MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

عبدالرزاق خاں ملیح آبادی کی صحافت نگاری

         عبدالرزاق خاں ملیح آبادی کی صحافت نگاری

         اردو صحافت کا بغور مطالعہ کیا جاۓ تو اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ابتدا سے ہی اس کی روش باغیانہ رہی ، گر چه رفتار دھیمی تھی ۔۱۸۵۷ء کی ناکام جنگ آزادی کے بعد انگریزوں کے پر تشدد رویے کے زیر اثر اردو صحافت نے حکومت کے خلاف کھلے بندوں اپنے غم و غصے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ بالآخر ایک وقت ایسا آیا جب ہندوستان کا ہر فرد ملک کی آزادی کے لیے سر بکف پھرنے لگا۔ علاوہ ازیں اس نے ہندوستانیوں کے دلوں میں حصول آزادی و انگریز دشمنی کے جذبے کو جس سرعت سے ہوا دی اور اس میں شائع ہونے والے مضامین و اداریوں نے انگریزوں کو جس درجہ لرزہ براندام کیا اس کا اندازہ مولا نا ظفر علی خاں کے اس شعر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے :

بندوق نکالو نہ تم تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

                  انیسویں صدی تک بعض اردو اخبارات مثلاً زمیندار ، الہلال، البلاغ ، مد بینہ ہمدرد، پیغام ،الجمیعتہ ، پیچ وغیرہ عوام کے نزدیک اتنے مقبول ہو چکے تھے جیسے انگلستان میں اسپکٹیٹر اور ٹیٹلر وغیرہ نے شہرت حاصل کی تھی ۔ ان اخبارات میں سے بعض کی اشاعت  پپیں سے تمیں ہزار تک تھی اور بعض تو دن میں دو دفعہ شائع ہوا کرتے تھے۔

                  بیسویں صدی عیسوی کی ہندوستانی صحافت میں جن شخصیات نے کارہاے نمایاں انجام دیے ان میں ایک اہم نام مولا نا عبدالرزاق خاں ملیح آبادی کا بھی ہے ۔ان کی شخصیت کئی اعتبار سے اہمیت کی حامل ہے۔ وہ  بیک وقت ایک بے باک اور نڈ رصحافی ، اعلی پایہ کے انشاءپرداز ، مایہ ناز مترجم ، جانباز مجاہد ، سیاسی میدان کے کامیاب سپہ سالار کے ساتھ جید عالم بھی عبدالرزاق ملیح آبادی کے خاندان میں کسی حد تک جدت پسندی کا عنصر تو موجود تھالیکن قدیم اقدار انھیں کہیں زیادہ عزیز تھیں ۔ وہ لوگ انگریزی تعلیم ، انگریزی معاشرت ، حتی کہ  انگریزی دواؤں تک کے مخالف تھے ۔مولاناعبدالرزاق نے اپنے خاندان کی ان روایات میں سے ایک کو قبول کیا اور دوسری کو رد ۔ جسے قبول کیا وہ انگریز دشمنی اور جس کو ردکیا وہ قدامت  پرستی واندھی تقلید تھی ۔

               عبد الرزاق ملیح آبادی نے ذکرِ آزاد اور آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی جیسی کتابیں لکھیں جو آپ کی وفات کے بعد دفتار آزاد ہند  نے شائع کیں۔ انہوں نے خلافت تحریک میں حصہ لیا جہاں وہ استنبول سے شائع ہونے والے عربی اور اردو میں ایک جریدے جہان اسلام کے اسٹاف ممبر تھے۔ وہ کلکتہ سے شائع ہونے والے اردو روزنامہ آزاد ہند کے بانی ایڈیٹر تھے اور کولکاتا میں قیام کے دوران آزاد کے بہت قریب تھے جہاں وہ اپنی جوانی کے دوران اور تحریک آزادی کے دور میں رہے۔ 

            عبد الرزاق ملیح آبادی، احمد سعید ملیح آبادی کے والد ہیں جو 03 اپریل 2008ء سے 02 اپریل 2014ء تک راجیہ سبھا کے(آزاد امیدوار) رکن پارلیمنٹ تھے۔ عبد الرزاق ملیح آبادی کی وفات کے بعد اردو روزنامہ آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی تھے اس وقت یہ اخبار سردھا گروپ کی ملکیت ہے۔   

