MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری

        نظیر اکبر آبادی کی نظم نگاری

                نظیر اکبر آبادی کی شاعری اپنی علاحدہ دنیا رکھتی تھی۔ انہوں نے میر وسودا کی بہارسخن بھی دیکھی اور دبستان لکھنؤ کی جوانی کا نکھار بھی لیکن ان کی آزاد منشی اور منفرد رنگ طبیعت نے انہیں کسی دبستان کا پابند نہیں ہونے دیا۔ نظیر کو آٹھ زبانوں پر عبور تھا۔ عربی فارسی اردو پنجابی بھاشا مارواڑی پوربی اور ہندی۔.. مشہور نظموں میں مفلسی، آدمی نامہ، روٹیاں، بنجارا نامہ، برسات کی بہاریں وغیرہ شامل ہیں۔

                   نظیر اکبر آبادی اردو نظم کے معمار اول تسلیم کئے جاتے ہیں ۔انھوں نے مختلف  موضوعات پر نظمیں لکھ کر شعر و ادب کو عوام سے قریب لانے میں ایک اہم رول ادا کیا۔ یہی  وجہ ہے کہ آج نظیر  کی انفرادیت  کوارد کا ہر نقاد مانے کے لئے تیار ہے۔ نظیر اکبرآبادی خود اپنی ذات میں ایک دبستان تھے۔ اس لئے عہد جدید کے نقادوں نے انھیں  پہلا عوامی شاعر ماتا ہے ۔ انھیں اپنے وطن سے بے پناہ محبت تھی ۔وہ آ گرہ کے رہنے والے تھے اور ہر جگہ  آگرہ کو ہی اپنا وطن بتاتے ہیں ؎

عاشق کہواسیر کہوا گرے کا ہے        ملا کہو د بیر کوآ گرے کا ہے

مفلس کہوفقیر کہوہ گرے کا ہے        شاعر کہونظیر کہوآ گرے کا ہے

           انھیں اپنے وطن سے نہ صرف محبت تھی بلکہ فخر تھا ان کے یہاں ہندوستانی جانوروں ،  پرندوں موسموں پر بڑے والہانہ انداز میں نظمیں کہی گئی ہیں جس سے ان کی حب الوطنی کا اندازہ ہوتا ہے ۔ انھوں نے ہولی ،دیوالی ، عید ،شب برات وغیرہ کونظموں کا موضوع بنایا ہے ۔

            ان کی شاعری کا دائر ہ اتنا وسیع  ہے کہ اس میں آپ سے آپ  پند و نصیحت اور اخلاق کی تعلیم کے بے شمار مواقع نکل آتے ہیں۔ خدا کی پہچان ،اہل دنیا ، آ دی نامہ، بنجارو نامہ، کلجک ، دنیا دھوکے کی ٹٹی ہے ، روٹیاں وغیر ایسی تنظمیں ہیں جن سے اعلی اخلاقی تعلیم  حاصل ہوتی ہے۔بنجارا نامہ کا  بند ملاحظہ ہو ؎

    ٹک حرص و ہوا کو چھوڑ میاں مت دیس بدیس پھرے مارا 

قزاق اجل کا لوٹے ہے دن رات بجا کر نقارا 

کیا بدھیا بھینسا بیل شتر کیا گونیں پلا سر بھارا 

کیا گیہوں چانول موٹھ مٹر کیا آگ دھواں اور انگارا 

                                                    سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

                        نظم آ دی نامہ نظیر اکبرآبادی کی نمائند ہ نظموں میں سے ایک ہے ۔ اس نظم میں   انھوں نے انسانی زندگی کے مختلف پہلوؤں کو بہت خوبصورتی اور دیدہ دلیری کے ساتھ پیش   کیا ہے ۔ وہ اس نظم میں انسان کی مختلف خصلتوں کا بیان کرتے ہیں ۔

مسجد بھی آدمی نے بنائی ہے یاں میاں      بنتے ہیں آ دی ہی امام اور خطبہ خواں

پڑھتے ہیں آ دی ہی قرآن اور نمازیاں          اور آدمی ہی ان کی چراتے ہیں جوتیاں

                                              جوان کو تاڑ تا ہے سو ہے وہ بھی آدمی

                    نظیر اکبرآبادی بہت کھلے دل کے انسان تھے ۔ ہر مذہب اور ملت کے لوگ انھیں  عزیز تھے۔ مسلمان صوفیوں کے علاوہ ہندوستوں سے بھی عقیدت تھی ۔ ہندوستان کے کسی  زبان کا کوئی شاعر ایسا نہیں جس کی شاعری سے یکتا بھائی چارو اورقومی یکجہتی کی ایسی تعلیم ملتی  ہو جیسی نظیر کی شاعری سے ملتی ہے ۔ اس کے علاوہ انھوں نے بہت سی ایسی نظمیں بھی کہیں جو صرف اپنے ملک کے لئے نہیں بلکہ دنیا بھر کے انسانوں کے خوشیوں اور دکھ درد سے متعلق  ہیں  جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ تمام عالم انسانیت کے شاعر ہیں ۔ 

                   انھوں نے بعض  چھوٹے چھوٹے موضوعات پر بھی نظمیں کہیں ۔ اتنے چھوٹے موضوعات پرنظمیں لکھنا ایک   مہارت ہے ۔ یہ و ہی شخص کر سکتا ہے جس کا دل ہمدردی سے لبریز ہو ، مشاہدہ گہرا ہواور عام  زندگی کا احساس قوی ہو ۔ معاشی پریشانیاں اور مسائل پر بھی ان کے یہاں اظہار خیال ملتا ہے جیسے آ دمی نامہ بنجارہ نامہ مفلسی ، چپاتیاں وغیرہ۔

               عام طور سے وہ سیدھی باتیں سید ھے سادے انداز میں کہتے ہیں لیکن اکثر وہ علامتی انداز بھی اختیار کرتے ہیں ۔ ہنس نامہ اور بنجارہ نامیدان کی علامتی نظمیں ہیں ۔بنجارا نامہ کا  بند ملاحظہ ہو ؎

                 جب چلتے چلتے رستے میں یہ گوں تری ڈھل جاوے گی

                اک بدھیا تیری مٹی پر پھر گھاس نہ چرنے آوے گی

                  یہ کھیپ جو تو نے لادی ہے سب حصوں میں بٹ جاوے گی

                دھی پوت ، جنوائی ، بیٹا کیا، بنجارن پاس نہ آوے گی

                                                           سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

                       نظیر اپنی نظوں میں بول چال کی زبان استعمال کر تے ہیں۔ان میں کہیں کہیں کھڑی بولی اور برج بھی گھل مل جاتی ہے ۔ عربی ، فاری ، اودھی ، پنجابی سے بھی نظیر کو اچھی واقفیت تھی اور ان زبانوں کے الفاظ کو بھی وہ با آسانی استعمال کرتے ہیں ۔الفاظ کے انتخاب  اور استعمال پر نظیر کو غیر معمولی قدرت حاصل ہے ۔

زور مزے سے رات کو ہر سے تھامینہ جھمک جھمک               بوند یں پڑیں ٹیک ٹیک پانی پڑا جھپک جھپک

جام رہے چھلک چھلک ، شیشے رہے بھیک بھیک           ہم بھی نشوں میں خوب چھک دٹتے تھے بہک بہک

                       شاعری میں موسیقی کے بعد دوسری چیز ہے مصوری اس کو  پیکر تراشی کہا جا تا ہے۔ نظیر جس چیز یا جس حالت کا بیان کر تے ہیں اس کی ہو بہو تصویر کھینچ دیتے ہیں ۔ان کی ہر نظم  ایک مکمل مرقع ہے اور ان کا کلیات ایک ضخیم البم ہے ۔ ہولی کا ذکر کرتے ہیں تو ہمیں اپنے گر د رنگ برستا اور بکھرتا نظر آنے لگتا ہے۔ پیرائی کے میلے کا نقشہ  کھبیچتے ہیں تو چشم تصور میں دریا کی تصویر ابھر آتی ہے اور ڈبکیاں لگاتے ہوۓ پیراک نظر آنے لگتے ہیں ۔ نظیر بہت سوچ سمجھ کر تشبیہ واستعار کا انتخاب کرتے ہیں۔ تنگ دستی اور غریبی کی تصویرکشی اپنی نظم مفلسی  میں اس طرح کرتے ہیں؎

دروازے پہ زنانے بجاتے ہیں تالیاں      اور گھر میں بیٹھی ڈونٹی دیتی ہے گالیاں

مالن گلے کا ہار ہو دوڑی لے ڈالیاں           سقا کھڑا سناتا ہے باتیں رذالیاں

                            یہ خواری پہ خرابی دکھاتی ہے مفلسی

    نظیر نے عوامی زندگی کے ہر پہلو کوا پنی شاعری میں موضوع  بنایا اور عوام کے ہر دل عزیز شاعر کہلاۓ ۔ نیاز فتح پوری لکھتے ہیں ؎

                 ’’نظیر اپنی خصوصیات کے لحاظ سے   ہندوستان کا عجیب و غریب شاعر تھا جس میں کبیر کے اخلاق اور خسرو کی ذہانت کا نہایت  پیش امتزاج پایا جاتا تھا لیکن افسوس ہے کہ وہ بہت قبل از وقت  پیدا ہوا ۔ وہ اس زمانے کا شاعر تھا اور اس زمانے میں اسے ہونا چاہئے تھا۔‘‘

                المختصر  نظیر اکبر آبادی کو بجا طور پر اردو کاپہلا عوامی شاعر تسلیم کیا جاسکتا ہے وہ زندگی کے ہر پہلو پر گہری دلچسپی سے غور کرتے، شدت سے محسوس کرتے اور پھر اسے شاعری کا جامہ پہنا دیتے۔ وہ عوام کے شاعر تھے اور انھیں کے مسائل کو اپنی شاعری کا موضوع بناتے۔۔نظیر عوام کے شاعر تھے نیز وہ خالص ہندوستانی شاعر تھے۔ وہ ہندو مسلمان سب کے غم و ماتم میں شریک ہوتے۔ عید، شب برات، ہولی، دیوالی، دسہرہ غرض ہر تہوار پر نظمیں لکھتے تھے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment