مختصر مثنویاں، مخمس، مسدس اور شکارنامے میں اس عہد کے سیاسی اور معاشرتی انحطاط اور اخلاقی قدروں کے زوال کی تصویر نمایاں نظر آتی ہے۔
اس عہد میں نظم کے حوالے سے نظیر اکبرآبادی کا کوئی مدمقابل نظر نہیں آتا۔ نظیر کی شاعری اس عہد کے مجموعی مزاج سے بالکل الگ ایک نئی روایت قائم کرتی ہے۔ نظیراگرچہ غزل کے بھی شاعر تھے لیکن نظم ان کے اظہار کا بہترین ذریعہ بنی۔تنوع اور رنگارنگی کے لحاظ سے نظیر کا کلام آج بھی بے مثال ہے۔ ان کی نظموں کے مطالعہ سے ہم زندگی کے گوناگوں مشاہدات سے دوچار ہوتے ہیں۔ سماجی زندگی کے مختلف پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں۔ رسم و رواج، کھیل کود، تہوا ر، بچپن، جوانی، گرمی، برسات، جاڑا، چرند و پرند، غرض کہ ہم جس فضاا ور ماحول میں سانس لیتے ہیں اس کی جیتی جاگتی تصویر سامنے آجاتی ہے۔ نظیر کی نظمیں اس عہد کے زندہ مسائل سے گہرا سروکار رکھتی ہیں۔ معاشی مسائل ہوں یا سماجی اور اخلاقی ہر موضوع پر ان کے لیے یکساں اہمیت رکھتا ہے انھوں نے اپنے گرد و پیش زندگی کو جس رنگ میں دیکھا اس پر نظمیں تخلیق کیں چنانچہ ہولی، دیوالی، عید، بسنت، برسات، جاڑا، بچپن، جوانی، بڑھاپا، تل کے للو، بلدیوجی کا میلہ، آٹا، دال پر نظمیں موجود ہیں۔
نظیر کے بعد عرصے تک نظم کی دنیا سونی ہی رہی۔1857 میں ہندستان پر انگریزوں کا مکمل تسلط قائم ہونے کے بعد حکومت اور عوام کے درمیان رابطے کے لیے کئی شہروں میں ا نجمنوں کا قیام عمل میں آیا۔ ان انجمنوں کے اغراض و مقاصد میں علوم و فنون کی ترویج واشاعت بھی تھا۔ 21 جنوری 1865 کو انجمن اشاعتِ مطالبِ مفیدہ پنجاب کا قیام عمل میں آیا۔ یہی انجمن ’انجمن پنجاب‘ کے نام سے مقبول ہوئی۔ محمد حسین آزاد اس انجمن سے وابستہ تھے۔ مئی 1874 میں کرنل ہالرائڈ کی سرپرستی میں موضوعاتی مشاعرہ منعقدہوا جس میں مصرع طرح کے بہ جائے موضوعاتی نظمیں پڑھی گئیں۔ ان شاعروں میں مولانا محمد حسین آزاد اور مولانا الطاف حسین حالی نے بھی اپنی نظمیں پیش کی ہیں۔ گرچہ شاعروں کا یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک قائم نہ رہ سکا لیکن نظم نگاری کی انھیں کوششوں سے اردو نظم نگاری کے نئے دور کا آغاز ہوا ۔
مولانا آزاد اردو نظم کا دائرہ وسیع تراور اسے ردیف و قافیہ کی قید سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ انھوں نے ردیف ا ور قافیہ سے آزاد نظمیں بھی کہیں۔ حالی آزاد کے ہم رکاب تھے۔ انجمن کی سرگرمیوں میں حصہ لیتے تھے۔ حالی نے ان مشاعروں میں کئی اہم نظمیں سنائیں۔ برکھارت، نشاطِ امی، مناظرہ رحم و انصاف، حب وطن، جیسی نظمیں انھیں مشاعروں میں سنائی گئیں۔انجمن پنجاب کے تیسرے مشاعرے کا موضوع ’امید‘ تھا۔ حالی کی نظمیں زبان کی سادگی اور صفائی کے اعتبار سے بلند مقام رکھتی ہیں۔ مسدس مدو و جزر اسلام، مناجاتِ بیوہ، مرثیۂ غالب، چپ کی داد وغیرہ حالی کی اہم نظموں میں شمار کی جاتی ہیں۔
