MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

مقالہ اور انشائیہ میں فرق

      مقالہ اور انشائیہ میں فرق

میر اقبال

               مقالہ کے لغوی معنی بات اور گفتگو کے ہیں۔ اصطلاح میں کسی خاص موضوع پر علمی، تحقیقی، ادبی و اخلاقی انداز میں حقائق کے ساتھ درست تحریری اظہار کو مقالہ کہا جاتا ہے۔ مقالہ جات میں تحقیقی، تنقیدی، ادبی و اخلاقی نوعیت کی زبان استعمال ہوتی ہے۔

              انشائیہ کے لغوی معنی "عبارت" کے ہیں۔ انشائیہ نثری ادب کی وہ صنف ہے جو مضمون کی مانند لگتی ہے مگر مضمون سے الگ انداز رکھتی ہے۔ انشائیہ میں انشائیہ نگار آزادانہ طور پر اپنی تحریر پیش کرتاہے، جس میں اس کی شخصیت کا پہلو نظر آتا ہے۔ کسی خاص نتیجہ کے بغیر بات کو ختم کرتا ہے، یعنی نتیجہ کو قاری پر چھوڑ دیتا ہے۔

                    مقالے میں سنجیدہ اور عالمانہ بحث ہوتی ہے۔ یہ عام قارئین کے لئے نہیں بلکہ خاص لوگوں کے لیے لکھا جاتا ہے۔ مقالہ میں کسی بات کے ثبوت کے لیے باقاعدہ تحقیق کر کے درست حوالے دیے جاتے ہیں اور ان پر مدلل بحث کر کے نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے۔ عام طور پر مقالہ جات عام مضامین سے تھوڑے یا زیادہ طویل ہوتے ہیں اور مقالہ کو مضمون بھی کہہ سکتے ہیں۔

                   مقالہ کی امتیازی خصوصیت سنجیدگی ہے.عالمانہ ،استوار اور متوازن فکر خیز سنجیدگی۔ مقالہ نگار کسی موضوع پر سنجیدگی سے روشنی ڈالتا ہے۔ یہ روشنی براق ہوتی ہے۔ ایسی براق کہ نفس تحریر کا ہر گوشۂ منور ہو جاتا ہے۔ہم اس تحریر کو پڑھتے ہیں اور موضوع تحریر یعنی نفس مقالہ سے اچھی خاصی واقفیت حاصل کر لیتے ہیں۔

                  انشایہ نگار بھی کسی امر پر روشنی ڈالتا ہے۔لیکن یہ روشنی یک رنگ نہیں ہوتی۔یہ صاف و شفاف بھی نہیں ہوتی۔یہ صبح کا اجالا ہو تی ہے۔کچھ صاف اور کچھ ملتی۔ یہ روشنی ہماری توجہ کو ایک ہی سمت نہیں لے جاتی بلکہ اسے اٹھکھیلیاں کراتی ہے۔ 

               مقالہ پڑھنے کے بعد ہم کچھ سیکھتے ہیں یا پاتے ہیں۔اسی بات یا خیال جس سے ہماری عالمیت میں گوناگوں اضافہ ہو تا ہے اور جس سے ہمیں علم کی تابانی وطمانیت میسر ہو تی ہے۔

                انشایہ ہمیں غیر سنجیدہ بناتا ہے ۔اس غیر سنجیدگی سے ہم پاتے ہیں ، اپنے روز و شب میں کھلی آنکھوں سےروپوش ایک لطیف فکر و فہم کا وجود، جو ٹھوس اور جامد حقائق اور نظر سے چھپار ہتا ہے ، جسے روشن چراغ کے نیچے اندھیرا۔ مقالہ ، سنجید گی بخشتا ہے ۔اس سے جینے اور سنور نے کی امنگ ملتی ہے ۔انشامیہ غیر سنجیدہ بناتا ہے ۔اس سے کچھ دیر کے لئے جھکپی آتی ہے۔ جو جاگنے میں سونچ کا لطف ہے ۔ مقالوں کی سنجید گی اور بے کیف سنجیدگی سے تکان کا احساس ہوتا ہے۔ جسے ایک پہلو بیٹے یا ایک کروٹ لیٹے اعصابی تنائو _ اس ذہنی انجماد کو انشایہ کا تر نگ ہی دور کر سکتا ہے ____ 

          مقالہ میں معلومات کا دخل رہتا ہے اور انشایہ میں تاثرات کا مقالوں کا کام فکر خیزی ہے ۔اور انشایہ کا کیف انگریزی۔مزے یہ دل کے لئے ہیں ، نہیں زباں کے لئے مقالہ نگار اصلا معلم ادب ہوتا ہے ۔اس کا کام درس وتدریس ہے ۔ وہ سنجیدہ بات کہتا ہے ، دانش ورانہ اور مدبرانہ انداز سے کہتا ہے ۔ اس میں متانت کے ساتھ دیانت بھی ہوتی ہے۔اس کا شیوہ لفاظی نہیں ۔ وہ جو جانتا ہے کہتا ہے اور جتنا جانتا ہے ۔ بتاتا ہے ۔ایک نہایت دلچسپ خوش  بیان عموماً غیر سنجیدہ موضوع/ مسائل پر قلم اٹھایا ہے۔ اور غیر سنجیدہ لب و لہجے سے کہتا ہے۔ وہ جتنا جانتا ہے ، اس سے زیادہ سناتا ہے۔ لیکن اس کی بات بکواس نہیں بلکہ با اثر و با کار ہوتی ہے۔اس خوش گفتگوری سے ہماری طار فکر کو پر گتے ہیں۔ 

          مقالہ اور انشا یہ نثری ادب کے دو توانا اصناف ہیں۔اور اس پاس کے اصناف مگر مقالوں کی روحانی تربیت ادب سنجیدہ انجام دیتا ہے۔اور جسمانی پر واخت ادب لطیف   کے سپرد ہوتی ہے ۔ وہ ادب لطیف کی خاک سے پیدا ہوتا ہے اور اس کی خاک اڑاتا ہے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment