اردو میں مقالہ نگاری کا آغاز و ارتقاء
میر اقبال
مغرب کے اثر سے اردو ادب کے چمن میں کئی خوشنما پھول کھلے ہیں اور بہارا دب کی جنوں خیزی میں خوشگوار اضافہ ہوا۔اردو میں ناول اور افسانہ کی طرح مقالہ کافن بھی مغرب کی دین ہے ۔ مقالہ نگاری کی روایت کی بنیاد انیسویں صدی میں پڑی ۔
سرسید تحر یک یا علی گڑھ تحر یک کواردو کی پہلی باقاعدہ اور منظم تحر یک ہونے کا شرف حاصل ہے ۔یہ تحیر یک بنیادی طور پر ایک اصلاحی تحریک تھی اور سرسید کا مقصد مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی مایوسی اور احساس بے بسی کو دور کرنا تھا۔ وہ مصلح قوم تھے اوران کے سامنے مسلمانوں کی تعلیمی سرفرازی کامشن تھا۔ وہ سارے مسلمانوں کے اندر جدید سائنس علوم کی اشاعت کے لیے کوشاں رہے ۔اسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے انہوں نے سائنٹفک سوسائٹی اور پھر اینگلو اورینٹل محمڈن کالج قائم کی جو آج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے مشہور ہے لیکن سرسید زبان وادب کی اہمیت سے بخوبی واقف تھے۔ اس لیے مسلمانوں کے اندر پھیلی ہوئی برائیوں کو دور کرنے کے لیے قلم کا سہارالیا۔اس کے علاوہ انہوں نے شدت سے اس بات کو محسوس کیا کہ اردوکواگر علمی زبان کی حیثیت سے آگے بڑھانا اور زندہ رکھنا ہے تو اس کا دائرہ وسیع ہونا چاہیے اور اسے زمانے کے جدید تقاضوں کا ساتھ دینا چاہئے ۔انہوں نے طبعی علوم کی طرف بھی توجہ کی اور سائنس ، تاریخ ، فلسفہ ،تنقید ، ساجیات اور دیگر جدید علوم پر کتابیں لکھوائیں ۔ تاریخ اور مذہب پر انہوں نے خود بھی کتابیں لکھی ۔
سر سید نے " تہذیب الاخلاق" کے نام سے ایک اصلاحی رسالہ جاری کیا اس میں مسلمانوں کی ساجی اصلاح کے لیے مقالے شائع ہوتے تھے ۔اس طرح ادب میں انہوں نے ایک نیا پن ہمہ گیری ،مقصد سنجیدگی اور معقولیت پیدا کر دی ۔انہوں نے اردوزبان کو علمی اور نجید ہ خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ اس طرح انہوں نے مقالہ نگاری کی تاریخ میں ایک نئی صبح کا آغاز کیا۔علام شبلی نعمانی نے غضب کی بات کہی ہے :
"سرسید ہی کی بدولت اردو اس قائمہ ہوئی کہ عشق و عاشقی کے دائرہ سے نکل کر ملکی ، سیاسی ، اخلاق ، تاریخی ہرتم کے مضامین اس زور اور اثر ، وسعت اور جامعیت ، سادگی اور صفائی سے ادا کرسکتی ہے ۔ کہ خود اس کے استادیعنی فارسی زبان کو آج تک یہ بات نصیب نہیں ۔"
" تہذیب الاخلاق" کے دیگر قلمکاروں میں حالی، شبلی ، چراغ علی ، ذکا اللہ ، نذیر احمد ،نواب محسن الملک وغیرہ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں ہے ۔ شبلی نے اسلامی تاریخ اور اسلامی علوم پر جو کتابیں اور مضامین تصنیف کیے وہ اردو میں بالکل نئے تھے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق تھے۔ان کا اسلوب علمیت اور اد بیت کی ایک نشیں سے عبارت ہے ۔عربی و فارسی ادب سیشغف رکھنے کی وجہ سے ان کے یہاں زور بیان اور فصاحت و بلاغت ہے۔ ان کے مضامین " مقالات شبلی " کے نام سے چھپ چکے ہیں۔
سرسید کے رفیقوں میں سے سب سے زیادہ ہمدردی حالی رکھتے تھے ۔مدوجزراسلام اس کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔ حالی چونکہ نیچرل شاعری کے مبلغ تھے اس لیے ان کی نثر بھی غلو سے پاک ہے ۔ان کی نثر سادہ ضرور ہے لیکن روانی اور سلاست میں کہیں کمی نہیں آئی ہے ۔ حالی کے مقالات "تریاق مسموم" کے نام سے شائع ہو چکے ہیں ۔
سرسید کے معاونین میں محسن الملک کا نام بھی بہت اہمیت کے حامل ہے ۔ وہ سرسید ہی کی طرح آزاد خیال تھے۔ ان کے مقالے ان کی وسیع علمیت ،عقلی استدلال اور سلجھے ہوئے ذہن کا روشن آئینہ ہیں ۔ عبارت بہت سلیس اور شگفتہ ہوتی ہے ۔ انہوں نے علمی ، مذہبی اور سیاسی کے موضوعات پر فکر کی پوری آزادی کے ساتھ بڑے زور دار مضامین لکھے ۔" آیات بیانات ان سے یادگار ہے ۔" تہذیب الاخلاق" کے قلمکاروں میں چراغ علمی سادہ وسیات تحریر کے مالک تھے ۔ ان کی تحریر کا انداز استدلالی ہے لیکن ان کے یہاں ادبی شان بہت کم ہے ۔عبارت تقریبا بے کیف ہوتی ہے ۔ لیکن انہوں نے ٹھوس نثر میں اپنی بات کہنے کا سلیقہ سکھایا۔ ذکاء اللہ نے بھی سرسید کا ساتھ دیا۔انہوں نے ریاض ،طبیعات ، جغرافیہ، سیاست ، تاریخ اور اخلاق جیسے موضوعات پر مقالے سپر قلم کر کے اردو کے دامن کو وسیع کیا۔ اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ علی گڑھ تحریک نے مقالہ نگاری کی مضبوط بنیادفراہم کی ۔
سرسید کے زمانے سے اردو میں اخبارات اور رسائل شائع ہونے لگے۔ان میں موضوعات پر مقالے شائع ہوا کرتے تھے۔ صحافتی ادب نے بھی نمایاں ترقی کی مولانا آزاد نے "الہلال "اور "البلاغ" کے ذریعہ اردو صحافت کی نئی تاریخ رقم کی۔ان دونوں اخبارات میں مولانا آزاد کے مقالات انتہائی تریک و احتشام کے ساتھ شائع ہوا کرتے تھے اور آزاد کے مقالات کو زبردستی عوامی مقبولیت حاصل تھی۔ مولانا کی نثر کا کیا کہنا۔ عربی و فارسی کے بلند آہنگ الفاظ کا استعمال ان کی شناخت ہے ۔ان کا اسلوب چست فقروں اور عربی ، فارسی اور اردو اشعار کے موزوں اور بریل استعمال سے عبارت ہے ۔ مولانا آزاد کے مقالات کا مجموعہ " مقالات آزاد " کے نام سے زیور طباعت سے آراستہ ہو چکا ہے ۔ صحافتی ادب کے سلسلے میں مولانا ظفر علی خاں ایڈیٹر ”زمیندار“ کو بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوں نے سیاسی موضوعات پر سو سے زیادہ مقالات تحریر کیے ۔ ان کے یہاں جوش اور خطابت کا رنگ نمایاں ہے۔ ہنگامی موضوعات پر طبع آزمائی کے نتیجے میں ان کے مقالات کو بقائے دوام حاصل نہیں ہوسکا۔
اردو میں تحقیقی اور تنقیدی مقالات کی روایت بھی انتہائی شاندار ہے ۔ ایسے مقالات چند صفحات سے لے کر تین چار سوصفحات تک پھیلے ہوئے ہیں ۔ عام طور پر تحقیقی اور تنقیدی مقالات خشک ہوتے ہیں اوران میں پٹخارہ پن نہیں ہوتا ہے ۔لیکن تاثراتی تنقیدی ذاتی تعلقات کے بیان یا اثر پذیری سے طفیل او بی حسن پا یا جا تا ہے ۔اردو کے محققوں میں مولوی عبدالحق ، قاضی عبداودو د مشفق خواجہ اور رشید حسن خاں نمایاں اہمیت کے حاصل ہیں۔ اردو کی ابتدائی نشو ونما میں صوفیائے کرام کا کام " مولوی عبدالحق کا زبردست تحقیقی مقالہ ہے ۔ اس مقالہ میں انہوں نے صوفیا کرام کی لسانی خدمات کا اعتراف کھلے دل کے ساتھ کیا ہے ۔ ان کی تحریروں پر حالی کی طرز نگارش کا اثر نمایاں ہے ۔ قاضی عبدالودود نے بعنوان "غالب : بحثیت محقق ـ کے ایک گرانقد علمی مقالہ تحریر کیا۔انہوں نے لالف رسل کے ساتھ ملکر میر کی عشقیہ شاعری پر بھی پرمغز مقالہ پر قلم کیا۔
اردو میں تحقیق کے ساتھ تنقید کا بھی بازارگرام رہا ۔ آل احمد سرور ، احتشام حسین ، وقار عظیم ،مجنوں گورکھپور ی ،حسن عسکری، کلیم الدین احمد ، نیاز فتح پوری ، عبادت بریلوی ، یوسف حسین خان ، خلیفہ عبدالحکیم ، حامدی کاشمیری، تنویر علوی ، باقر مہدی ، گوپی چند نارنگ، شمس الرحمن فاروقی ،وارث علوی اور دیگر نقادوں نے نہایت شاندار تنقیدی مقالات سے ادب کو سرفراز کیا۔ آل احمد سرور کے مقالات میں ادبی چاشنی بدرجہ اتم موجود ہے ۔ وہ قطبیعت کے ساتھ فیصلہ کرنے سے ہمیشہ اعتراز کرتے ہیں ۔ان کے تنقیدی مقالات میں "نئے اور پرانے چراغ" نظر اور نظریہ "اور "مسرت سے بصیرت تک بہت مشہور ہیں ۔
احتشام حسین اور مجنوں گورکھپوری کارکسی تنقید کے علمبردار ہیں ۔ دونوں نے مغرب سے استفادہ کیا ہے لیکن کلیم الدین احمد کی طرح مغرب سے مرعوب اور مشرقی ادب سے بیزار نہیں ہیں ۔ احتشام حسین کے مقالات کے مجموعوں میں ادب اور سماج اعتبار نظراورافکار ومسائل نے کافی شہرت حاصل کی ۔ مجنوں گورکھپوری کے مقالات کے مجموعے ادب اور زندگی " نقوش وافکار" اور "نقیدی حاشیے "ادب میں گرانقدراضافے ہیں ۔ وقار عظیم نے افسانوں پر اچھا کام کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے اقبال پر قیمتی تنقیدی مقالے تحریر کیے ۔خلیفہ عبدالحکیم اور یوسف حسن خاں نے بھی اقبال پر پرمغز مقالات سپر قلم کیے ۔ حسن عسکری نے میر اور منٹو پر لکھ کر تنقیدی مقالات کا حق ادا کر دیا۔ انسان اور آدمی" حسن عسکری کا طویل اور اہم مقالہ ہے ۔ تنویر علوی نے ذوق پر دقیع مقالہ تحریر کیا۔ وارث علوی اور باقر مہدی نے اردو افسانہ نگاروں خصوصا عصمت ،منٹو، بیدی کرشن چندر پر گرانقدر مقالے تحریر کیے۔ ان دونوں نقادوں کا رویہ بت شکنی سے مماثل ہے ۔ گوپی چند نارنگ اور شمس الرحمن فاروقی نے کلاسک سے کر جدید ادبی موضوعات پر چھوٹے بڑے لیکن Thought Provoking مقالات قلمبند کیے با قاعد و نقادوں کے علاوہ بہت سے شاعروں ،ادیوں اور ماہرین تعلیم نے بھی مختلیف علمی وادبی مسائل پر مقالات تحریر کیے ۔
اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اردو مقالہ نگاری کا جوسفر انیسویں صدی میں شروع ہوا وہ آج اکیسویں صدی میں بھی جاری ہے اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہے ۔
0 comments:
Post a Comment