MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

مثنوی کی تعریف اور آغاز و ارتقاء

          مثنوی کی تعریف اور آغاز و ارتقاء

            مثنوی کا لفظ، عربی کے لفظ ”مثنیٰ “ سے بنا ہے اور مثنیٰ کے معنی دو کے ہیں۔ اصطلاح میں ہیت کے لحاظ سے ایسی صنفِ سخن اور مسلسل نظم کو کہتے ہیں جس کے شعر میں دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں قافیہ بدل جائے، لیکن ساری مثنوی ایک ہی بحر میں ہو۔ مثنوی میں عموماً لمبے لمبے قصے بیان کیے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول سے لیا جاتا ہے، شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے، یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان کرتے ہیں۔ مثنوی ایک وسیع صنفِ سخن ہے اور تاریخی، اخلاقی اور مذہبی موضوعات پر کئی ایک خوبصورت مثنویاں کہی گئی ہیں۔ 

           اردو میں مثنوی کی ابتدا دکن سے ہوئی اور اس دور میں کثرت سے مثنویاں لکھی گئیں۔ دکن کا پہلا مثنوی نگار نظامی  بیدری تھا۔ اس قدیم درو کے دیگر مثنوی گو شعرا میں رستمی، نصرتی، سراج دکنی، ملا وجہی، محمد قلی قطب شاہ وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد عادل شاہی اور قطب شاہی دور میں جتنی مثنویاں لکھی گئیں اتنی لکھنو اور دہلی میں بھی نہیں لکھی گئیں ۔ عادل شاہی دور میں جانم کی جونظمیں ملتی  ہیں وہ مثنوی کی ہیئت میں ہیں ۔ ابراہیم عادل شاہ ثانی کے دور میں عبدل نے ابراہیم نامہ میں ابراہیم کی ذات و صفات کو موضوع بنایا ہے۔ واقعہ نگاری ، منظر نگاری اور جزئیات نگاری اس مثنوی کی خصوصیات ہیں ۔ معاشرتی وتہذیبی نقطہ نظر سے بھی اس کی اہمیت ہے ۔

            سلطان محمد عادل شاہ کے دور میں ت مقیمی نے پہلی عشقیہ مثنوی’’ چندر بدن و مہار، غواصی کی مثنوی’’سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ سے متاثر ہوکر لکھی۔ اس میں دو قصہ  بیان کیا گیا ہے جو پورے دکن میں مشہور تھا۔ عاجز نے اپنی مثنوی یوسف زلینا‘‘ کی نیا احمد گجراتی اور لیلی مجنوں کی بنیاد ہاتھی کی مثنوی پر رکھی ہے۔ رشتمی نے ابن حسام کی مثنوی’’ خاور نامہ‘‘ کو اردو میں منتقل کیا۔علی عادل شاہ کے دور کا نصرتی بہت بڑا شاعر ہے ۔اس نے گلشن عشق ، تاریخ اسکندری اور علی نامہ مثنویاں ہیں ۔ گلشن عشق میر منو جروید مالتی کی داستان عشق کو بیان کیاگیا ہے ۔علی نامہ‘‘ ایک طویں رزمی مثنوی ہے جس میں علی عادل شاہ کے ابتدائی دس برسوں  کے دور حکومت کی تاریخ بیان کی گئی ہے ۔ تاریخ اسکندری میں بہلول خان اور شیداری کے دوروز و جنگ کا نقشہ موثر انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔

             محمد قلی قطب شاہ کے دور میں ملا وتھی نے ایک یاد گارمنٹنوی’’ قطب مشتری، لکھی جس میں مشتری اور قلی قطب شاہ کی داستان عشق بیان کی گئی  ہے ۔ اس کا پلاٹ سپاٹ ہے اور فوق فطری عناصر سے حیرت نا کی پیدا کی گئی ہے  ۔غواصی عبداللہ قطب شاہ کے دربار کا ملک الشعراء تھا جس کی مثنویاں’’ سیف الملوک و بدیع الجمال‘‘ ’’میناستونتی‘‘ اور ’طوطی نامہ دکنی ادب کا شاہکار میں ۔

                ولی دکنی نے صرف دو مثنویاں لکھیں۔ ان میں ایک روحانی کیفیت کا مرقع ہے اور دوسری شہرصورت کی تعریف میں

ہے ۔ در تعریف شہر صورت‘‘ ان کی بہت مقبول مثنوی ہے ۔ سراج نے کل بارہ مثنویاں لکھیں لیکن بوستان خیال‘‘ کو اہمیت ہے۔ یہ مثنوی اپنی روانی سادگی اور شدید مشتیہ کیفیات کے سے با کانہ اظہار کی وجہ سے پراثر ہے ۔ عارف الدین کی ’قصہ لعل و گہر اہم مثنوی ہے۔ 

