MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

میر انیس کی رباعی گوئی

   میر انیس کی رباعی گوئی

                   رباعی عربی کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی چار چار کے ہیں۔ رباعی کی جمع رباعیات ہے۔ شاعرانہ مضمون میں رباعی اس صنف کا نام ہے جس میں چار مصرعوں میں ایک مکمل مضمون ادا کیا جاتا ہے۔ رباعی کا وزن مخصوص ہے۔ رباعی کے ۲۴ اوزان  ہیں اور بحر بحر ہزج سے کیا جاتا ہے۔ ان میں سے۱۲ شجرۂِ اخرب اور ۱۲ شجرۂِ اخرم سے تعلق رکھتے ہیں۔ رباعی میں  پہلے دوسرے اور چوتھے مصرعے میں قافیہ لانا ضروری ہے۔ تیسرے مصرعے میں اگر قافیہ لایا جائے تو کوئی عیب نہیں۔ اس کے موضوعات مقرر نہیں۔ اردو فارسی کے شعرا نے ہر نوع کے خیال کو اس میں سمویا ہے۔ رباعی کے آخری دو مصرعوں خاص کر چوتھے مصرع پر ساری رباعی کا حسن و اثر اور زور کا انحصار ہے۔ مختلف کتابوں میں رباعی کے مختلف نام ہیں۔ رباعی، ترانہ اور دو بیتی بعض نے چہار مصرعی، جفتی اور خصی بھی لکھا ہے۔رباعی کا موجد فارسی شاعر رودکی کو مانا جاتا ہے۔اردو کے اہم رباعی گو شعراء کبے نام قلی قطب شاہ،ولی،میر،غالب،ذوق،مومن،انیس،دبیر،جوش،فراق،شاد،اقبال وغیرہ ہیں۔ان میں میر انیس کا نام  بڑا ہے۔

                     کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگڑا گویّا، قوّال بن جاتا ہے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ قوّالوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میر  ببر علی انیس نے اردو میں شاہکار مرثیے کہہ کر اس ضرب المثل کو ضرور غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ بعض اردو نقادوں کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اور تو اور مولانا شبلی نعمانی کی بھی میر انیس کی شاعری کے متعلق رائے بہت بلند ہے۔شاعری میر انیس کے خون میں رچی بسی تھی کہ انکے والد میر خلیق اور بالخصوص دادا میر حسن بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی لیے تو آپ نے کہا تھا۔

عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں

پانچویں پشت ہے شبّیر کی مدّاحی میں

                   میر انیس کا نام گو مرثیے کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے بہت بلند پایہ رباعیات بھی کہی ہیں ۔۔ انیس نے کم و بیش چھ سو رباعیاں کہی ہیں ۔ ان میں وہ تمام موضوعات بھی مل جاتے ہیں جن کو اب تک رباعی گو شعرا نظم کرتے آئے تھے مگر انھوں نے خمریہ رباعیات نہیں کہیں البتہ رثائی رباعیوں کا التزام رکھا۔ رثانی رباعیاں اگر چہ کہ انیس سے پہلے میر ، میر حسن اور مومن وغیرہ کے ہاں ملتی ہیں لیکن انیس نے اس موضوع کو بہ طور خاص برتا سید محمد عباسی نے ’’مجموعہ رباعیات انیسں‘‘ میں ان کی رباعیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔

     ۱۔  مذہبیات  :   جن میں حمد ، نعت ، منقبت ، معتقدات اور مراثی شامل ہیں

 ۲۔   اخلاقیات 

۳۔  ذاتیات     

            لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ان کی کل رباعیاں مذہبیات ہی کے تحت میں آتی ہیں ۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے اس تقسیم کے قطع نظر مختلف موضوعات پر گفتگو کی خاطر یہ چند ایک عنوانات مقرر کیے جیسے مذہبی رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، سماجی رباعیات اور سماجی رباعیات اور ذاتی رباعیات وغیرہ۔میر انیس نے مذہبی رباعیوں میں اعتقادات کی فضا کو مجروح نہیں کیا جب کہ ان سے پہلے حاتم و ہدایت وغیرہ نے شیعہ اور سنی کے اختلاف کو ظاہر کرنے میں پس و پیش نہ کیا۔ مومن کے ہاں مسلک اہل حدیث سے شیفتگی ملے گی لیکن انیس کے یہاں جہاں بھی اعتقادی مسائل آۓ وہ اختلافی امور سے گریزاں رہے۔

             ماہرین نے رباعی گوئی کا اصل میدان تو اخلاق و حکمت بتلایا ہے ۔ پند و موعظت کے مضامین کو شعری قالب میں ڈھالنا ان میں لطافت ، جاذبیت اور دلکشی   پیدا کرنا آسان بات نہیں ۔ بزرگان سلف نے اس موضوع کو خوب برتا۔ اخلاق و کردار کی وضاحت کے لیے دینی اخلاق کی بڑی قدر و قیمت ہوگی اس میں آفاقی نوعیت بھی ملے  گی انیس نے اس مرحلے کو بڑی عمدگی سے پورا کیا ہے۔ انہوں نے اخلاقی رباعیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس میں خود داری ، عزت نفس، وضع داری ، شرافت ، انکساری ، علوئے ہمت، قناعت ، دنیا کی بے ثباتی کے مضامین شامل ہیں۔ انیس کی رباعیاں ہماری زندگی کے لئے ایک لائحہ عمل دیتی ہے اور رہبری کا کام کرتی ہیں۔اسی ضمن میں ایک رباعی دیکھیئں؎

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

               میر انیس  کی رباعیات میں وہی سلاست و روانی ،جدت و ندرت، فصاحت و بلاغت، تازگی، و شگفتگی، نشست الفاظ اور بلند ئ تخیل موجود ہے جو میر انیس کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔انیس کی رباعیوں نے اردو میں ایک بلند مرتبہ پایا ہے۔ان میں سیدھی سادی باتیں بڑے تیکھے پن سے کہی گئیں ہیں ، جو دل سے نکلتی ہیں اور دل میں اتر جاتی ہیں۔انیس کی رباعیاں زیادہ تر دروں بینی اورخود کلامی کی فضا میں پھلتی پھولتی ہیں۔ انیس کی رباعی اخلاقی مضامین اور فلسفیانہ نظریات کا گراں قدر سرمایہ ہے ۔انہوں نے اپنی رباعیوں کا مرکز و محوراخلاق حسنہ کو قرار دیا ہے۔ایک رباعی دیکھئیں؎

عزّت رہے یارو آشنا کے آگے

محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے

یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں

یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے

                    میر انیس نے رباعی کی دنیا میں کافی نام کمایا۔انیس نے بہت سی رباعیاں حمد، نعت، منقبت خصوصاً اہل  بیت اطہار کے بارے میں کہی ہیں ۔ان رباعیوں میں صدق دلی، والہانہ محبت اور گہری عقیدت کا اظہار ملتا ہے ۔ حمدیہ رباعیوں میں چند خالص متصوفانہ مضامین معرفت و حقیقت وغیرہ سے مملو ہیں ۔میر انیس کی ایک رباعی دیکھئیے۔

آغوشِ لحد میں جبکہ ســـونا ہوگا
جُز خـــاک نہ تکیہ نہ بچھــــونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس
ہم ہوویں گے اور قبر کا کــونا ہوگا
               انیس نے جن رباعیوں میں دنیا اور دنیا کی زندگی کے بارے میں اپنے فلسفیانہ خیالات  پیش کیے ہیں ، دنیائے فانی کی بابت انھوں نے مال و متاع کی اہمیت کو ثانوی بلکہ لا یعنی ٹہرایا ۔انیس نے چند رباعیات  پیری یا ضعیفی کے بارے میں بھی کہی ہیں ؎

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

           ڈاکٹر سلام سند یلوی  اپنی کتاب  اردو رباعیات( صفحہ نمبر ۳۷۹) میں لکھتے ہیں :
                        " اگر میر ببر علی انیس مرثیہ نہ بھی کہتے تو ان کی رباعیاں ہی اس بلند مرتبہ کی تھی جو ان کی حیات ابدی کی ضامن بن جاتی ۔ در اصل میر انیس دور متوسط کے سب سے بڑے رباعی کو شاعر ہیں ۔ ان کی شیریں پر درد اور بلند آواز صدیوں تک اردو رباعی کی فضا میں گونجتی رہے گی۔ـــ
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment