علامہ اقبال کی غزل گوئی
اقبال نے اردو شاعری میں نئی روح پھونکی ۔ ان کی شاعری میں خودی ، بے خودی ،عمل عشق ومحبت جیسے موضوعات ملتے ہیں۔ اقبال ملک وقوم کی خدمت انجام دینا چاہتے تھے اسی لئے انھوں نے اردو نظم اور غزل کی طرف خاص توجہ دی۔ علّامہ کو شاعرِ مشرق، اور فلسفی شاعر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے جس کی ایک وجہ ان کی وہ نظمیں ہیں جو ہندوستان کے مسلمانوں میں حب الوطنی کے جذبے کو ابھارنے، خاص طور پر نوجوانوں کو اسلامی طرزِ فکر اور مقصدِ حیات کی طرف متوجہ کرنے کے لیے لکھی گئی تھیں۔ لیکن اقبال نے ابتدا غزل گوئی سے کی تھی جسے ہم نظر انداذ نہیں کر سکتے۔
اقبال نے اپنی شاعری کے بالکل ابتدائی دور میں ایک غزل لکھی تھی جس کا ایک شعر بطور نمونہ پیش خدمت ہے دیکھئے اس میں اقبال کا جوش بیاں کا اظہار کس طرح ہوتا ہے۔ اقبال کی اس مصرع سے اندازہ ہوتا ہے۔
موتی مجھ کے شان کریمی نے چن لئے
قطر جو تھے مرے عرق الفعال کے
اقبال کے پہلے استاد مرزا ارشد گورگانی تھے۔جس کے بعد داغ دہلوی کو اپنا استاد کیا۔ لیکن داغ نے چند غزلیں دیکھنے کے بعد کہہ دیا ان غزلوں میں اصلاح کی کی گنجائش بہت کم ہے۔ اقبال کے ابتدائی دور کی غزلیات بھی کوئی کم معیار کی نہیں ہیں گو ان میں وہ مقصدیت پسندی کا رنگ غالب نہیں نظر آتا۔ اس دور کی زیادہ تر شاعری کو اقبال نے " بانگ درا" ترتیب دیتے ہوئے حذف کر دیا تھا۔ اقبال نے یادگار کے طور پر اس دور کی چند غزلیں اس کتاب میں شامل کیں۔ اب اس غزل کا مطلع ملاحظہ فرمائیے اور اقبال کی اس دور کی طبیعت کی روانی اور شوخ بیانی پر غور فرمائیے:
نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی
مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی
اقبال نے حضرت داغ دہلوی کے رنگ میں بھی غزلیں کہی ہیں جو سہل ممتنع اور اقبال کی سادہ بیانی کا نمونہ ہیں۔ آئیے اقبال کو ایک غزل گو شاعر کے طور پر پڑھتے ہیں جس میں سہل ممتنع اور سادہ بیانی ہیں۔
ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں
اقبال کے ہاں سوز و گداز بہت زیادہ ہے۔ اس کے بغیر غزل میں تاثیر پیدا نہیں ہوسکتی۔ اقبال اور میر دونوں کی غزلوں کی جان سوز و گداز ہے۔ دونوں عشق کے بچے جذبے کے عکاس ہیں۔ ایک کا محبوب حقیقی ہے تو دوسرے کا مجازی۔
خودی ایک وسیع المعانی لفظ ہے ،جو کلام اقبال میں جابجا استعمال ہوا ہے۔خودی سے اقبال کی مراد اردو، فارسی کے مروجہ معنوں میں تکبر و غرور نہیں ،بلکہ اقبال کے نزدیک خودی ،احساس،جرأت مندی،غیرت، جذبہ خود داری، اپنی ذات و صفات کا ادراک رکھتے ہوئے اپنی انا کو شکست وریخت سے محفوظ اپنی دنیا اپنے زور بازو سے پیدا کرنے کا نام ہے۔خودی کے فیضان کا شمار ممکن نہیں اور اس کی وسعتوں اور بلندیوں کا احاطہ ممکن نہیں۔یہی وجہ ہے کہ اقبال نے ان کا ذکر اپنے کلام میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔
خودی کیا ہے راز درون حیات
خودی کیا ہے بیداریِ کائنات
ازل اس کے پیچھے ابد سامنے
نہ حد اس کے پیچھے نہ حد سامنے
اقبال نے اپنی شاعری میں شاہین کو ایک خاص علامت کی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ اور ان کا محبوب پرندہ ہے۔ اقبال کے ہاں اس کی وہی اہمیت ہے جو کیٹس کے لئے بلبل اور شیلے کے لئے سکائی لارک کی تھی، بلکہ ایک لحاظ سے شاہین کی حیثیت ان سے زیادہ بلند ہے کیونکہ شاہین میں بعض ایسی صفات جمع ہوگئی ہیں۔ جو اقبال کی بنیادی تعلیمات سے ہم آہنگ ہیں یوں تو اقبال کے کلام میں جگنو ، پروانہ ، طاوس ، بلبل ، کبوتر ، ہرن وغیر ہ کا ذکرآیا ہے۔ لیکن ان سب پر شاہین کو وہ ترجیح دیتے ہیں۔ اقبال نے تشبیہات و استعارات میں بلبل و قمری کے بجائے باز اور شاہین کو ترجیح دی ہے۔اقبال کے نذدیک یہی صفات مردِ مومن کی بھی ہیں وہ نوجوانوں میں بھی یہی صفات دیکھنا چاہتا ہے ۔ شاہین کے علاوہ کوئی اور پرندہ ایسا نہیں جو نوجوانوں کے لئے قابل تقلید نمونہ بن سکے اُردو کے کسی شاعر نے شاہین کو اس پہلو سے نہیں دیکھا” بال جبریل“ کی نظم ”شاہین“میں اقبال نے شاہین کو یوں پیش کیا ہے۔
پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں
کہ شاہیں بناتا نہیں آشیا نہ؟
اقبال کی شاعری میں ’’تصوف ‘‘انتہائی اہم عنصر ہے ان کی شاعری میں جو رمزیت اور ماورائی کیف ہے اس میں تصوف کا خاص دخل ہے۔ جنوں، وجود، خرد، عشق کے الفاظ اقبال کے یہاں جب مطالعہ کے وقت پیش آتے ہیں تو ان کی کیفیت الگ ہی محسوس ہوتی ہے۔ یہ بھی قابل غور ہے کہ اقبال نے یہ منفرد احساس حسن تصوف سے ہی پیدا کیا، اگر چہ پوری طرح تصوف نہ صحیح تو کم از کم اس کی اصطلاحات یا اسلوب کی سطح پر تصوف کی گرمی کو ضرور محسوس کیا جا سکتا ہے۔اقبال کے کلام میں تصوف کے خلاف جو کچھ ملتا ہے اس کا لب و لباب یہ ہے کہ اقبال نے تصوف پر جا بجا طنز کیا ہے، لیکن اس طنز کی نوعیت تردید ی کی نہیں بلکہ محبوبانہ تنبیہ کی ہے۔
علامہ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں میں اسلامی بیداری اور اسلامی فکر کو پروان چڑھانے کا بہت ہی خوب کارنامہ انجام دیا ہے،ساتھ ہی مسلمانوں میں خود اعتمادی کی بحالی کے لیے انہوں نے احساس خودی کے تصور کو عام کیا،بلند اڑان اڑنے والے شاہین جیسے پرندے کو اپنی شاعری میں استعارہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک دعوت فکر دی ہے ۔
علامہ اقبال ایک مفکر ،مدبر،داعی اسلام ،سچے عاشق رسولؐتھے،انہوںاپنی شاعری کے ذریعے سوائی ہوئی قوم کو بیدار کرنے اور ان کو عظیم مقصد کے لئے تیار کرنے کا کام بڑی خوبی سے انجام دیا۔اللہ کے رسول حضرت محمد ؐ سے انسیت تھی، سچا عشق تھا ۔علامہ کا یہ شعر ملاحظہ ہو؎
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقاںوہی یٰسیںوہی طاہا
علامہ اقبال نے اس شعر میںنگاہ عشق و مستی میںاول اور آخر شخصیت،ہستی،ذات ِحضرت محمد ؐ کو قرار دیا ہے جن کے اخلاق قرآن کا سچا نمونہ تھے۔جن کو اللہ رب العزت نے رحمت العلمین بنا کر بھیجا تھا۔شکوہ جواب شکوہ میں علامہ اقبال نے حضرت محمد ؐ سے سچی محبت اور انسیت کا کیا خوب اظہار کیا ہے ؎
کی محمد ؐ سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
0 comments:
Post a Comment