                      شمالی ہند میں جب شعر و شاعری کا آغاز ہوا تو یہاں کے شعراء کے سامنے ولی سے نمونے موجود تھے جس کی پیروی میں حاتم نے حق اور قہوے کی تعریف میں مثنویاں لکھیں ۔ اس کے علاوہ آبرو اور فائز کی مثنویاں بھی وکی کے انداز کی ہیں لیکن شمالی ہند کے پہلے قابل ذکر مثنوی نگار میر تقی میر  ہیں جنھوں نے کل ۳۷ مثنویاں لکھیں جن میں دریائے عشق کو زیادہ شہرت حاصل ہوئی ۔اس کے علاوہ شعلہ عشق، اعجاز عشق، حکایت عشق اور مور نامہ بھی اہم مثنویاں ہیں ۔ میر کی مثنویاں ان کی شخصیت کی آئینہ دار ہیں ۔ان کے یہاں قصے کی نہیں بلکہ واقعاتی تاثر اور فضا کی اہمیت ہے ۔ان کی مثنویوں کا ایک اہم پہلو یہ ہے کہ یہ خود مطالعہ کی لکھے جانے کے بعد بلند ہوا ۔ 

              سحرالبیان‘‘ طویل اور بسیط مرقعوں کے اعتبار سے قدیم عہد کی مشہور مثنویوں کا مقابل نہیں کر سکتی تاہم ایک مختصر اور بلند پای ادبی کارنامے کی حیثیت سے اردو میں اپنی نظیر نہیں رکھتی ۔اس میں وہ ساری خصوصیات ایک ایسے تو ازان کے ساتھ یکجا ہوگئی ہیں جو ایک اعلی درجے کی مثنوی میں ہونی چاہئے ۔ اس کے علاوہ گلزارم‘اور’’رموز العارفین‘‘ بھی ان کی اہم مثنویاں ہیں۔

            ”سحرالبیان‘‘ کے بعد یہ دوسری لکھنو کی بلند پایہ مثنوی ہے۔ اس میں لکھنو کی تمام شاعرانہ نزاستیں اور لطافتیں موجود ہیں ۔ قصہ پرانا ضرور ہے لیکن اتنی خوش اسلوبی سے بیان کیا گیا ہے کہ دوبارہ قصے میں جان پڑ گئی ہے ۔ کردار، واقعات، مناظر قدرت خوبصورتی سے نظم ہوۓ ہیں ۔ تشبیبہ  استعارے تلمیحات، اختصار وایجاز اس مثنوی کی خوبیاں ہیں ۔”سحر البیان‘‘ کی طرح اس میں بھی انسانی نفسیات ،فطرت اور جذبات کے حسین مرقعے جگہ جگہ نظر آتے ہیں۔

              نواب واجد علی شاہ نے کئی مثنویاں لکھیں لیکن حزن اختر ‘‘ کے سواکسی میں کوئی بات نہیں۔ میشنوی ان کی اپنی داستان غم ہے ۔ اس لئے اس میں اثر پیدا ہو گیا ہے۔مثنوی’’غزالہ و ماہ پیکر‘‘اور’’ دریاۓ تعشق‘‘ بہت معمولی رتبہ رکھتی ہیں ۔’’بحرالفت‘‘ کا قصہ’’ سحر البیان اور "گلزار یم‘‘ کوملاکر تیار کیا گیا ہے۔ کھنو کے آخری دور کے مثنوی نگاروں میں شوق کی مثنوی کی سب سے زیادہ اہمیت  ہے۔ ان کی مثنویوں کا اصل محرک دراصل محاورات نسواں کا تحفظ تھا اس لئے ان کی مثنویاں  بہت مقبول ہوئیں۔ ان کی مثنویوالی زہر عشق ، فریب عشق ، لذت عشق اور بہار عشق میں سے ز ہرعشق‘‘ سب سے زیادہ موثر اور حزنی مثنوی ہے۔ مکالمے ان مثنویوں کے بہترین اجزاء ہیں۔ ان میں روز مرہ اور محاورے کا پورا لطف موجود ہے ۔ 

            شوق کے  بعد ناسخ ،مہر منیر اور صبادغیرہ نے بھی مثنویاں لکھیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ مومن، غالب اور ذوق جیسے با کمال سامنے آۓ تو غزل اپنے عروج کو پہنچ گئی لیکن مثنوی کوکوئی  خاص اہمیت حاصل نہ ہو سکی۔ ذوق مثنوی کی طرف متوجہ نہیں ہوۓ ۔۔ غالب کی صرف ایک مثنوی درصفت انہ ملتی ہے اس کے علاوہ مومن نے کئی مثنویاں لکھیں لیکن ان کو بھی شہرت  حاصل نہ ہوسکی جس کی وجہ تھی کہ میر حسن کے بعد سے مثنوی کا جو معیار قائم ہو گیا تھا ان پر یہ پوری نہیں اترتیں ۔اس کے علاوہ مثنوی نگاروں کے نام اقبال،آزاد،حفیظ جلندھری،شاد عظیم آبادی وغیرہ ہیں۔


SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment