MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

واجد علی شاہ کی مرثیہ نگاری

         واجد علی شاہ کی مرثیہ نگاری

میر اقبال
        واجد علی شاہ نہایت رنگین مزاج حکمران تھا۔ وہ صرف اردو کا شاعر ہی نہیں تھا بلکہ اسے رقص و سرور کے رمُوز پر بھی کمال حاصل تھا۔ گانے، بجانے، ڈرامے، شاعری، راگ راگنی کا ماہر تھا۔ کتھک رقص کو اس نے از سر نو زندہ کیا تھا۔ رہس، جو گیا، جشن اور اس قسم کی کئی چیزوں کو اس نے نہ صرف زندگی دی تھی بلکہ ان کے ماہرین کو بھی اس نے لکھنؤ میں جمع کیا تھا۔واجد علی شاہ کے ہمعصر عبد الحلیم شرر لکھتے ہیں؎
       "واجد علی کا علمی مذاق نہایت پاکیزہ اور اعلیٰ درجہ کا تھا دراصل ان کے دو ہی ذوق تھے۔ ایک ادب و شاعری کا اور دوسرا موسیقی کا۔ عربی کے عالم نہیں تھے مگر فارسی میں دم بھر میں دو دو چار چار بند کی نثریں لکھ ڈالتے۔ یہی حالت نظم کی تھی۔ طبیعت میں اس قدر روانی تھی کہ سیکڑوں مرثئے اور سلام کہہ ڈالے اور اتنی کتابیں نثر و نظم میں تحریر کر ڈالیں کہ ان کا شمار بھی آج کسی کو نہ ہو گا۔"

      شخصی مرثیوں کی طرف ہمارے شعرائے کرام کی نظرِ التفات بہت کم رہی ۔ اردومیں شخصی مرثیے جتنے لکھے گئے ہیں انھیں بہ آسانی انگلیوں پر گناجاسکتا ہے ۔ کچھ تو شہادتِ حسینؑ کے واقعے سے جذباتی وابستگی کی بنا پر ‘ کچھ تقدس وکارِثواب کی خاطر۔بہر حال وجوہات جو بھی رہی ہوں ‘ اردو شاعری کے آغاز سے لے کر جدید دور میں جوشؔ اور وحید اخترؔ تک ہر دور میں کربلا ئی مرثیوں کی روشن روایت نظر آتی ہے ۔ا س کے بر خلاف شخصی مرثیوں کی طرف خاطر خواہ تو جہ نہیں دی گئی ۔

        جہاں دیگر شعرا نے مرثیہ نگاری میں جوہر دکھائے وہاں واجد علی شاہ نے بھی اپنے کمال فن کا مظاہرہ کیا۔ وہ مکمل یقین رکھتے تھے کہ آل محمدؐ نے میدان کربلا میں جو کردار پیش کیا وہی انسانی زندگی کے رہنما اصول ہیں۔ واجد علی شاہ کی طبیعت اتنی مواج ومضمون خیز تھی کہ دوکاتب ان کی ’’آمد‘‘ کو احاطۂ تحریر میں نہ لاپاتے تھے۔ مولوی عبدالحلیم شررؔ  اسی ضمن میں بیان فرماتے ہے کہ؎

’’میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اپنے درِ دولت سلطان خانے سے بوچے پر سوار ہوکر امام باڑہ سبطین آباد کی مجلس میں شریک ہونے کے لیے روانہ ہوئے۔ اورجو مرثیہ وسلام وہاں پڑھیں گے انہیں راستے میں تصنیف کررہے ہیں۔ دوکاتب ساتھ ساتھ چل رہے ہیں۔ ایک کو مرثیے کا بند تصنیف کرکے لکھواتے ہیں، اور دوسرے کو سلام کے اشعار۔ مرثیہ لکھنے والا جب تک مرثیہ کا بتلایا ہوا بند لکھے، سلام لکھنے والے کو سلام کا شعر بتلاتے ہیں اور دونوں کو اس قدر جلد جلد بتاتے ہیں کہ ایک کا بھی قلم رکنے نہیں پاتا۔ امام باڑہ دوفرلانگ بھی نہ ہوگا۔ مگر وہاں تک پہنچتے پہنچتے پورا سلام اور مرثیے کے چند بند لکھوادئیے۔ دو مختلف بحروں پر ایک ساتھ طبع آزمائی کرنا جس قدر دشوار امر ہے، اسکا اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں جو شعر کہنے کی مشکلوں سے واقف ہیں۔‘‘

(حزن اختر (مقدمہ) ص؍۱۳)

       واجد علی شاہ کے مرثیوں کا رنگ رواجی انداز سے الگ ہے۔ چہرہ سے بین تک جو آٹھ ادوار تھے ان پر انہوں نے زیادہ زور نہیں دیا اور آخری حصے یعنی ’’بین‘‘ پر زیادہ توجہ دی۔ ممدوں کے اوصاف بیان کرنے کے ساتھ ہی وہ اکثر ’’بین‘‘ کی طرف گریز کرجاتے ہیں۔ شاید انہیں آنے والے وقت کا احساس تھا کہ مرثیے کے متعدد اجزا کی طوالت، وقت کی تنگی کے تقاضے نہ پورے کرسکیں گے۔ یوں بھی مرثیے کی معنوی حقیقت، واقعہ شہادت اور بین ہے۔ جس کے لیے واجد علی شاہ مطلع ہی سے اس کا اظہار کردیتے ہیں کہ وہ کس کی شہادت کا ذکر کرنے جارہے ہیں۔ مثال کے طور پر چند مطلعے پیش ہیں؎

دنیا میں کوئی بھائی سے بھائی جدا نہ ہو

مسلم کے پسر ضیغم اندوہ وبلا ہیں

آئی جو خبر قتلِ شہنشاہ زمن کی

وابستہ ہے خدائی امام رضا کے ساتھ

جب حرم شاہ کے زنداں میں کھلے سر آئے

آنکھیں ہوئی شیریں کی پسند اشرف جاں کو

     اس کے علاوہ ایسے اور بھی بہت سے مرثیے ہیں جن کے مطلع ہی سے معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے حال میں کہے گئے ہیں۔

        واجد علی شاہ کے مرثیوں میں انفرادیت کا ایک اور رنگ تمام راگ راگنیوں کا ذکر کرتے ہوئے ان میں غم کا اظہار ہے۔ اور یہ ایسا مشکل بیان ہے جس کے لیے راگ راگنیوں اور ان کے اثرات سے بھی واقفیت ضروری ہے۔

         واجد علی شاہ نے اپنے مرثیوں میں اکثر نئے تجربات بھی کیے ہیں اور ایسی بحریں استعمال کی ہیں جو عام طور پر غزلوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ مثلاً:

بہار غم سے گلوں کا دامن مثال خارچمن عیاں ہے

اندھیری راتوں میں دل ہے روشن غم والم کی یہ داستاں ہے

(توشۂ آخرت، ص؍۶۲۱)

      اس کے علاوہ انہوں نے ایک مرثیہ مثنوی کے طرز پر بھی کہا ہے اور وہ اتنا مقبول ہوا کہ آج بھی گائوں اور دیہاتوں میں پڑھا اور پسند کیاجارہا ہے۔اس کا ایک شعر نمونہ کے طور پر ملاحظہ فرمائیں؎

عجب غم کی آندھی نے گھیرا ہے مجھ کو

اگر رات بھی ہو سویرا ہے مجھ کو

(دفتر غم وبحرِ الم، ص؍۶۹)

          واجد علی شاہ کے مرثیوں میں لفظ ومعنی کا رکھ رکھائو، شاعری اور عقیدے کی مناسبت، غزل کا امتزاج، مثنوی کا بیانیہ حسن، قصیدے کی جلالی شان اور مرثیے کا سوگواری انداز ایسا ملا ہواہے کہ قارئین کے دلوں پر بلاواسطہ اثر انداز ہوتا ہے۔

         واجد علی شاہ نے اپنے مرثیوں میں نیکی اور بدی، محبت اور نفرت، جنگ اور صلح کے وہ تمام تقاضے پورے کیے جو روز ازل سے آدم کی سرشت میں داخل ہیں۔ بدی اور خیر کی شکلیں اپنے اپنے انداز میں ان کے مرثیوں میں موجود ہیں اور یہی سب ان کو کامیاب مرثیہ گو کہنے کی ضمانت ہیں۔واجد علی شاہ کی اگر کوئی آرزو تھی تو وہ صرف مرثیے میں نام آواری کی۔ جس کا اظہار وہ اکثر کرتے رہتے تھے۔

یہ دعا رہتی ہے اللہ سے ہو نیک انجام

مرثیہ گوئی میں ہر آن بڑھے میرا نام

(توشۂ آخرت، ص؍۱۳۲۰)

          ان تمام خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہوئے واجد علی شاہ کا درجہ مرثیہ نگاروں میں متعین کرتے وقت ہم کہہ سکتے ہیں کہ انیسؔ ودبیرؔ کی مرثیہ نگاری کی میراث مونسؔ، انسؔ اور نفیس کے بعد واجد علی شاہ ہی پر ختم ہوگئی۔اور واجد علی شاہ کی شخصیت، ان کے مراثی بحیثیت مجموعی مرثیے کا جائزہ لینے کی کوشش نہیں کی گئی اور یہ موضوع ذہنوں سے اوجھل ہو گیا۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment