MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

اختر الایمان اور نظم ایک لڑکا Akhtarul Iman Aur Nazm Ek Ladka


 اختر الایمان  اور نظم ایک لڑکا

میر اقبال

اختر الایمان  کی  پیدائش: 12 نومبر 1915 کو  ضلع بجنور (اترپردیش) کی تحصیل نجیب آباد میں ہوئی اور ان کی  وفات: 9 مارچ 1996میں ہوئی۔والد کا نام حافظ فتح محمد تھا جو پیشہ سے امام تھے اور مسجد میں بچوں کو پڑھایا بھی کرتے تھے۔اس گھرانے  میں دو وقت کی روٹی زندگی کا سب سے بڑا مسئلہ تھی۔والد کی رنگین مزاجی کی وجہ سے ماں باپ کے  تعلقات کشیدہ رہتے تھے اور والدہ اکثر جھگڑا کر کے اپنے مائکہ چلی جاتی تھیں اور اختر تعلیم کے خیال سے باپ کے پاس رہتے۔والد نے ان کو قرآن حفظ کرنے پر لگا دیا لیکن جلد ہی ان کی چچی جو خالہ بھی تھیں ان کو دہلی لے گئیں اور اپنے پاس رکھنے کےبجائے ان کو اک یتیم خانہ موئید الاسلام (موجودہ بچوں کا گھر واقع دریا گنج) میں داخل کرا دیا۔یہاں اختر الایمان نے آٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی۔موئید الاسلام کے اک استاد عبدالواحد نے اختر الایمان کولکھنے لکھانے اور مقرری کی طرف توجہ دلائی اور انھیں احساس دلایا کہ ان میں ادیب و شاعر بننے کے بہت امکانات ہیں۔ان کی حوصلہ افزائی سے اختر نے سترہ اٹھارہ سال کی عمر میں شاعری شروع کر دی۔یہ اسکول صرف آٹھویں جماعت تک تھا یہاں  سے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد انھوں نے فتحپوری اسکول میں داخلہ لے لیا جہاں ان کے حالات اور تعلیم کا شوق دیکھتے ہوئے ان کی فیس معاف کر دی گئی اور وہ چچا کا مکان چھوڑ کر الگ رہنے لگے اورٹیوشن سے اپنی گزر بسر کرنے لگے۔ 1937 میں انھوں نے اسی اسکول سے میٹرک پاس کیا۔

میٹرک کے بعد اخترا الایمان نے اینگلو عربک کالج (موجودہ ذاکر حسین کالج) میں داخلہ لیا۔کالج میں وہ اک آتش نوا مقرر اور اپنی عامیانہ رومانی نظموں کی بدولت لڑکیوں کے پسندیدہ شاعر کی حیثیت سے جانے جانے لگے۔ان کے بے تکلف دوست ان کو بلیک جاپان اختر الایمان کہتے تھے۔وہ غیر تدریسی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور مسلم اسٹودنٹس فیڈریشن کے جوائنٹ سکریٹری تھے۔ان کی ایک آواز پر کالج میں ہڑتال ہو جاتی تھی۔اسی زمانہ میں ان کی ماں نے،ان کی مرضی کے خلاف ان کی شادی اک ان پڑھ لڑکی سے کر دی جو طلاق پر ختم ہوئی۔ ٹیوشن میں ان کے پاس لڑکیاں بھی پڑھنے آتی تھیں ان میں اک شادی شدہ لڑکی قیصر بھی تھی جس پر اختر فریفتہ ہو گئے اور اپنے بڑھاپے میں اس کی یاد میں اپنی مشہور نظم "ڈاسنہ اسٹیشن کا مسافر" لکھی۔یہ ان کا آخری عشق نہیں تھا وہ بہت جلد کسی نہ کسی کے عشق میں گرفتار ہو جاتے تھے اور ٹوٹ کر محبت کرنے لگتے تھے۔

اپنی کم روئی اور ناداری کے سبب ان میں خود اعتمادی بالکل نہیں تھی وہ تقریبا" ہر قریب سے نظر آنے والی لڑکی کو پسند کر لیتے تھےاور پھر خود ہی اس سے مایوس ہو جاتے تھے۔وہ جس سے محبت کرتے شدت سے محبت کرتے یہ محبتیں ان کے لئے کوئی کھیل تماشہ نہیں تھیں وہ گہری اور شدید ہوتی تھیں لیکن دوسری طرف سے بے توجہی ان کو محبوب بدلنے پر مجبور کر دیتی تھی۔پھر ان لڑکیوں کے ناقابل حصول ہونے کا احساس ان کو کھا گیا۔اور کیفیت ماورائی خیالوں میں تبدیل ہو گئی۔انھوں نے خود کو سمجھا لیا کہ ان کی مثالی محبوبہ اس دنیا میں موجود ہی نہیں ہے اب وہ اک خیالی محبوبہ کے تصور میں مگن ہو گئے جس کاا اک نام "زلفیہ" بھی تجویز کر لیا اور اپنا دوسرا مجموعہ کلام اسی کے نام معنون کیا۔یہ زلفیہ اس دنیا کی مخلوق نہیں تھی بلکہ اک تصور،اک ہیولیٰ اور ایک کیفیت تھی جس کے تھوڑے بہت مظاہر جس میں نظر 

آئے وہ اسی کی پرستش کرنے لگتے۔اپنی باقی زندگی میں،انسانی،سماجی،اخلاقی غرضیکہ زندگی کے تمام شعبوں کی اقدار سے وہ اسی زلفیہ کے حوالہ سے رو برو  ہوتے رہے اور وہی ان کی شاعری کی فکری،حسی اور جذباتی اساس بن گئی۔اینگلو عربک کالج سے بی اے کرنے کے بعد ان کو وہاں ایم اے میں داخلہ نہیں ملا کیونکہ ان کو کالج کی ڈسپلن کے لئے خطرہ سمجھا جانے لگا تھا۔۔۔۔

کچھ دنوں بیکار رہنے کے بعد وہ ساغر نظامی کی خواہش پر 1941 میں "ایشیا" کی ادارت کے لئے میرٹھ چلے گئے جہاں ان کی تنخواہ 40 روپے ماہوار تھی۔میرٹھ میں اختر کا دل نہیں لگا اور وہ چار پانچ ماہ بعد دہلی واپس آ کر سپلائی کے محکمہ میں کلرک بن گئے۔لیکن ایک ہی ماہ بعد 1942 میں ان کا تقرر دہلی ریڈیو اسٹیشن میں ہو گیا۔یہ ملازمت ریڈیو اسٹیشن کی داخلی سیاست کی بھینٹ چڑھ گئی اور ان کو برطرف کر دیا گیا جس میں مبینہ طور پر ن م راشد کا ہاتھ تھا۔۔اس کے بعد اخترا الایمان نے کسی طرح علی گڑھ جا کر ایم اے اردو میں داخلہ لیا لیکن ناداری کی وجہ سے صرف پہلا سال مکمل کر سکے اور روزی کی تلاش میں پونہ جاکر شالیمار اسٹوڈیو میں بطور کہانی نویس اور مکالمہ نگار ملازمت کر لی تقریبا دو سال وہاں گزارنے کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور فلموں میں مکالمے لکھنے لگے۔1947 میں انھوں نے سلطانہ منصوری سے شادی کی یہ محبت کی شادی نہیں تھی لیکن پوری طرح کامیاب رہی۔

بمبئی پہنچ کر اخترا الایمان کی مالی حالت میں بہتری آئی جس میں ان کی انتھک محنت کا بڑا دخل تھا اور جس کا سبق ان کو شاعر مزدور احسان دانش نے دیا تھا اور کہا تھا "اختر صاحب دیکھو شاعری وائری تو اپنے حسابوں سب چلا لیتے ہیں روٹی مزدوری سے ملتی ہے۔مزدوری کی عادت ڈالو عزیزم!"بمبئی کی فلم نگری میں آکر اختر الایمان کو  دنیا کو دیکھنے اور انسان کو ہر انداز میں سمجھنے کا موقع ملا۔یہاں کی دھوکے بازیاں مکاریاں جھوٹ کینہ کپٹ کا انھوں نے مطالعہ کیا۔ان کا کہنا تھا کی فلمی دنیا سے مجھے بصیرت ملی۔

