شبلی نعمانی
شبلی نعمانی کی پیدائش ایک مسلمان راجپوت گھرانے میں ہوئی۔ ان کے دادا شیوراج سنگھ نے کئی دہائیوں قبل حبیب اللہ اور مقیمہ خاتون کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ ان کا نام ایک صوفی بزرگ، ابو بکر شبلی کے نام پر "شبلی" رکھا گیا۔ بعد میں انھوں نے اپنے نام میں "نعمانی" کا اضافہ کر لیا۔
شبلی نعمانی عربی کا ایک رسالہ اسكات المغزى". وہابیوں کے رد میں تھا۔ ان پر اس ابتدائی تحریک کا اثر انا گہرا اور دیر پا ہوا کہ کہ ا انھوں نے امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت کی رعایت سے اپنے نام کے ساتھ " نعمانی کی نسبت کو لازم قرار دیا۔اس طرح ان کا نام شبلی نعمانی پڑا،
وہ اپنے بھائی مہدی کو علی گڑھ کالج میں داخل کرانے کے لئے گئے تھے۔ وہاں سرسید سے بھی ملاقات ہوئی ۔ پھر وہیں کے ہو رہے۔ سرسید نے انھیں مدرستہ العلوم کا پروفیسر مقررکیا۔ سید صاحب نے اسلامی علوم کے متعلق ایک عمدہ لائبریری جمع کر رکھی تھی شبلی کو اس کی بھی کشش تھی ۔ آرنلڈ سے بھی وہیں ملاقات ہوتی ۔ دونوں نے ایک دوسرے سے استفادہ کیا۔ غرض یہ ماحول تھا جہاں شبلی کے دل میں عقل پسندی کی طرف میلان پیدا ہوا۔ اس نئی فضا میں انھیں محسوس ہوا کہ مسلمانوں کے قدیم علوم کو نئے رنگ میں پیش کرنے کی ضرورت ہے علی الخصوص تاریخ کی تدوین نئے مذاق کے مطابق اور بھی ضروری ہے شبلی کے لئے عقل پسندی کی یہ تحریک نئی سہی مگر معقولات اور منطق سے ان کا تعلق نیا نہ تھا۔
انھوں نے مولانا محمد فاروق چریا کوٹی سے تعلیم پائی تھی جو اپنے زمانے میں معقولات کے امام تھے۔ اس کی وجہ سے ان کو معقولات سے ذہنی لگاؤ پہلے ہی سے تھا۔
جب تک سرسید زندہ رہے شبلی علی گڑھ کالج کے پروفیسر رہے ۔ وہ اگر یہ بعض مذہبی خیالات میں سید صاحب کے ہم آہنگ ہو گئے تھے لیکن انھیں سید قصات کا غلو اور افراط پسند نہ تھا۔ چنانچہ انھوں نے مختلف مواقع پر اس سے اظہار برارت بھی کیا ۔ بایں ہر شبلی پر فقل پسندی کا جو رنگ چڑھ چکا تھا اس کا اتنا آسان نہ تھا۔ اس میں انھوں نے سرسید کی رہنمائی قبول کی ۔ اس معاملے میں شبلی کا میدان عمل اپنے دوسرے رفقار سے کچھ الگ نہ تھا۔ انھوں نے اپنی اکثر تحریریں میں اس بات پر زور دیا کہ اسلام کو جدید علوم اور جدید تمدن سے مطابقت دی جائے اور فلسفہ حالی کے ان مسائل کی تشریح کی جائے جو مذہب سے بظاہر کراتے نظر آتے ہیں ۔
ان کے اور سرسید کے نظریہ دینی میں بظاہر فرق یہ ہے کہ سید صاحب جو قدیم کو ایسے رنگ میں پیش کرتے ہیں کہ اس سے تمدن اور زندگی کے نئے رجحانات کی تائید ہو ۔ اس کے بڑا ہو۔ برعکس شبکی جدید رجحانات کی تاویل اس طرح کرتے ہیں کہ اس سے قدیم عقائد کی تائید ملتی ہو۔ سرسید کی نظر جدید دور حاضر پر مرکوز رہتی ہے یشبلی کی نگاہ قدیم اصول پر جمی ہوئی ہے پیشبلی کا اشارہ پچھنے کی طرف ہے۔ سرسید کا اشارہ آتے کی طرف نشبلی نے سید صاحب کے خیالات سے اختلاف کرتے ہوئے ایک جدید علم الکلام کی بنیاد رکھی ۔ اس موضوع پر بہت سے مضامین کے علاوہ انھوں نے چارست میں لکھی ہیں ۔ علم الکلام ، الکلام ، الغزآئی. اور سوانح مولانا روم ۔ آخری دو کتابوں کا تبصرہ سوانح عمریوں کے ضمن میں آئے گا ۔ اس موقع پر علم الکلام اور الکلام کے اہم مضامین کا خلاصہ بیان کیا جاتا ہے ۔
0 comments:
Post a Comment