MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

ناصر کاظمی کی غزل گوئی

 ناصر کاظمی کی غزل گوئی

                      ناصر رضا کاظمی انبالہ (پنجاب) میں  پیدا ہوئے۔ ان کا پورا نام سید ناصر رضا کاظمی تھا ۔ ابتدائی تعلیم انبالہ میں ہوئی۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج لاہور میں زیر تعلیم رہے۔ اعلیٰ تعلیم کی تکمیل نہ ہو سکی۔  ۱۹۴۷ میں تقسیم ہند کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کی۔  ناصر کاظمی نے ۱۹۳۹ءمیں صرف سولہ سال کی عمرمیں لاہور ریڈیو کے ساتھ بطور اسکرپٹ رائٹر منسلک ہو ئے اور پھر آخری وقت تک کسی نہ کسی صورت ریڈیوپاکستان کے ساتھ منسلک رہے۔اسکے علاوہ وہ مختلف ادبی جریدوں، اوراق نو، ہمایوں اور خیال کے مدیر بھی رہے۔

                ناصر کی شاعری کی نشوونما ۱۹۴۷ ء کے آس پاس ہوئی ہے اور اس زمانے میں تقسیم کے عمل کے دوران  ناصر بھی اس قیامت خیز آشوب سے متاثر ہوئے ۔اس کی انھوں نے حقیقت سے بھر پور ترجمانی کی ہے ۔زندگی اس زمانے میں جس طرح موت سے دوچار ہوئی ،رونقیں جس طرح ویران ہوئیں ،بہاروں پر جس طرح خزاں آئی ،آشیاں جس طرح برباد ہوئے ہیں  ناصر نے اپنی شاعری میں اسے  بیان کیا ہے :-

   رونقیں تھیں جہاں میں کیا کیا کچھ

لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ

کیا کہوں اب تم سےخزاں والوں

جل گیا آشیاں میں کیا کیا کچھ

                اردو میں بعض شعرا ایسے ہیں جو ہندستانی کلچر سے گہرے طور پر وابستہ رہے ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ، نظیر اکبر آبادی اور فراق گورکھپوری نمایاں ہیں۔ ناصر کے معاصر شاعر میراجی نے ہندوستانی کلچر اور دیو مالا کے ساتھ ساتھ موسموں ، جنگلوں اور لوگوں سے رشتہ قائم رکھا تھا۔ ناصر کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ بر صغیر ہند و پاک کی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں ، وہ زمین پر رہ کر موسموں ، رنگوں ، آوازوں اور خاموشیوں سے   پیار کر تے ہیں ۔ وہ دوہوں ، بھجن ، گیت کے ساتھ ساتھ ، سماجی تہواروں اور تہذیبی رشتوں سے منسلک ہیں ۔ ذیل کے اشعار میں گلی ، دیا ، خالی کمرہ ، جنگل ، پیڑ اور پتے ایک دلچسپ تہذیبی فضا کو پیش کرتے ہیں۔

تیری گلی میں سارا دن

دکھ کے کنکر چنتا ہوں

میرا دیا جلاۓ کون

میں ترا خالی کمرہ ہوں

تو جیون کی بھری گلی

میں جنگل کا رستہ ہوں

ہم جس پیڑ کی چھاؤں میں بیٹھا کرتے تھے

اب اس پیڑ کے پتے ، جھڑتے جاتے ہیں

          ناصر کاظمی کی شاعری میں عشق کی واردات و کیفیات کی ترجمانی بھی ملتی ہے  اور اس  بیان میں ان کے ہاں مضامین و موضوعات میں کافی تنوع بھی پایا جاتا ہے ۔انسان کے داخلی جذبات و احساسات کی انھوں نےحقیقت سے بھر پور تصویر کشی کی ہے  جس میں جگہ جگہ جدت سے بھر پور مزاج جھلک رہا ہے  ان مقامات پر ایک اچھوتے پن کا احساس ہوتا ہے :-

      گرفتہ دل ہیں بہت آج تیرے دیوانے

           خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے

              ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں سکتے ۔ کئی شعر ایسے گزرے ہیں جو ماضی سے ذہنی اور جذباتی رشتہ رکھتے ہیں اور حال کے انتشار اور درد و کرب سے نجات پانے کی سعی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ماضیت " کھائیں ہوؤں کی جستجو " بن جاتی ہے۔کیٹس عہد وسطی کے رنگین محلوں اور خوب صورت عورتوں کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ غالب کو بھی ماضی سے لگاؤ ہے ۔ناصر کے یہاں " پرانی صحبتیں " احساس زیاں کو جنم دیتی ہیں ۔اسی ضمن میں اشعار دیکھئیں۔

پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں

چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے

آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں 

یادوں کے بجھے ہوئے سویرے

                    ناصر کی عشقیہ شاعری جمالیاتی حس کی تشفی کرتی ہے ۔ قاری نسوانی حسن کی دل آویزی ، رنگ ، خوشبو اور لطافت کو محسوس کرتا ہے ، یہ ہوس پرستی کے بجائے حسیاتی لذت کا موجب بنتا ہے ، ساتھ ہی محبوبہ سے قرب یا دوری ہو ، معصومیت ، پاکیزگی اور جانثاری سے عاری نہیں ۔ در اصل ناصر کی شعری شخصیت مخصوص تہذیبی اور معاشرتی حالات کی پروردہ ہے ۔ عشقیہ رویے میں یہ اپنے مخصوص کلچر سے آب و رنگ حاصل کرتی ہے ۔ ذیل کے اشعار دیکھیے ، ان میں سماجی اور تہذیبی اقدار کا احساس ہوتا ہے :

یاد کے بے نشاں جزیروں سے

تیری آواز آ رہی ہے ابھی 

آنکھ کھلی تو تجھے نہ پاکر

میں کتنا بے چین ہوا تھا

                 ناصر کاظمی  کا شعری اسلوب روایت کے گہرے شعور سے مزین ہے ۔ وہ روایت کے دل دادہ ہیں ۔ ان کی نظر کلاسیکی غزل پر ہے ۔ انھوں نے میر کا خاص مطالعہ کیا ہے اور میر کے احیا کے لیے خاصا کام کیا ہے ۔ غز ل کو داخلی صورت عطا کرنے اورا سے ملائمت ، دھیماپن ، سوز و گداز سے متصف کرنے میں انھوں نے میر سے استفادہ کیا ہے لیکن انھوں نے خود بھی اپنے شعورِ فن سے کام لے کر ان کو خوش گوار تبدیلیوں سے ہم کنار کیا ۔

                       وہ غزل کی صنف اور ہئیت پر گہری نظر رکھتے ہیں ۔ وہ غزل کے شعر میں کم سے کم لفظوں سے زیادہ سے زیادہ وسعت پیدا کرنے کی آگاہی رکھتے ہیں ۔ اکثر غزل گو ، خواہ قدیم ہوں یا جدید ، لفظوں کو فیاضی سے استعمال کرتے ہیں اور شعری عمل کو زک پہنچاتے ہیں ۔ دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں کلاسکیت کے ساتھ جدت پسندی کا اظہار بھی ملتا ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ان کے یہاں روایت اور جدت گلے ملتی نظر آتی ہیں ۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment