انشائیہ کی تعریف اور آغاز وارتقاء
تعریف :
انشائیہ وہ تحریر ہے جس میں کسی اہم یا غیر اہم واقعے ،کسی خیال کسی جذ بے یامحض کسی لحاقی کیفیت کو پر لطف انداز میں پیش کر دیا گیا ہو۔ ترتیب تنظیم پنجیدگی ،غور وفکر کی اس صنف کے لئے کوئی ضروری نہیں یا یوں کہینا درست ہوگا کہ ترتیب تنظیم پنجیدگی ،غور وفکر انشائیہ کے لئے عیب ہے ۔ ہلکا پھلکا خیال اور شگفتہ وظرافت آمیز خیال ہی اسے زیب دیتا ہے۔ مختلف ناقدین نے انشائیہ کی تعریف یوں کی ہے۔
نورالحسن نقوی ۔انشائیہ کی بنیادی شرط یہ ہے کہ اس کی کوئی شرط نہیں ، کوئی اصول نہیں ۔ جو کچھ کہو اس طرح کہو کہ پڑھ کر جی خوش ہو جائے اور پڑھنے والے کے ذہن میں گدگدی سی ہونے لگے۔
وزیر آغا۔انشائیہ کا خالق اس شخص کی طرح ہے جو دفتر کی چھٹی کے بعد اپنے گھر پہنچتا ہے ۔ چست و تنگ کپڑے اتار کر ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن لیتا ہے اور ایک آرام دہ مونڈھے پر نیم دراز ہوکر حقے کی نے ہاتھ میں لئے انتہائی بشاشت اور مسرت سے اپنے احباب سے محو گفتگو ہو جا تا ہے۔
آغاز وارتقاء :
اردو میں صنف انشائیہ کا آغاز کب ہوا اور پہلا انشائیہ نگارکون ہے؟ یہ فیصلہ کرنا بہت مشکل ہے۔ اس بارے میں بھی اختلاف رائے ہے کہ اس صنف نے یہیں آنکھ کھولی یا اسے مغرب سے درآمد کیا گیا۔ جو علماءادب اسے ملکی پیداوار بتاتے ہیں وہ بھی متفق ہوکر یہ نشاندہی نہیں کر پاتے کہ انشائیہ کی خصوصیت پہلے پہل کس نثر نگار کے یہاں نظر آتی ہے ۔ اصلیت یہ ہے کہ انشائیہ عالمی ادب میں بھی ایک نومولد صنف ہے اور ابھی تک اس کی خصوصیات قطعیت کے ساتھ متعین نہیں ہوسکی ہیں۔اس لئے کسی فن پارے میں انشائیہ کی ایک خصوصیت ملتی ہے تو کسی میں دوسری خصوصیت ۔اسی لئے صحیح فیصلہ دشوار ہو جا تا ہے ۔ تلاش کیجئے تو ’’سب رس‘‘کے بعض ٹکڑوں میں ایسی خصوصیات نظر آجاتی ہیں جن کا انشائیہ میں پایا جانا ضروری ہے مگر سب رس‘‘ کو کسی طرح انشائیہ نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ مولانامحمد حسین آزاد کے عہد کو انشائیہ کی صبح کاذب اور رشید احمد صدیقی کے دور کو انشائیہ کی صبح صادق کہا گیا ہے اور یہ خیال بالکل درست ہے۔
آزاد کے بارے میں شبلی نے کہا تھا کہ وہ گپ بھی ہا تک دے تو وہی معلوم ہوتی ہے ۔‘‘ آب حیات ، در با راکبری اور نیرنگ خیال آزاد کی وہ تصانیف ہیں کہ جن کے مختلف حصوں پر بھی افسانے کا دھوکا ہوتا ہے، کبھی خاکے کا گمان ہوتا ہے تو کبھی انشائیہ کاعکس نظر آتا ہے۔ "نیرنگ خیال‘‘ کے شہ پاروں کوتو انشائیوں کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
شرر کا انداز بیان اتنا دلکش ہے کہ جگہ جگہ انشائیہ کا دھوکہ ہوتا ہے ۔ان کے مضامین میں ہلکے پھلکے مضامین بھی ملتے میں جوانشانہ کی کسوٹی پر پورے اترتے ہیں ۔ خواجہ حسن نظامی کا شمار اردو کے صاحب طرز انشا پردازوں میں ہے ۔ ۱۸۵۷ء کی بربادی کے بعد بیگمات قلعہ کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا اس کے حالات نظامی نے’ بیگمات کے آنسو میں لکھے ہیں ۔ان میں زیادہ تر سچے واقعات ہیں تو کچھ افسانے بھی ۔زبان بہت دلکش اورا نداز بیان بہت پر تاثیر ہے ۔انھیں انشائیہ کہنا بجا ہوگا ۔’’گل بانو اس کی اچھی مثال ہے ۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں ظرافت، خاکہ نگاری، انشائیہ نگاری، لطف بیان سب گھل مل جاتے ہیں ۔انشائیہ میں ان سب کا گھل مل جانا ضروری بھی ہے ۔’’مولوی نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی‘‘ ’’ ولی کا آخری یادگار مشاعرہ‘‘ ’’ ایک دمیت کیتعمیل‘‘ایسے خاکے ہیں جن میں انشائیہ کی جھلکیاں نظر آتی ہیں لیکن مضامین فرحت کی ورق گردانی کیجئے تو خالص انشائیہ نگاری کے کئی کامیاب نمونے مل جاتے ہیں ۔
رشید احمد صد یقی کی تحریروں میں انشائیہ نگاری کافن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔ مجیدہ اور فلسفیانہ مضامین کو ہلکے پھلکے انداز میں اس طرح پیش کر دیتے ہیں کہ ان کی بیشتر تحریر میں انشائیہ نگاری کے ذیل میں آ جاتی ہیں ۔’’ار ہر کا کھیت‘‘ اور ’وکیل صاحب‘‘ ان کے بے حد مقبول انشایئے ہیں۔ مغالطہ، گھاگ اور چار پائی بھی ایسے انشایئے ہیں جن کی دلکشی کبھی ختم نہ ہوگی ۔
پطرس بخاری کے مضامین، مضامین کم اور انشایئے زیادہ ہیں ۔پطرس اردو طنز و مزاح میں ایک نئے اسلوب کے خالق ہیں۔ ان کا اسلوب شوخی، شائستگی اور ظرافت کا حسین مرقع ہے۔ ان کے مزاحیہ مضامین میں انسانی نفسیات کی گرہیں کھلتی نظر آتی ہیں۔ ان کے کردار اپنی حرکت و عمل سے ہمیں مسکرانے اور بعض اوقات قہقہے لگانے پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ لاہور کا جغرافیہ ان کا عمدہ انشائیہ ہے۔
مجتبیٰ حسین کے انشائیوں میں مزاح کا اسلوب غالب ہے۔ان کے یہاں طنز کا پہلو کم دیکھنے کو ملتا ہے۔ان کا موضوع نوع انسان ہے۔وہ اسے انسان کی حیثیت سے دیکھتے اور پیش کرتے ہیں۔واقعہ نگاری اور مرقع کشی میں ان کا کمال فن عروج پر نظر آتا ہے۔ان کا مشاہدہ کافی عمیق ہے ۔اسی وصف کے سہارے وہ مختلف واقعات کے مضحک پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔ہماری روز مرہ کی زندگی میں پیش آنے والے معمولی سے معمولی واقعات پر بھی انکی توجہ رہتی ہے۔سماج کے مختلف طبقات اور شعبہء حیات سے متعلق افراد کے طرز زندگی،ان کے مسائل اور ان کے مخصوص رویوں،عادتوں اور خصائل کا انھوں نے گہری نظر سے مطالعہ کیا ہے۔بات سے بات پیدا کرنے کا فن انھیں بخوبی آتا ہے۔برف کی الماری ان کا مشہور انشائیہ ہے۔
علاوہ ازیں انجم کانپوری ، حاجی لق لق ،شوکت تھانوی ،کنھیا لال کپور وغیرہ بھی اچھے انشائیہ نگار ہیں ۔اختر اور بیوی اور شاہ اکبر قاصد کوسیدمحمد حسنین نے عہد حاضرمیں انشائیہ نگاری کا موجد قرار دیا ہے ۔یوسف امام، احمد جمال پاشا، مجتبی حسین ہمارے عہد کے مشہور انشائیہ نگار ہیں ۔مشتاق یوسفی ، کرنل محمد خاں اور ابن انشاء کی تحریروں میں بلند پایہ انشائیہ کی کمی نہیں ۔اب اس صنف کی طرف خصوصیت کے ساتھ توجہ کی جارہی ہے ۔ امید کی جاتی ہے ر مستقل قریب میں اسے بہت فروغ حاصل ہوگا۔
0 comments:
Post a Comment