حالی کے بعد کے ادوار میں اسماعیل میرٹھی ، اکبر الہ آبادی اور شاد عظیم آبادی نے بھی نظم کی فروغ میں اہم کارنامے انجام دیے اور اردو نظم کو ایک پہچان بخشی ۔ اکبر الہ آبادی نے اپنی شاعری میں نہ صرف ہر سیاسی واقعے کا ذکر کیا ہے بلکہ اس پر اپنے نقطہء نظر سے تبصرہ بھی کیا ہے۔ چاہے مسجد کانپور کا قصہ ہویاجلیان والا باغ کا خونی حادثہ، تحریک ترک موالات ہو، یا گئو رکھشا کی تحریک ، زبان سے متعلق اختلافات ہوں یا شیعہ سنی جھگڑے، مسلم لیگ ہو کہ گانگریس، بنگال کی تحریک تقسیم ہو کہ تحریک خلافت۔
اس کے بعد اردو نظم کی ارتقاء میں اقبال کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔ انہوں نظم کے سلسلے کو مزید آگے پہونچایا۔ اقبال اردو کے اہم مفکر شاعر کی حیثیت سے ابھرے۔ ان کی نظموں میں ربط و تسلسل ہے ، مدلل اور مربوط فلسفہ ہے۔ان کی نظموں میں مرد مومن،تصوف،شاہین،خودی،بےخودی وغیرہ کا فلسفہ نظر آتا ہے۔اقبال کی نظموں کے کل چار مجموعے ہیں جن کا نام بانگ درا – 1924 ، بال جبریل – 1934 ،ضرب کلیم – 1936 اور ارمغان حجاز – 1938 ہیں۔اقبال کی مشہور نظموں کے نام ہمالہ ،ساقی نامہ،شکوہ،جواب شکوہ،خضر راہ ،مسجد قرطبہ،لالہ سحرا،وغیرہ ہیں۔
اسکے بعد کے ادوار میں جوش، فراق اختر شیرانی اور ساغر نظامی کا نام اردو نظم نگاروں میں سر فہرست نظر آتا ہے ۔ ترقی پسند تحریک میں اچھے اور باصلاحیت نوجوان شعراء شامل ہو گئے ۔ اور کچھ پرانے ادیب بھی اس کی حمایت کرنے لگے ۔ان شعراء میں فیض خالص ترقی پسند شاعر کی حیثیت سے منظر عام پر آۓ۔فیض کی شاعرانہ قدروقیمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان کا نام غالب اور اقبال جیسے عظیم شاعروں کے ساتھ لیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری نے ان کی زندگی میں ہی سرحدوں، زبانوں، نظریوں اور عقیدوں کی حدیں توڑتے ہوئے عالمگیر شہرت حاصل کر لی تھی۔ جدید اردو شاعری کی بین الاقوامی شناخت انہی کی مرہون منت ہے۔ ان کی آواز دل کو چھو لینے والے انقلابی نغموں، حسن و عشق کے دلنواز گیتوں، اور جبر و استحصال کے خلاف احتجاجی ترانوں کی شکل میں اپنے عہد کے انسان اور اس کے ضمیر کی مؤثر آواز بن کر ابھرتی ہے۔ غنایئت اور رجائیت ٖفیض کی شاعری کے امتیازی عناصر ہیں۔ خوابوں اور حقیقتوں، امیدوں اور نامرادیوں کی کشاکش نے ان کی شاعری میں گہرائی اور تہ داری پیدا کی ہے۔ ان کا عشق درد مندی میں ڈھل کر انسان دوستی کی شکل اختیار کرتا ہے اور پھر یہ انسان دوستی اک بہتر دنیا کا خواب بن کر ابھرتی ہے۔ ان کے الفاظ اور استعاروں میں اچھوتی دلکشی، سرشاری اور پہلوداری ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ فیض نے شاعری کا اک نیا دبستاں قائم کیا۔
فیض کے علاوہ اسرار الحق مجاز بھی اول اول اس تحریک کے نمائندہ شاعر کی حیثیت سےآۓ بعد اگرچہ کہ اس سے منحرف ہو کر اپنی ایک الگ راہ نکال لی ، انہوں نے بہت خوبصورت نظمیں لکھی ہیں۔ان کے علاوہ جہاں شاراختر ، علی سردار جعفری، ساحر لدھیانوی، کیفی اعظمی ، احمد ندیم قاسمی اردو کے ترقی پسند نظم گوئی کے نمائندہ شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔
ترقی پسند تحریک اردو ادب کی ایک طوفانی تحریک تھی اس تحریک نے بلاشبہ خارجی زندگی کا عمل تیز کر دیا تھا چنانچہ اس تحریک کے متوازی ایک ایسی تحریک بھی مائل بہ عمل نظر آتی ہے جس نے نہ صرف خارج کو بلکہ انسان کے داخل میں بھی جھانک کر دیکھا جس کا نام ”حلقہ اربابِ ذوق“ ہے۔اس تحریک کے دو اہم نظم نگاروں کے نام ن م راشد اور دوسرا میرا جی ہیں۔
ن م راشد کو حلقہ اربابِ ذوق کی شاعری میں ایک اہم مقام حاصل ہے۔ ن م راشد ایک ایسا شاعر ہے جو ہمارے سامنے ایک جدید انسان کا تصور پیش کرتا ہے وہ انسان جس کا تعلق مغربی تہذیب سے ہے جو مغربی تعلیم کا پروردہ ہے جس کا رابطہ نہ مذہب سے، نہ تہذیب سے اور نہ اخلاقیات سے ہے اس نے اپنے سارے مراکز گم کر دیے ہیں۔ اور بقول ڈاکٹر وزیرآغا ”راشد کے انسان کے قدم زمین میں دھنسے ہوئے ہیں بلکہ زمین سے اُٹھے ہوئے ہیں۔“
حلقہ اربابِ ذوق کی شعراءمیں میراجی کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ میراجی شخصی حوالوں سے اردو نظم کا بدنام ترین شاعر ہے۔ اس کی نظم کی بنیاد داخلیت پر ہے۔ میراجی کا بنیادی سوال انسان کے بارے میں ہے کہ انسان کیا ہے انسان کا اس پور ے نظام سے کیا تعلق ہے۔ اس نے انسان کی شناخت اور اس کی پہچان کے لیے مختلف سفر اختیار کیے اس نے اپنی نظم کا موضوع جنس کو بنایا اور اس عمل سے وہ انسان کی حقیقت تک پہنچناچاہتا تھا۔میراجی کی اہم نظموں کے نام سمندر کا بلاوا،کلرک کا نغمۂ محبت ، یعنی ،شراب ، مجھے گھر یاد آتا ہے ،جاتری ،بغاوت نفس ہیں۔
آزادی کے بعد اردو نظم میں بہت سارے رجحانات در آۓ ۔ کچھ رجحانات کا سلسلہ مغرب کی جدید نظموں سے ملتا ہے ۔سائنس اور ٹکنالوجی کے زمانے میں انسان مشینی زندگی کا ایک پر زو بن کر رہ گیا ہے ۔ صنعتی نظام حیات میں انسان کی تنہائی ، بےہی بے چارگی کے احساسات سے دوچار ہوتی ہے۔ لوگ شہروں کی طرف جارہے ہیں ۔ بڑے اور صنعتی شہروں کی بھاگ دوڑسے خاندان کا شیر از منتشر ہو رہا ہے ۔ تنہائی نے خود غرضی کے جذبات کو فروغ دیا ہے۔ انسان کی تمنائیں آرزوئیں خواہشات صرف اپنی ذات تک ہی محدود ہو رہی ہیں ۔ یہ دور شدید ذہنی خلفشار بر ہمی اور ملال کا دور ہے۔ صرف اردو ہی نہیں اس دور کی تمام زبانوں کی نظموں میں ان کیفیتوں کا اظہار ہو رہا ہے ۔ عمیق حنفی وحید اختر ابن انشاء وزیر آغا وغیرہ کی نظموں میں اس دور کی عکاس ملتی ہے ۔ سلیم احمد کی نظم "مشرق" کافی مقبول ہوئی ہے۔ اس نظم میں شاعر نے مشرق و مغرب کے دو زادیوں اوردو تہذیبوں کے مجادلے کو پیش کرتے ہیں ، آدھی صدی کے بعد وزیر آغا کی نظم ہے جو پانی کے دھارے کو ایک ایسے انسان کی تمثیل کے طور پر پیش کرتی ہے ، فہمیدہ ریاض کی نظم " کیا تم پورا چاند نہ دیکھو گے ؟ " اردو نظم کے سفر کا ایک اہم موڑ ہے ۔
0 comments:
Post a Comment