میر انیس کی رباعی گوئی
کسی زمانے میں کہا جاتا تھا کہ بگڑا گویّا، قوّال بن جاتا ہے اور بگڑا شاعر مرثیہ گو۔ قوّالوں کے بارے میں تو کچھ نہیں کہہ سکتا لیکن میر ببر علی انیس نے اردو میں شاہکار مرثیے کہہ کر اس ضرب المثل کو ضرور غلط ثابت کر دیا ہے بلکہ بعض اردو نقادوں کے نزدیک تو وہ اردو کے سب سے بڑے شاعر ہیں، اور تو اور مولانا شبلی نعمانی کی بھی میر انیس کی شاعری کے متعلق رائے بہت بلند ہے۔شاعری میر انیس کے خون میں رچی بسی تھی کہ انکے والد میر خلیق اور بالخصوص دادا میر حسن بہت بلند پایہ شاعر تھے۔ اسی لیے تو آپ نے کہا تھا۔
عمر گزری ہے اسی دشت کی سیّاحی میں
پانچویں پشت ہے شبّیر کی مدّاحی میں
میر انیس کا نام گو مرثیے کی وجہ سے ہے لیکن آپ نے بہت بلند پایہ رباعیات بھی کہی ہیں ۔۔ انیس نے کم و بیش چھ سو رباعیاں کہی ہیں ۔ ان میں وہ تمام موضوعات بھی مل جاتے ہیں جن کو اب تک رباعی گو شعرا نظم کرتے آئے تھے مگر انھوں نے خمریہ رباعیات نہیں کہیں البتہ رثائی رباعیوں کا التزام رکھا۔ رثانی رباعیاں اگر چہ کہ انیس سے پہلے میر ، میر حسن اور مومن وغیرہ کے ہاں ملتی ہیں لیکن انیس نے اس موضوع کو بہ طور خاص برتا سید محمد عباسی نے ’’مجموعہ رباعیات انیسں‘‘ میں ان کی رباعیات کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔
۱۔ مذہبیات : جن میں حمد ، نعت ، منقبت ، معتقدات اور مراثی شامل ہیں
۲۔ اخلاقیات
۳۔ ذاتیات
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی لکھا کہ ان کی کل رباعیاں مذہبیات ہی کے تحت میں آتی ہیں ۔ ڈاکٹر سلام سندیلوی نے اس تقسیم کے قطع نظر مختلف موضوعات پر گفتگو کی خاطر یہ چند ایک عنوانات مقرر کیے جیسے مذہبی رباعیات ، اخلاقی رباعیات ، فلسفیانہ رباعیات ، سماجی رباعیات اور سماجی رباعیات اور ذاتی رباعیات وغیرہ۔میر انیس نے مذہبی رباعیوں میں اعتقادات کی فضا کو مجروح نہیں کیا جب کہ ان سے پہلے حاتم و ہدایت وغیرہ نے شیعہ اور سنی کے اختلاف کو ظاہر کرنے میں پس و پیش نہ کیا۔ مومن کے ہاں مسلک اہل حدیث سے شیفتگی ملے گی لیکن انیس کے یہاں جہاں بھی اعتقادی مسائل آۓ وہ اختلافی امور سے گریزاں رہے۔
ماہرین نے رباعی گوئی کا اصل میدان تو اخلاق و حکمت بتلایا ہے ۔ پند و موعظت کے مضامین کو شعری قالب میں ڈھالنا ان میں لطافت ، جاذبیت اور دلکشی پیدا کرنا آسان بات نہیں ۔ بزرگان سلف نے اس موضوع کو خوب برتا۔ اخلاق و کردار کی وضاحت کے لیے دینی اخلاق کی بڑی قدر و قیمت ہوگی اس میں آفاقی نوعیت بھی ملے گی انیس نے اس مرحلے کو بڑی عمدگی سے پورا کیا ہے۔ انہوں نے اخلاقی رباعیوں کا ایک بہت بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ اس میں خود داری ، عزت نفس، وضع داری ، شرافت ، انکساری ، علوئے ہمت، قناعت ، دنیا کی بے ثباتی کے مضامین شامل ہیں۔ انیس کی رباعیاں ہماری زندگی کے لئے ایک لائحہ عمل دیتی ہے اور رہبری کا کام کرتی ہیں۔اسی ضمن میں ایک رباعی دیکھیئں؎
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
میر انیس کی رباعیات میں وہی سلاست و روانی ،جدت و ندرت، فصاحت و بلاغت، تازگی، و شگفتگی، نشست الفاظ اور بلند ئ تخیل موجود ہے جو میر انیس کی شاعری کا طرہ امتیاز ہے۔انیس کی رباعیوں نے اردو میں ایک بلند مرتبہ پایا ہے۔ان میں سیدھی سادی باتیں بڑے تیکھے پن سے کہی گئیں ہیں ، جو دل سے نکلتی ہیں اور دل میں اتر جاتی ہیں۔انیس کی رباعیاں زیادہ تر دروں بینی اورخود کلامی کی فضا میں پھلتی پھولتی ہیں۔ انیس کی رباعی اخلاقی مضامین اور فلسفیانہ نظریات کا گراں قدر سرمایہ ہے ۔انہوں نے اپنی رباعیوں کا مرکز و محوراخلاق حسنہ کو قرار دیا ہے۔ایک رباعی دیکھئیں؎
عزّت رہے یارو آشنا کے آگے
محجوب نہ ہوں شاہ و گدا کے آگے
یہ پاؤں چلیں تو راہِ مولا میں چلیں
یہ ہاتھ جب اٹھیں تو خدا کے آگے
میر انیس نے رباعی کی دنیا میں کافی نام کمایا۔انیس نے بہت سی رباعیاں حمد، نعت، منقبت خصوصاً اہل بیت اطہار کے بارے میں کہی ہیں ۔ان رباعیوں میں صدق دلی، والہانہ محبت اور گہری عقیدت کا اظہار ملتا ہے ۔ حمدیہ رباعیوں میں چند خالص متصوفانہ مضامین معرفت و حقیقت وغیرہ سے مملو ہیں ۔میر انیس کی ایک رباعی دیکھئیے۔
دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی
ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی
جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا
جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی
0 comments:
Post a Comment