MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

اردو رباعی کا آغاز و ارتقاء

اردو رباعی کا آغاز و ارتقاء

                              اردو کے دوسرے اصناف سخن کی طرح رباعی بھی فارسی سے اردو میں آئی ہے ۔اردو شاعری کے ابتدائی دور کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ محمد قلی قطب شاہ کے دیوان میں متعدد رباعیاں موجود ہیں ۔ اس کی رباعیوں میں اگر چہ تصوف ، منقبت اور درس و اخلاق بھی کچھ شامل ہیں لیکن ان میں وہی قابل توجہ ہیں جن میں اس نے حسن وعشق کے واردات کو نظم کیا ہے۔اس کے بعد ملا وجہی کی رباعیوں کو اردو کے قدیم ترین نمونوں میں شمار کیا جا تا ہے۔
                 نصرتی ،عبداللہ قطب شاہ اور میراں یعقوب کے کلام میں رباعیاں بھی شامل ہیں ۔ ولی کے کلیات میں کل ۲۶ رباعیاں ہیں ۔ ان کی رباعیوں میں وہی جمال پرستی ،حسن کی مجسمہ سازی، محبوب کی سراپا نگاری ، عاشقانہ جاں سپاری اور عارفانہ جذبات کی ترجمانی ملتی ہے جس کے لئے ان کی غزل ممتاز ہے۔ سراج کے کلیات میں رباعیاں بھی شامل ہیں جو کہ صاف ستھری سلیس اور رواں ہیں ۔ عشقیہ جذبات کو بڑے سلیقے سے نظم کیا گیا ہے ۔ان کی رباعیاں عاشقانہ سرشاری اور رندانہ سرمستی کی حامل ہیں ۔ 
                             شمالی ہند میں بیشتر شعراء نے کچھ نہ کچھ رباعیاں کہی ہیں جن میں اخلاق ، مذہب، منقبت، مدح، حسن وعشق اور شراب و کباب کو موضوع بنایا گیا ہے ۔ درد،سودا اور میر نے اگر چہ ضمنی طور پر با عیاں کی تھیں پھر بھی ان میں ایسے شعری محاسن جمع ہو گئے تھے کہ ر باعی کے امکانات کو وسیع کرنے میں ضرور مد دہلی ہو گی ۔ درد کے یہاں عارفانہ ومتصوفانہ ،اخلاقی و فلسفیانہ رباعیاں زیادہ  ہیں ۔ان رباعیوں میں غزلوں سے زیادہ سوز وساز ہے ۔سودا نے تقریبا تمام مضامین اپنی رباعیوں میں باندھے ہیں ۔ ان کی ایک مدحیہ ربائی ملاحظہ فرمائے جس میں چوتھے مصرعے کی مبالغہ آرائی نے رباعی کولافانی بنا دیا ہے ۔
                      ایوان عدالت میں تمھارے اے اللہ                    کیا ظلم کو ہے دخل عياذاً باللہ 
                   شیشے کا جو واں طاق سے رپٹے ہے پاؤں               پتھر سے نکلتی ہے صدا بسم اللہ 
               میر کی رباعیوں میں غزلوں سا سوز و گداز پا یا جا تا ہے ۔ اس دور کے دوسرے شعراء  مثلا میرحسن ، تاباں، بیان، حسرت اور وحشت وغیرہ نے بھی قابل ذکر ربا عیاں کہی ہیں ۔تاباں اور  بیان کی رباعیوں میں میر و درد کی رباعیوں کا ساتغزل و گداز پایا جا تا ہے ۔
                   لکھنوی شعراء میں آتش ، ناسخ ، انشاء، جرات وغیرہ نے گو کہ رباعیاں کہی ہیں لیکن  کوئی بھی درد ،میر ،سودا اور میر حسن کونہیں پہنچتا۔ بات یہ ہے کہ ادبی مرکز دہلی سےتاکہ و منتقل ہو لکھنؤ چکا تھااورلکھنو کی فضا میں جو ، واسوخت ، ریختی اور سطحی غزل کے سوا دہلی کی سادگئی  بیان ، سچے جذبات اور سنجیدہ اظہار  بیان کی مقبولیت کا گذر نہ تھا۔ اس لئے رباعی جیسی سنجیدہ صنف سے ان کی بے اعتنائی فطری تھی۔ دوسرے یہ کہ رباعی میں تصوف اور عشق حقیقی کے ہی لوازم نظم کئے جاتے تھے اور اہل لکھنؤ کو اس سے کوئی لگاؤ نہ تھا۔ چنانچہ اس عہد کے شعراء کے یہاں رباعیاں بہت کم نظر آتی ہیں ۔
                     غالب، مومن، ذوق ،انیس اور دبیرکاعہد رباعی کا شاندارعہد ہے ۔ان شعراء نے نہ صرف غزل، قصیدہ اور مرثیہ کو بام عروج پر پہنچایا کو بھی ترقی کی راہ پر لگایا۔ اس دور میں پہلی مرتبہ اردو رباعی کے مباحث کا تعین ہوا اور عاشقانہ جذبات و صوفیانہ خیالات کے ساتھ رباعی  میں واقعات کر بلا اوران کے متعلقات و اثرات کا ذکر آنے لگا۔ اس طرح رباعی تصوف اور عشق کے دائرے سے نکل کر زندگی کی اخلاقی قدروں کی ترجمان بن گئی ۔
                    انیس و دبیر نے نہ صرف رباعی کو معنوی اعتبار سے وسعت دی بلکہ اس صنف کوعوام سے روشناس بھی کرایا۔ غالب کی رباعیوں میں وہ شاعرانہ بلندی نہیں جوان کے کلام کی خصوصیت ہے۔ ذوق کی رباعیوں میں روز مرہ اور محاورے کی زبان کا لطف موجود ہے لیکن مومن کی رباعیاں ان دونوں سے بہتر ہیں۔ نازک خیالی ، دقت بینی ، خیال آفرینی اور معاملہ بندی ان کی رباعیوں کی روح رواں ہیں ۔ان شعرا میں میر انیس رباعی کی دنیا میں کافی نام کمایا۔انیس نے بہت سی رباعیاں حمد، نعت، منقبت خصوصاً اہل  بیت اطہار کے بارے میں کہی ہیں ۔ان رباعیوں میں صدق دلی، والہانہ محبت اور گہری عقیدت کا اظہار ملتا ہے ۔ حمدیہ رباعیوں میں چند خالص متصوفانہ مضامین معرفت و حقیقت وغیرہ سے مملو ہیں ۔میر انیس کی ایک رباعی دیکھئیے۔
آغوشِ لحد میں جبکہ ســـونا ہوگا
جُز خـــاک نہ تکیہ نہ بچھــــونا ہوگا
تنہائی میں آہ کون ہووے گا انیس
ہم ہوویں گے اور قبر کا کــونا ہوگا
                         ۱۸۵۷ء کے نا کام انقلاب اور مغربی علوم کی وجہ سے شاعروں اور ادیبوں میں نیا شعور   پیدا ہوا۔حالی اور اکبر نے رباعی کو اپنے  پیغام کا ذریعہ بنایا اور اس سے درس اخلاق کا کام لیا۔ حالی نے زندگی کے بے شمار اخلاقی پہلوؤں ،اصلاحی نکتوں اور تعمیری تجویزوں کورباعی میں جگہ دے کر اس میں وسعت   پیدا کی۔اکبر کی رباعیوں کا لہجہ حالی کی طرح یکسر ناصحانہ ہے۔ حالی نے جس کام کو انتہائی نجید گی ،متانت اور خاموشی سے انجام دیا، اکبر نے اسے طنزوظرافت اور بعض وقت قبقبہ کی مدد سے پورا کیا۔
               اسماعیل میرٹھی کی رباعیوں میں حالی اور اکبر کا مصلحانہ انداز ہر جگہ نمایاں ہے۔ امیر مینائی کی رباعیاں زیادہ تر نعتیہ ہیں لیکن ان میں اکثر جگہ ادبی شان و شاعرانہ لطافت موجود ہے ۔شادعظیم آبادی کی رباعیاں ان کے مخصوص متغر لانہ رنگ میں ہیں ۔ان میں زیادہ تر میں معرفت وتصوف کی ترجمانی کی گئی ہے ۔ داغ  اور عزیز لکھنوی کے یہاں بھی اگر چہ چند رباعیاں ملتی ہیں لیکن ان میں کوئی خاص بات نہیں ہے ۔
             اس کے جو عہد آتا ہے اس  میں امجد حیدرآبادی، جوش، فانی ، سیماب، فراق ،محروم ، رواں ، آسی اور یگانہ وغیرہ خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہیں ۔امجدحیدرآبادی  کی رباعیوں میں صوفیانہ رنگ غالب پے ۔ زندگی کے اخلاقی پہلوؤں کو امجد نے بڑی خوبصورتی سے اپنی رباعیوں میں پیش کیا ہے۔ معنویت اور اظہار کی قوت سے امجد نے اپنی رباعیوں میں ایک ایسی کیفیت  پیدا کی کہ امجد کا نام اردو رباعی کے ساتھ جڑ گیا ۔ انھوں نے اپنی رباعیوں میں انسانی زندگی کے اہم گوشوں کو نہایت سادگی اور چابک دستی سے اس طرح  پیش کیا کہ بات سننے والے کے دل میں اتر جائے۔ایک رباعی دیکھیئں۔
ذرے ذرے میں ہے خدائی دیکھو
ہر بت میں ہے شان کبریائی دیکھو
اعداد تمام مختلف ہیں باہم
ہر اک میں ہے مگر اکائی دیکھو
                            جوش کی رباعیوں کے دو مجموعے ٫ جنون و حکمت اور نجوم و جواہر ، شائع ہوئے ۔ فراق گورکھپوری کی رباعیاں ' روپ ' کے نام سے اور جاں نثار اختر کی رباعیاں ' گھر آنگن ' کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوئیں ۔ ان کے علاوہ رباعی گو شعرا میں امجد حیدرآبادی، جگن موہن لعل رواں، افق لکھنوی، یگانہ چنگیزی، سیماب اکبر آبادی اور فانی بدایونی کے نام قابل ذکر ہیں۔    وش کی رباعیاں اردو شاعری میں ایک گراں بہا اضافہ ہیں۔ جب بھی اردو میں رباعی گوئی کی تاریخ لکھی جائے گی اس میں جوش کا ذکر ضرور آئے گا اور انہیں رباعی گوئی کی تاریخ میں ممتاز حیثیت دی جائے گی ۔ کہیں کہیں جوش اپنی شاعرانہ مصوری ، فکر و بصیرت رومان پسندی اور زبان و بیان پر قدرت کی وجہ سے دنیا کے سب سے بڑے رباعی گو عمر خیام کے ہم پلہ نظر آتے ہیں ۔
  ہر رنگ میں ابلیس سزا دیتا ہے 
انسان کو بہر طور دغا دیتا ہے 
کر سکتے نہیں گنہ جو احمق ان کو 
بے روح نمازوں میں لگا دیتا ہے
                 فراق ؔ ارد ور رباعی کا ایک ایسا باب ہے جس میں داخل ہونے کے بعد رباعی خالص ہندوستانی رنگ وپیر ہن ، احساسات و جمالیا ت ، نظر و فکر اور رنگ و بو میں نظر آتی ہے ۔فر اق نے رباعی کے باب میں ماضی کی تمام روایتوں کو پس پشت ڈال کر موضوعات میں خالص ہندوستانی احساسات و فکر اور حسن و جمال کو مر کز بنایا ہے ۔اس سے پہلے اردو رباعی ان الفاظ و تراکیب ، حسن و جمال اور تبسم سے محروم تھی ۔فراقؔ نے اپنی رباعیوں میں ہندوستانی عورتو ں کے حسن وادا کے مختلف روپ  پیش کیا ہے ۔ایک رباعی دیکھئیں،
آنگن میں لیے چاند کے ٹکڑے کو گھڑی
ہاتھوں پہ جھلاتی ہے اسے گود بھری
رہ  رہ کے ہوا میں جو لو کا  دیتی   ہے
گونج اٹھتی ہےکھلکھلاتے بچے کی ہنسی 


            ان کے بعد   حسرت، اصغرادر جگر نے اس طرف توجہ نہیں کی ۔فانی کی رباعیوں میں وہی حسرت خیزی، یاس انگیزی اور سوز وگداز ہے جوان کی غزل کی جان ہے ۔سیماب کی رباعیاں سیاسی ، قومی اور جنگی رجحانات کی آئینہ دار ہیں۔ خیال کی پاکیزگی ، بیان کی روانی ، عام جذبات انسانی کی ترجمانی ، اخلاقی تلقین اور حسن فطرت کی نقاشی محروم کی رباعیوں کی اہم خصوصیت ہے ۔
                     جدید شاعروں نے بھی رباعی کی طرف توجہ کی ہے اور ان میں مظفر حنفی ، کمار پاشی ، شمس الرحمن فاروقی مخمور سعیدی، باقر مہدی اور سلطان اختر وغیرہ کے نام اہم ہیں ۔   
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment