افسانہ اور ناول میں فرق
افسانہ کے متعلق عام طور پر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ وہ ناول کی ایک مختصر شکل ہے۔ اس خیال کو غلط فہمی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ افسانہ کی ابتدا ناول کے علاوہ دوسری چیزوں سے ہوئی۔ ناول سے افسانہ نے صرف آرٹ لیا اور اس آرٹ میں بھی ضرورت کے مطابق برابر تبدیلیاں ہوتی رہیں، یہاں تک کہ موجودہ صورت میں ناول اور مختصر افسانہ دو بالکل مختلف چیزیں ہیں۔
اس بات کا ثبوت کہ افسانہ اور ناول دو بالکل جدا گانہ چیزیں ہیں صرف یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے اچھے اچھے ناول نگار کامیاب افسانہ نگار نہیں بن سکے۔ اور بہت سے کامیاب نگار با وجود کوشش کے افسانہ نگاری کی دنیا میں کوئی ممتاز حیثیت حاصل نہیں کر سکے۔
ناول اور افسانہ میں سب سے نمایاں فرق ان دونوں کا طول اور اختصار ہے اور صرف اس فرق کی وجہ سے دونوں میں بہت سے فنی اور لطیف فرق پیدا ہو گیے ہیں۔
افسانہ اور ناول کے لیے سب سے پہلی چیز اس کا پلاٹ ہے۔ بغیر کسی خاص بلاٹ کے افسانہ اور ناول کا وجود غیر ممکن ہے لیکن ناول نگار اور افسانہ نگار دونوں اپنے اپنے مقصد کے لحاظ سے اس میں تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں۔ اور اس موقع پر افسانہ نگار کو زیادہ دقت نظر اور باریک بینی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اسے نفسیات کا ماہر ہونا پڑتا ہے۔ اسے ناول نگار سے زیادہ مشاہدہ کی ضرورت پڑتی ہے۔ وہ اچھی اور بری چیز کو پر کھے بغیر اسے اپنے کام میں نہیں لا سکتا۔ اس لیے کہ ناول طویل ہوتا ہے، اس میں ہر واقعہ زیادہ سے زیادہ تفصیل کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے اور ناول نگار ان تمام واقعات کو بغیر کسی پس و پیش کے بیان کر سکتا ہے جو اس کی نظر کے سامنے آئیں۔ اس کا نقطۂ نظر صرف ایک حقیقت ہیں (Realist) کا سا ہوتا ہے جو ہر چیز کو بالکل اسی طرح ہمارے سامنے پیش کرتا ہے جیسی اس کے مشاہدہ میں آئی ہے ۔ افسانہ نگار کو ایسے موقعوں پر صرف تصور آفرینی (Suggestibility) سے کام لینا پڑتا ہے۔ وہ لوگوں پر ان تمام واقعات کا اثر ڈالنا چاہتا ہے جو پیش آئے ہیں ناول نگار کو یہ کار انجام دینے میں دشواری ہوتی ہے۔
دوسری دقت جو ایک افسانہ نگار ایک ناول نگار کے مقابلہ میں زیادہ محسوس کرتا ہے، یہ ہے کہ وہ اپنے افسانہ میں صرف ایک واقعہ، ایک جذبہ، ایک تحریک یا ایک نکتہ بیان کر سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پلاٹ کو زیادہ سے زیادہ سادہ اور حقیقی بنا سکے، اس لیے اس کا اہم فرض یہ ہو جاتا ہے کہ وہ ہر لمحہ اپنی توجہ صرف اپنے پلاٹ پر رکھے تاکہ وہ پیچیدہ نہ ہونے پائے اور اس کا مقصد اور اس کا اثر کسی طرح کم نہ ہو۔ اس لیے اسے ناول نگار کے مقابلہ میں کہیں زیادہ باخبر، متوجہ اور مصروف رہنا پڑتا ہے تاکہ وہ اپنے پڑھنے والوں کے دلوں پر ایک ہی اثر (Impression) قائم رکھے۔ مختصر یہ کہ اس کی دقتیں ناول نگار سے کہیں زیادہ ہیں۔ اسے زیادہ باخبر، زیادہ متوجہ اور زیادہ سے زیادہ فن کا پا بند ہونا چاہیے۔
ناول نگار کی دنیا آزاد ہے اور اس کے بعد بھی اسے دلوں کو اپنے قبضہ میں کرنے کی زیادہ پرواہ نہیں۔ افسانہ نگار قید ہے۔ اس کی پابندیاں اس کے پاؤں کی زنجیریں ہیں۔ اس کے بعد بھی اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اپنے پڑھنے والے کے دل کو اپنے اثر میں رنگ دے۔ اس کے گوشے گوشے پر صرف یہ حکمراں ہو۔ اس پر وہی جذبہ گہرا سے گہرا طاری کر سکے جو خود اس کے دل میں بسا اور رچا ہوا ہے۔ وہ ہر شخص کو اپنے سحر کی رنگین دنیا کا باشندہ بنا لے۔ کیا اس کے بعد بھی اس سے انکار ہو سکتا ہے کہ افسانہ نگاری کا فن، اگر کوئی حقیقی معنوں میں اسے فن سمجھے تو، ناول سے کہیں زیادہ دشوار اور بلند ہے؟
پلاٹ کو چھوڑ کر ہم افسانوی کرداروں کی طرف توجہ کریں تو ہمیں افسانہ نگار کی دقتوں کا زیادہ اندازہ ہو جائے گا۔ طویل ناول میں ہم اس کے کرداروں کو مختلف شکلوں اور ر مختلف ، حالتوں میں دیکھتے ہیں اور انہیں دیکھنے دی کے بعد ار ان کے متعلق اپنی رائے قائم کر سکتے ہیں۔ انہیں کبھی ہم نے دوستوں سے، کبھی گھر والوں سے اور کبھی ہمسایوں سے ملتے جلتے، بات چیت کرتے، ان کے دکھ درد میں شریک ہوتے دیکھا ہے، اس لیے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہم نے ان کے متعلق جو رائے قائم کی ہے وہ ہماری ذاتی ہے۔
ناول نگار نے صرف واقعات بیان کر دئے اور اس کا فرض ختم ہو گیا ۔ مختصر افسانہ میں یہ سب چیزیں ایک ساتھ نہیں دکھائی جاتیں اس لیے افسانہ نگار کو اپنے کرداروں کو ہمیشہ کسی نہ میشه کسی نہ کسی خاص ی خاص اضطراب (Crisis) کی حالت میں پیش کبھی کبھی ان کرنا ہوتا ۔ ہے۔ بھی ان کا ارتقا : ا ارتقا بھی دکھانا لا نا لازمی سا ہو جاتا ہے اور ان صورتوں میں بھی انتخاب اور دقت نظر کی ضرورت پڑتی ہے اور ناول نگار کے مقابلہ میں ایک دشوار کام سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
0 comments:
Post a Comment