کفن کا خلاصہ
"کفن پہلی بار ۱۹۳۵ء میں رسالہ جامعہ، دہلی سے شائع ہوا جو پریم چند کے آخری افسانوی مجموعہ واردات میں شامل ہے۔پریم چند سے قبل اردو افسانے کے نقوش انتہائی دھندلے ہیں۔ افسانہ بحیثت صنف ادب پریم چند کی دین ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے اردو کے افسانوی ادب کا رشتہ زمین سے جوڑا اور ہندوستان کی دیہی زندگی کے مسائل کو افسانوں کا موضوع بنایا۔ “پوس کی رات” ،“بوڑھی کاکی”” پنچایت” ،“عیدگاہ” ” نمک کا داروغہ” ،“بڑے گھر کی بیٹی” اور کفن نامی افسانے میں پریم چندنے کسی نہ کسی سماجی مسئلے کو اپنے افسانوں کا موضوع بنایا۔ انہوں نے اردو کے افسانوی ادب کو صحیح معنوں میں نہ صرف عکس حیات بلکہ تنقید حیات کے درجے پر پہنچا دیا۔
کفن پریم چند کی زندگی کی آخری تخلیقات میں سے ایک ہے جس میں زندگی بھر کا علم، تجربہ اور شعور کی جھلک موجود ہے۔کفن میں بالواسطہ یا بلاواسطہ یہ جذبہ اور فلسفہ باطنی سطح پرجھلکتا دکھائی دیتا ہے۔اس کےعلاوہ فنی سطح پر بھی جو پختگی اس افسانے میں دکھائی دیتی ہے وہ ان کے دیگر افسانوں میں کم نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کفن صرف اردو کا ہی نہیں بلکہ ہندوستان کے افسانوی ادب کے چند بڑے افسانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اردو کے بعض نقاد تو اسے دنیا کے بڑے افسانوں میں شمار کرتے ہیں۔
پریم چند کے شاہکار افسانہ "کفن کی ابتدا ہندوستان کے روایتی اور بوسیدہ قسم کےدیہات سے ہوتی ہے۔ ایک ایسا دیہات جہاں کسانوں اور مزدروں کی کثرت ہے ایسے ہی دوافراد یعنی باپ گھیو اور بیٹا مادھو رات کے وقت اپنی خستہ حالت جھونپڑی کے آگے الا و جلائےہوئے آلو بھون کر کھا رہے ہیں اور جھونپڑی کے اندر مادھو کی بیوی بدھیا در وزہ میں تڑپ تڑپ رہی ہے۔ چونکہ باپ اور بینا انتہائی کاہل اور بے حس ہیں اس لئے بدھیا کی چینکھوں کاان پر کوئی اثر پڑتا نہیں دکھائی دیتا ۔وہ اسی طرح آلو بھون بھون کر کھانے میں مصروف رہتے ہیں۔
باپ ایک دو بار کہتا بھی ہے کہ اُسے جا کر دیکھ آ۔ لیکن بیٹا بھی باپ کی چلا کی کو اچھی طرح سمجھ رہاہے۔ وہ اس لئے نہیں جا رہا کہ باپ اس کے حصے کے آلو بھی کھا جائے گا۔ دونوں آلو کھانے کےبعد اسی الاؤ کے ارد گرد لیٹ جاتے ہیں صبح جب آنکھ کھلتی ہے تو بدھیا تڑپ تڑپ کر مر چکی ہے۔ دونوں باپ بیٹے کو کفن دفن کی فکر ہوتی ہے۔ چنانچہ دونوں انتہائی ڈرامائی انداز میں آہ وزاری کرنے لگتے ہیں۔ گاؤں والے دونوں کو کام چور اور کاہل سمجھتے ہیں۔لیکن پھر بھی رسم قدیم کے مطابق ان کی مددکرتے ہیں۔ گاؤں والوں کی مدد کو نا کافی سمجھتے ہوئے دونوں باپ بیٹا گاؤں کے زمینداروں کےپاس جاتے ہیں۔ ان نا اہلوں سے نفرت کرنے کے باوجود زمیندار ان کی مدد کرتے ہیں ۔
ایک گھنٹےمیں ہی جب ان کے پاس پانچ روپے کی معقول رقم جمع ہو جاتی ہے تو یہ دونوں کفن خریدنے کی غر ض سے بازار جاتے ہیں جہاں راستے میں ایک شراب خانہ پڑ جاتا ہے۔ دونوں بغیر کسی طے شدہ ارادے کے ساتھ شراب خانے میں داخل ہو جاتے ہیں اور کفن کی رقم سے شراب خریدنے لگتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اور بھی کھانے پینے والی چیزیں وہ دونوں ان ب رووپیے سے کھاتے ہیں۔ غرض کہ دونوں دین و دنیا سے بے خبر ہو کر مستی میںسب کچھ گنوابیٹھتے ہیں۔ اس مقام پر پریم چند نے شراب خانے کا جو منظر پیش کیا ہے وہ ملاحظہ ہو؎
" آدمی سے زیادہ بوتل ختم ہو گئی ۔ گھیو نے دوسری پوریاں منگوا ئیں ۔ گوشت اور سالن اور چٹ پٹ کلیجاں اور تلی ہوئی مچھلیاں ۔ شراب خانے کے سامنے ہی دُکان تھی ۔ مادھولپک کر دو پتلوں میں ساری چیزیں لے آیا۔ پورے ڈیڑھ روپے خرچ ہو گئے صرف تھوڑے سے روپے بچ گئے ۔ دونوں اس شان سے بیٹھے پوریاں کھارہے تھے جیسے جنگل میںکوئی شیر اپنا شکار اُڑا رہا ہو ۔ نہ جواب دہی کا خوف ۔ نہ بدنامی کی فکر ۔۔۔سارا مے خانہ محور تماشہ تھا اور یہ دونوں مے کش محوت کے عالم میں کھائے جارہے تھے۔ پھر دونوںناچنے لگے۔ اچھلے بھی کو دے بھی ۔ گرے بھی منکے بھی۔ بھاؤ بھی بتائے اور آخر کار نشےمیں مست ہو کر وہیں گر پڑے۔“
پریم چند نے اس افسانے میں واضح کر دیا ہے کہ غریبی انسان کی تمام حسرتوں اورارمانوں کا قتل کر دیتی ہے جو انسان غریب ہے اسے اپنے دل میں باقاعدہ ایک قبرستان تیار کر لیناچاہئے تا کہ وہ اپنی خواہشوں کو اپنے دل میں ہی دفن کرتار ہے۔ اور بھوک ایک ایسی لعنت ہے جوانسان کو کفن بھی بیچنے تک مجبور کر دیتی ہے۔ اصل میں گھیسو اور مادھوکھا پی کر ۔ نشے میں مسرور ہو کرجوتا چھتے کودتے ہیں وہ شراب کا نشہ نہیں ہے، بلکہ زندگی میں پہلی بار پیٹ بھر کھانا کھانے کی مستی کاسرور ہے۔۔
0 comments:
Post a Comment