اختر الایمان اپنی شاعری کے بہترین مفسر اور نقاد خود تھے۔وہ اپنی کتابوں کے دیباچے خود لکھتے تھے اور قاری کی رہنمائی کرتے تھے کہ ان کو کس طرح پڑھا جائے۔مثلا"یہ شاعری مشین میں نہیں ڈھلی،اک ایسے انسان کے ذہن کی تخلیق ہے جو دن رات بدلتی ہوئی سماجی معاشی اور اخلاقی اقدار سے دوچار ہوتا ہے۔جہاں انسان  زندگی اور سماج کے ساتھ بہت سے سمجھوتے کرنے پر مجبور ہے جنھیں وہ پسند نہیں کرتا۔سمجھوتے اس لئے کرتا ہے کہ اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں اور ان کے خلاف آواز اس لئے اٹھاتا ہے کہ اس کے پاس ضمیر نام کی اک چیز ہے۔" اور یہ تنہا اختر الایمان کے ضمیر کی آواز نہیں بلکہ ان کے عہد کے ہر حساس شخص کے ضمیر کی آواز ہے۔ان کی شاعری اسی با ضمیر آدمی کے محسوسات کی عکاسی ہے جس میں جارحانہ ردعمل کی گنجائش نہیں کیونکہ یہ جذبہ کی نہیں احساس کی آواز ہے۔

اختر الایمان اک صلح جو انسان تھے لیکن لفظ کے تقدس پر کوئی آنچ آنا ان کو گوارہ نہیں تھا۔ہمعصر شاعروں کے بارے میں ان کی جو رائے تھی اس میں کسی خود پسندی کا نہیں بلکہ لفظ کی حرمت کی پاسداری کو دخل تھا۔ اپنی تحریر کے حوالہ سے وہ بہت سخت گیر تھے۔ایک بار وہ کسی فلم کے مکالمے لکھ رہے تھے جس کے ہیرو دلیپ کمار تھے۔ انھوں نے کسی مکالمے میں تبدیلی کرنے کے لئے اخترالایمان کا لکھا ہوا مکالمہ کاٹ کر اپنے قلم سے کچھ لکھنا چاہا۔اختر الایمان نے انہیں سختی سے روک دیاکہ وہ ان کی تحریر کو نہ کاٹیں اپنا اعتراض زبانی بتائیں اگر بدلنا ہو گا تو وہ خود اپنے قلم سے بدلیں گے۔اسی طرح کا اک اور قصہ ہے جب اخترا لایمان باقاعدگی سے صبح چہل قدمی کے لئے جایا کرتے تھے۔

ایک روز وہ چہل قدمی کر رہے تھے کہ سامنے سے جاوید اختر کہیں اپنی رات گزار کر واپس آ رہے تھے۔وہ اختر الایمان کو دیکھ کر بولے "اختر بھائی آپ کا یہ مصرع  اٹھاؤ ہاتھ کہ دست دعا بلند کریں  غلط ہے (یعنی جب ہاتھ اٹھانے کی بات کہہ دی گئی ہے تو دست دعا بلند کرنے کا کیا مطلب؟) اختر الایمان کا مختصر جواب تھا " تم اردو زبان کے محاورے سے واقف نہیں"جاوید گرم ہو گئے کہ میں جانثار اختر کا بیٹا اور مجاز کا بھانجہ اردو کے محاورے سے واقف نہیں !اس پر اخترالایمان نے کچھ ایسا کہا جو راوی کے بقول قابل تحریر نہیں۔خیر جاوید بات کو پی گئے اور ان سے کہا کہ گھر چلیے چائے پی کر جائیے گا۔لیکن اخترالایمان نے ترش روئی سے کہا"جاو ٔبھائی میری سیر کیوں خراب کرتے ہو"یہاں راقم الحروف کو وہ واقعہ یاد آتا ہے جو وارث کرمانی نے گھومتی ندی میں لکھا ہے کہ وہ جس زمانہ میں علی گڑھ یونیورسٹی میں فارسی کے پروفیسر تھے،غالب کے شعر؎

وصال و ہجر جداگانہ لذتے دارد

ہزار بار برو صد ہزار بار بیا

 پر اعتراض کرتے ہوئے اک طالبہ نے کہا تھا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی ہزار بار جا کر صد ہزار بار واپس آئے اور اس پر وارث کرمانی نے اس کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ادب کی بجائے ریاضی کے کورس میں داخلہ لے لے۔غالب کے لاجواب شعر کی جس طرح اس لڑکی نے مٹی پلید کی وہ تو قابل معافی تھی کہ وہ طالب علم اور ناپختہ ادبی شعور کی مالک تھی لیکن کرمانی صاحب شعر کی وضاحت نہ کر پانے اور لڑکی کو ریاضی کے کورس میں داخلہ لینے کا مشورہ دینے کے لئے ضرور اس قابل تھے کہ ان کی کلاس لی جائے۔

ممبئی میں اپنی 50 سالہ فلمی سرگرمی کے دوران میں اخترالایمان نے سو(100)سے زیادہ فلموں کے مکالمے لکھے جن میں نغمہ،رفتار،زندگی اور طوفان،مغل اعظم،قانون،وقت،ہمراز،داغ،آدمی،مجرم،میرا سایہ،آدمی اور انسان، چاندی سونا، دھرم پترا ورا پرادھ جیسی کامیاب فلمیں شامل تھیں وقت اور دھرم پتر کے لئے ان کو بہترین مکالمہ نویس کے فلم فیر ایوارڈ سے نوازا گیا۔

ان کی نظموں کے دس مجموعے شائع ہوئے جن میں گرداب سب رنگ،تاریک سیارہ،آب جو،یادیں، بنت لمحات،نیا آہنگ،سروساماں،زمین زمین اور زمستان سرد مہری کا شامل ہیں۔یادیں کی اشاعت پر ان کو ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ ملا، بنت لمحات پر یو پی اردو اکیڈمی اور میر اکیڈمی نے ان کو  انعام دیا نیا آہنگ کے لئے مہاراشٹر اردو اکیڈمی نے  ان کو ایوارڈ دیااور سروساماں کے لئے مدھیہ پردیش حکومت نے انھیں اقبال سمان سے نوازا۔اسی کتاب پر ان کو دہلی اردو اکیڈمی اور غالب انسٹی ٹیوٹ نے بھی انعامات دئے۔تین باران کوگیان پیٹھ ایوارڈ کے لئے نامزد کیا گیا۔

9 مارچ 1996 کو عارضہ قلب میں ان کا انتقال ہو گیا اور اسی کے ساتھ اردو نظم اپنے اک عظیم فرزند سے محروم ہو گئی۔ اخترالایمان نے اپنے محسوسات کے بیان میں شعری لسانیات کے تمام موجود لوازم کوآزمانے کی بجائے دوٹوک اور حقیقی زبان کا استعمال کر کےدکھا دیا کہ شعر گوئی کا اک انداز یہ بھی ہے ان کی شاعری قاری سے اپنی قرأتوں کی ہی نہیں اپنی سماعتوں کی بھی تربیت کا تقاضاکرتی ہے۔انہیں 1963ء میں فلم دھرم پوتر میں بہتری مکالمہ کے لیے فلم فیئر اعزاز سے نوازا گیا۔ یہی اعزاز انہیں 1966ء میں فلم وقت 

(فلم) کے لیے بھی ملا۔ 1962ء میں انہیں اردو میں اپنی خدمات کے لیے ساہتیہ اکیڈمی اعزاز ملا۔ یہ اعزاز ان کا مجموعہ یادیں کے لیے دیا گیا تھا۔

اختر الایمان اردو نظم کے نئے معیارات متعین کرنے والے منفرد شاعر ہیں جن کی نظمیں اردو ادب کے سرمایہ کا لاثانی حصہ ہیں۔انھوں نے اردو شاعری کی مقبول عام صنف،غزل سے کنارہ کرتے ہوئے صرف نظم کو اپنے شعری اظہار کا ذریعہ بنایا اور اک ایسی زبان میں گفتگو کی جو شروع میں،اردو شاعری سے دلچسپی رکھنے والےتغزل اور ترنم آشنا کانوں کے لئے کھردری اور غیر شاعرانہ تھی لیکن وقت کے ساتھ یہی زبان ان کے بعد آنے والوں کے لئے نئے موضوعات اور اظہار بیان  کی نئی جہات تلاش کرنے کا حوالہ بنی۔ان کی شاعری قاری کو نہ تو چونکاتی ہے اور نہ فوری طور پر اپنی گرفت میں لیتی ہے بلکہ آہستہ آہستہ،غیر محسوس طریقہ پر اپنا جادو جگاتی ہے اور دیرپا اثر چھوڑ جاتی ہے۔اخترلایمان کی شہرۂ آفاق نظم’’ایک لڑکا‘‘ان کے اکثرناقدوں کے لئے توجہ کامرکزبنی رہی ہے۔شایداس لئے کہ اس معصوم لڑکے کی صورت میں،جواس نظم کامرکزی کردار ہے،انہوں نے خوداخترالایمان کی زندگی کے نشیب وفرازدیکھے ہیں۔یہ نظم اظہار ذات کابہترین نمونہ ہے،اس کاموضوع بیک وقت ماضی کی سادگی بھی ہے، عہد طفولیت کی بازیابی بھی ہے اورحال کی ریاکاری بھی۔