              لہذا جب انھوں نے باغیانہ روش کے ساتھ صحافت سے اپنا تعلق قائم کیا تو وہ ایک روشن ضمیر اور بے باک صحافی بن کر صحافت کے افق پر نمودار ہوۓ ۔ابتدائی تعلیم مولا نا عبدالرزاق نے ورنا کیولر مدرسے میں حاصل کی ۔ پھر لکھنؤ کے چرچ مشن اسکول میں داخلہ لیا۔ بعداز میں ندوہ اور بالآخر علم کی تکمیل کے لیے سید رشید رضا مصری کی درس گاہ ’’دارالدعوۃ الارشاد‘ تک کا سفر کیا۔ تعلیم کے دوران ہی وہ ملک کی آزادی کے لیے سرگرم عمل رہے ۔ جس کی وجہ سے انگریزی حکومت کا عتاب ہمیشہ ان پر بلاۓ نا گہانی کی طرح نازل ہوتا رہا۔ لیکن اس مرد مجاہد نے ابتدا میں جس راہ کا انتخاب کیا تھا اس سے کنارہ کش ہونا گوارا نہ کیا ۔

             مصر کی درس گاہ سے فارغ ہوکر وطن لوٹنے کے بعد مولا نا عبدالرزاق کی شخصیت کومولا نا ابوالکلام آزاد کی رفاقت نے وہ توانائی اور تابنا کی بخشی جس نے اردو صحافت کو بام عروج تک پہنچانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔عبدالرزاق ملیح آبادی ، مولانا ابوالکلام آزاد کے زیر نگرانی کئی اخبارات و رسائل مثلا   پیغام ، الجامعہ، پیام، الہلال ( دور ثالث )، اور ثقافت الہند وغیرہ میں  مدیر و نائب مدیر کی حیثیت سے وابستہ رہے ۔ 

               اس کے بعد انھوں نے اپنا ذاتی اخبار’ہند‘‘  جاری کیا۔ جو حکومت کے عتاب کی وجہ سے ہفتہ وار ہند ، الہند ، ہند جد ید ،روزانہ ہند جیسے مختلف ناموں کی تبدیلی کے ساتھ شائع ہوتا رہا۔ مگر کچھ مسائل کے  پیش نظر انھوں نے اخبار’’ہند‘‘ کواپنے ساتھیوں کے سپردکر کے اس سے کنارہ کشی اختیار کر لی ۔ اسی دوران کلکتہ ہی سے ایک ہفتہ وار اخبار’’اجالا‘‘ کا اجرا کیا۔ ہندوستان کی آزادی کے ساتھ انھوں نے ۱۹۴۸ء میں’’ آزاد ہند‘‘ کے نام سے ایک روز نامہ بھی جاری کیا۔ابھی اس کی اشاعت کو کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ مولا نا ابوالکلام آزاد کے بلانے پر وہ دہلی کے لیے روانہ ہو گئے ۔

                    مولا نا عبدالرزاق کے دہلی چلے جانے کے بعد ان دونوں اخباروں (اجالا ، آزاد ہند ) کی ساری ذمہ داری ان کے بیٹے احمد سعید ملیح آبادی کے سر آ گئی ۔     عبد الرزاق ملیح آبادی، احمد سعید ملیح آبادی کے والد ہیں جو 03 اپریل 2008ء سے 02 اپریل 2014ء تک راجیہ سبھا کے(آزاد امیدوار) رکن پارلیمنٹ تھے۔ عبد الرزاق ملیح آبادی کی وفات کے بعد اردو روزنامہ آزاد ہند کے ایڈیٹر احمد سعید ملیح آبادی تھے۔احمد سعید ملیح آبادی کو بھی سیاسی سرگرمیوں نے صحافتی خدمات سے آہستہ آہستہ دور کر دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ’’ آزاد ہند‘‘ کی اشاعت روز بروز گھٹنے لگی۔ وہ’’ آزاد ہند‘‘ جس کی آبیاری عبدالرزاق ملیح آبادی نے انتھک کوشش و کاوش کے بعد کی تھی اور جسے احمد سعید نے بام عروج تک پہنچایا، ملک وقوم کی بے لاگ خدمت انجام دیتے ہوۓ ٫۱۵ اگست ۲۰۱۰ ، کوبعض مجبوریوں کے تحت بند کر دیا گیا ۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment