آرائش محفل کا تنقیدی جائزہ
جان گلکرسٹ نے جب فورٹ ولیم کالج کا افتتاح کیا تو اس نے بڑے پیمانے پر ترجمے کا کام شروع کرایا۔ جس کے نتیجے میں سید حیدر بخش حیدری نے حاتم طائی کا قصہ جو کہ اصلا فارسی زبان میں تھا کو "آرائش محفل" کے نام سے اردو زبان میں (1801) ترجمہ کیا اور نہ صرف ترجمہ کیا بلکہ اپنی طرف سے بھی اس میں کمی و بیشی کی۔یہ داستان ہیر وازم اور اسلوب کی بدولت باغ و بہار کے بعد فورٹ ولیم کالج کی دیگر داستانوں میں بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ تمام داستان حاتم کی مہمات پر مشتمل ہے۔ حاتم یہ مہمات منیر شامی کے لیے سر کرتا ہے جو داستان کی ہیروئن حسن بانو کے سات سوالوں کے جواب لانے سے قاصر ہوتا ہے یوں یہ ذمہ داری حاتم کو اپنے سر لیناپڑتی ہے۔
داستان میں شہزادی کے ذریعے کئے گئے سات سوالات کے جوابات ہیں۔ جن کو حاتم طائی نے پورا کرنے کے لئے دور دراز کا سفر کیا۔ سوالات یہ تھے ۔
(1) ایک بار دیکھا ہے دوسری دفعہ کی ہوس ہے
(2)نیکی کر اور دریا میں ڈال
(3) کسی سے بدی نہ کر اگر کریگا تو وہی پاویگا
(4)سچ کہنے والے کو ہمیشہ راحت ہے
(5) کوہ ندا کی خبر لاوے
(6)وہ موتی جو مرغابی کے انڈے برابر بالفعل موجود ہے اسکی جوڑی پیدا کرے
(7) حمام بادگرد کی خبر لاوے۔
حاتم طائی اپنے دوست شہزادے کی محبت ڈھونڈنے ،ان سات سوالوں کے جواب کے ڈھونڈنے کے لیے سفر کرتا رہتا ہے اور دوران سفر کبھی پریوں ،جنات اور عجیب الخلقت و ہئیت مخلوقات سے واسطہ پڑتا ہے ۔ کسی داستان کے ہیرو کی طرح اسمِ اعظم کو حاتم سہارا بناتے تمام مخلوقات کے شر سے خود کو اور عوام کو بچاتا ہے ۔ غیب سے حاتم کو مدد فراہم کی جاتی ہے ۔
اس داستان کے اہم کرداروں میں منیر شامی ، حسن بانواور حاتم شامل ہیں۔ داستان میں حاتم کی اہمیت کی بدولت یہ داستان اس کے نام سے منسوب ہے۔ دیگر کرداروں میں فرس کی بیٹی، ملکہ زر میں پوش، دائی، فقیر ، حسنا پری، بادشاہ فرو قاش، حارث سودا گر کی بیٹی ، شام احمر، کملاق، مشمس شاہ، مہر آور ، مہاکال دیو اہم ہیں۔ دیو ، جن ، پریوں کے علاوہ جانور کرداروں (ہرن، گیدڑ، بھیڑیے ، سانپ، مینڈک، چھپکلیاں ، بچھو وغیرہ کی بھی ریل پیل ہے۔ تمام ذیلی کر دار حاتم کی مہمات اور پیش آئند ہ واقعات تک محدود ہیں جو داستان کو طویل بنانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ منیر شامی ، حسن بانو کے علاوہ حاتم کا کردار ہی تمام داستان میں موجود رہتا ہے۔ یہ داستان انہی تین کرداروں کی تکوین پر مشتمل ہے.
حیدر بخش حیدری نے حاتم کے کردار میں جو صفات دکھانے کی کوشش کی ہے ان میں یہ بھی ہے کہ وہ لا پچ و طمع بالکل نہیں رکھتا۔ کیونکہ لالچ و طمع رکھنا ایک مثالی کردار کو کسی طور بھی زیب نہیں دیتا۔ لیکن جب وہ کوہ ندا کی خبر لینے جاتا ہے تو راستے میں ہیرے جواہرات دیکھ کر اس کی نیت میں کھوٹ آجاتا ہے۔ حالانکہ حاتم کو اس سے قبل نصیحت کی جاچکی تھی کہ اس سر زمین سے زروجواہرات لیے تو وہ واپس نہ جا سکے تھے۔اس لمحے وہ نصیحت کو پس پشت ڈال کر طمع ولا لچ میں ہیرے جواہرات اکٹھے کر ناشروع کر دیتا ہے
اس کتاب میں مابعد الطبیعات کی علامتیں اور مذہبی استعارے بکثرت ملیں گے ۔ کسی عورت کے لیے غزل کہی جاتی ہے جبکہ حیدر صاحب نے مرد حضرات کے حسن کو ایسی علامات سے متعارف کرایا ہے کہ یہ کتاب ان کی نثری غزل کہی جا سکتی ہے ، غزل کے اس طرز کو متعارف کرانے کے علاوہ ، اس کتاب میں جا بجا فارسی کے استعارے و تراکیب استعمال کی گئیں ہیں جس سے پڑھنے والے لفظوں کے حسن سے کھیلنے و محظوظ ہونے کے مواقع بھی ملتے رہتے ہیں ۔ اس کتاب کی اہم خاصیت اس کے نتائج ہیں ، ہر حکایت و سفر کا نتیجہ اک اخلاقی قدر پر رکھا گیا ہے جس سے پڑھنے والا مزید رغبت سے پڑھتا ہے ۔
مصنف پر متصوفانہ رنگ طاری رہا ہے جس کی بدولت زندگی کے ایسے رنگ ، جس پر عام لوگ پھسل جاتے ہیں ، کہانی کے کردار سیسہ پلائی دیوار کی مانند گزر جاتے ہیں ، جذبات کے ایسے رنگوں پر بندھ باندھ کے ذات کی تعمیر کا رخ متعارف کرایا گیا ہے ۔ اس لحاظ سے یہ اک شاہکار کہانی ہے جس کو پڑھنے کے بعد کتاب کے سحر میں کھوجانا عام سی بات ہے گوکہ اسالیب بہت آسان و سادہ فہم ہیں۔
داستان اخلاقی مطالب سے پر اور نیکی کے لئے تشویق دلاتی ہے اس کی عبارت سلیس اور داستانی ہے، واقعات میں بہت زیادہ الجھاؤ نہیں ہے۔ داستان اپنے وقت کی تہذیب و ثقافت گفتار و رفتار اوراپنے عہد کی عکاسی کرتی ہوئی نظر آتی ہے اردو زبان کے شائقین کے لئے آج بھی یہ کتاب افادہ و استفادہ سے خالی نہیں ہے۔
0 comments:
Post a Comment