’’ ایک لڑکا‘‘ اخترالایمان کی بہت ہی مشہور نظم ہے جو نسبتاََ طویل ہے۔ اس نظم کو بجا طور پر ان کا ایک اہم کارنامہ کہا جا سکتا ہے۔اس نظم میں ان کا ادبی فن بھر پور طریقے سے ابھر کر سامنا آیا ہے۔ اس نظم کا موضوع ضمیر ہے اور اس کو ایک علامت کے ذریعے پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اخترا لایمان نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ میری نظموں میں علامتوں کا استعمال بکسرت ہوتا ہے اور اگر میری نظم کو غور سے نہ پڑھا جائے تو اس کے معنی واضح نہیں ہونگے۔اس سلسلے میں ان کی نظم ’’قلو پطرہ‘‘ بہترین مثال ہے جس میں انھوں نے علامتوں کو ایک الگ طریقہ سے استعمال کیا ۔ان کی نظم ’’ ایک لڑکا ‘‘میں بچے کی معصومیت ،جوانی کی بغاوت اور مفکر کی پختہ کاری کا بڑا خوبصورت امتزاج نظر آتا ہے؎

ہوا میں تیرتا خوابوں میں بادل کی طرح اڑتا

پرندوں کی طرح شاخوں میںچھپ کر جھولتا مڑتا

اسے ہمراہ پاتا ہوں ،یہ سایے کی طرح میرا

تعاقب کر رہا ہے جیسے میں مفرورملزم ہوں

نظم کی ابتدا یادوں کی صدائے بازگشت سے ہوتی ہے۔تلخ حقالق اورواقعات سے متصادم ہوکرشاعرنے اپنے شخصی لاشعورکی آسودگی کے لئے عہدطفولیت کی بازیابی کی ہے۔وہ بچپن کے اس دورکی یادوں کوتازہ کرتاہے جب وہ آزاد،محفوظ اورفطرت کی آگوش میں بہت زیادہ مطمئن تھا۔اس نظم کے محرکات اورپس منظرکوسمجھنے کے لئے خوداخترالایمان کی رائے کونقل کرنابہترہوگا۔وہ نظم ’’ایک لڑکا‘‘کے متعلق یادیں کے دیباچے میں لکھتے ہیں؟

’’نظم ایک لڑکا،پہلی بارمیں نے ایک موضوع کے طورپرمحسوس نہیں کی تھی، تصویرکی شکل میں دیکھی تھی۔مجھے اپنے بچپن کاایک واقعہ ہمیشہ یادرہاہے اوریہ واقعہ ہی اس نظم کامحرک ہے۔ہم ایک گاؤں سے منتقل ہوکردوسرے گاؤں جارہے تھے۔اس وقت میری عمرتین چارسال کی ہوگی۔ہماراسامان ایک بیل گاڑی میں لادا جارہا تھا اور میں گاڑی کے پاس کھڑااس منظرکودیکھ رہاتھا۔میرے چہرے پرکرب اوربے بسی تھی ۔اس لئے کہ میں اس گاؤں کوچھوڑنانہیں چاہتاتھا۔کیوں؟یہ بات میں اس وقت نہیں سمجھتاتھا۔اب سمجھتاہوں۔وہاں بڑے بڑے باغ تھے ،باغوں میں کھلیان پڑتے تھے، کوئلیں کوکتی تھیں،پپیہے بولتے تھے۔وہاں جوہڑ تھے، جوہڑ میں نیلوفر کے پھول کھلتے تھے۔وہاں کھیتوں میں ہرنوں کی ڈاریں کلیلیں کرتی نظرآتی تھیں۔وہاں سب تھا،جوذہنی طورپرمجھے پسندہے۔مگروہ معصوم لڑکااس گاڑی کوروک نہیں سکا۔میں اس گاڑی میں بیٹھ کرآگے چلاگیا،مگروہ لڑکاوہیں کھڑارہ گیا‘‘۔

اخترالایمان کے بچپن کا ایک بڑاحصہ مشرقی یوپی کے دیہاتوں میں گزراتھا جہاں چاروں طرف لہلہاتے کھیت ،گھنے جنگل،پرندے تالاب اورجھیلیں تھیں۔یہ فطری ماحول ان کونہایت پسندتھا جہاں بے چین روح کوسکون اوراطمینان حاصل ہوتاتھااورجہاں فطرت ایک شفیق ماں کی طرح چارہ سازتھی۔لیکن عملی زندگی میں ہجرت کاپڑاؤشاعرکواس پرسکون آبائی وطن سے دورلے جاتاہے اوروہ معصوم لڑکاجسمانی سطح پرنقل مکانی کے باوجودذہنی نظم پر اپنے آپ کواس کواس گاؤں سے الگ نہ کرسکا۔نظم میں اخترالایمان نے نئے اوراجنبی ماحول میں عام شمولیت کے سبب سابقہ زندگی سے جڑی خوش گواریادوں کی تخلیقی سطح پرباریافت کی ہے اوراپنے آبائی وطن سے شدیدجذباتی اوروابستگی مظاہرہ کرکے یوں ناسٹلجیا کاظہار کیاہے:

دیار شرق کی آباد یوں کے اونچے ٹیلوں پر

کبھی آموں کے باغوں میں،کبھی کھیتوں کی مینڈوں پر

کبھی جھیلوں کے پانی میں ، کبھی بستی کی گلیوں میں

کبھی کچھ نیم عریاں کم سنوں کی رنگ رلیوں میں


سحر دم ، جھٹپٹے کے وقت ، راتوں کے اندھیرے میں

کبھی میلوں میں ، ناٹک ٹولیوں میں ، ان کے ڈیرے میں

تعاقب میں کبھی گم تتلیوں کے ، سوٗنی راہوں میں

کبھی ننھے پرندوں کی نہفتہ خواب گاہوں میں

بچپن میں اخترالایمان کوجس طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونا پڑا اور اپنی پسندیدہ فضااوراشیاء کو ترک کرناپڑا،اس سے لاشعوری طورپروہ بے حد متاثر ہوئے اورعمربھروہ واقعات انھیں یادآتے رہے۔

شاعر نے یہاں ایک لڑکے کے مظہرودوربینی سے اپنے ہی تشخیص کوبیان کیاہے۔اس نے آگے چل کریہ بھی قبول کیاہے کہ

’’میں نے اس لڑکے کی شخصیت کوروشن کرناچاہااورایک لڑکا،ضمیرانسانیت کاعلامیہ بن گیا۔۔۔۔۔۔۔ایک سال گزرگیا،دوسال،تین سال، چارسال ۔۔۔ پھرایک دن رات کے ایک بجے کے قریب میری آنکھ کھل گئی۔ذہن میں ایک مصرع گونج رہاتھا۔یہ لڑکاپوچھتاہے،’’اخترالایمان تم ہی ہو؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔’’اخترالایمان کی شخصیت دوحصوں میں تقسیم ہوگئی تھی۔ایک یہ لڑکا،جومعصوم تھا،دوسراوہ،جس نے دنیاکے ساتھ سمجھوتہ کرلیاتھا۔میں نے نظم کاپہلابندلکھا اورسوگیا۔

شاعر کی ادب شناس شریک حیات سلطانہ ایمان نے ’کلیات اخترالایمان‘کے ’پیش لفظ‘میں لکھاہے کہ ’’مشہورزمانہ مصورجناب مقبول فداحسین نے ازراہ کرم اپنے ہم عصراخترالایمان کے آخری مجموعے’زمستاں سردمہری کا‘کے گردپوش (سرورق، title)کے لئے ایک نہایت خوبصورت تصویر بنائی تھی۔اس تصویر کو ہم نے ’کلیات‘ کے گردپوش کے لئے بھی چناہے۔غورسے دیکھنے پرایسا لگتاہے کہ یہ تصویرنہ صرف اختر الایمان کی نظم’’ایک لڑکا‘‘کی عکاسی کرتی ہے،بلکہ ان کی نظموں کی طرح علامتی بھی ہے۔مثلاًتصویر میں سرخ رنگ خوٗن کے رنگ کی مناسبت سے ہمیں زندگی کی علامت دکھائی دیتاہے اورسیاہ ٹکڑاہمارے قلب کی سیاہی کی عکاسی کرتانظرآناہے،جس کی نفی ہماراضمیرکرتارہتاہے‘‘۔


SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment