تعصب کا خلاصہ/تنقیدی جائزہ/سر سید کی مقالہ نگاری
مقالہ تعصب سرسید احمد خان کا مشہور و مقبول مقالہ ہے جو ۱۸۷۰ میں شائع ہوا۔یہ مقالہ رسالہ تہذیب الاخلاق کے جلد اول میں شامل ہے۔ سر سید احمد خان کے بیشتر مقالے ان کے تہذب الاخلاق میں شائع ہوئے ہیں۔ سرسید احمد خان کے مقالے کی خوبی یہ ہے کہ ان کے مقالوں میں مذہبی،اصلاحی، اخلاقی اور تہذیب و تمدن کی چاشنی موجود ہے۔ مقالہ تعصب ایک اصلاحی مقالہ ہے ۔
مقالہ تعصب کا آغاز سر سید کے ان الفاظ کے ساتھ ہوتا ہے
انسان کی بدترین خصلتوں میں سے تعصب بھی ایک بدترین خصلت ہے۔ یہ ایسی بد خصلت ہے کہ انسان کی تمام نیکیوں اور اس کی تمام خوبیوں کو غارت اور برباد کرتی ہے۔
تعصب سرسید احمد خان کا ایک اصلاحی مقالہ ہے۔ اس مقالے میں انھوں نے تعصب کے نقصانات کو نہایت عالمانہ انداز میں بیان کیا ہے۔ سرسید کے مطابق تعصب یعنی بے جا طرف داری یا حقیقت سے انکار، اظاہر ہو جانے کے بعد بھی اس سے انکار، انسان کی ایک بدترین خصلت ہے جو انسان کی تمام نیکیوں اور صلاحیتوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔
اگر متعصب کسی غلطی میں مبتلا ہوتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس سے نکل تو نہیں سکتا ہے کیوں کہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور غور و فکر کرنے کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔
اس کے علاوہ اگر متعصب کسی مفید کام کو اچھا سمجھتا بھی ہو تو صرف تعصب کے باعث اسے اختیار نہیں کر پاتا ہے۔ بقول سر سید
متعصب اگر کسی غلطی میں پڑتا ہے تو اپنے تعصب کے سبب اس غلطی سے نہیں نکل سکتا، کیونکہ اس کا تعصب اس کے برخلاف بات کے سننے اور سمجھنے اور اس پر غور کرنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر وہ کسی غلطی میں نہیں ہے، بلکہ سچی اور سیدھی راہ پر ہے تو اس کے فائدے اور اس کی نیکی کو پھیلنے اور عام ہونے نہیں دیتا۔
متعصب صرف ایسے لوگوں سے میل جول رکھناپسند کرتا ہے جو اس کے ہم رائے ہوتے ہوں اور باقی سب کو حقیر جانتا ہے اور اچھے لوگوں کی صحبت سے بیزار رہتا ہے۔ یہاں تک کہ متعصب مختلف علوم و فنون سے بھی قاصر رہتا ہے ۔
سرسید مزید کہتے ہیں کہ تعصب خواہ دینی باتوں میں یا دنیاوی نہایت نقصاندہ ہوتا ہے۔مسلمانوں میں بھی ایک خرابی آگئی ہے کہ بعض دفعہ جو شخص مذہب کے متعلق بڑا متعصب ہوتا ہے اور دوسری مذہب اور علوم وفنون کو حقیر سمجھتا ہے اس نہایت قابل تعریف اور ایمان کا پکا سمجھا جاتا ہے لیکن حقیقت میں یہ سب سے بڑی غلطی ہے۔ اہل ایمان ہونا بہت عمدہ صفت ہے لیکن متعصب ہونا نہایت برا صفت۔
اس سے مذہب کو بڑا نقصان پہنچتا ہے۔ ایسے شخص دوسروں کے اعتراضات کو جو اس کے مذہب سے متعلق ہوتے ہیں غور و فکر تو دور سننا تک پسند نہیں کرتے۔ لہذا مذہب ترقی کے بجائے تنزل کا شکار ہو جاتا ہے۔ تعصب میں سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ جب تک متعصب کے دل سے یہ نکل نہیں جاتا کوئی ہنر و فن سے اس میں جلوہ گر نہیں ہو پاتا ہے اور انسانیت کا ذرا سسا بھی سمجھ اس کے اندر نہیں پایا جاتا۔ انسان اتنا بد خصلتوں کا شکار ہو چکا ہے کہ تعصب جو بطور شیطان کے ہم میں سمایا ہو ہے ، ہم متعصب اسے فرشتہ سمجھ لیتے ہیں۔ یہ ایک متعصب شخص کی سب سر خرابی اور برائی ہے۔ بقول سر سید
انسان کے خراب و بر باد کرنے کے لئے شیطان کا سب سے بڑا داؤں تعصب کو مذہبی رنگت سے دل میں ڈالنا اور اس تاریکی کے فرشتے کو روشنی کا فرشتہ کر کر دکھلانا ہے۔
آخر میں سر سید اپنے قوم ملک کے لوگوں سے التجا کرتے ہیں کہ ہم سب کو اپنے دل میں تعصب کو نکال پھینکنا چاہیے نہایت سچائی کے ساتھ مذہب کا پابند ہونا چاہئیے۔ تمام بنی نوع انسان سے محبت و بھائی چارگی رکھنی چاہیے۔
سر سید کے مقالوں میں سنجیدگی کے ساتھ سادہ بیانی بھی ہے جو کہ سر سید کی مقالہ نگاری کی صفت ہے۔ان کے تقریباً تمام مقالوں میں تکرار کا فن پایا جاتا ہے۔ انہوں لفظوں کے تکرار سے مقالے میں ایک ندرت بخشا ہے۔ مثلاً
بہت ہی قومیں ہیں جو اپنے تعصب کے باعث سے تمام باتوں میں کیا اخلاق میں اور کیا اپنے علم و ہنر میں اور کیا فضل ودانش میں اور کیا تہذیب و شائستگی میں اور کیا جاہ و حشمت اور۔۔۔۔
المختصر سر سید احمد خان کا مقالہ تعصب ایک موثر مقالہ ہے۔ اس مکالے کے ذریعے سر سید نے ہم انسانوں میں موجود خصوصا ہم مسلمانوں میں موجود تعصب جیسی بدترین خصلتوں کو ہمارے اندر سے دور کرنے کا اصلاحی نظر پیش کیا ہے۔ یہ تعصب ہی ہے جو ہم مسلمان کو اپنے اور اپنوں سے دور رکھتا ہے اور ترقی کی راہ چلنے سے روکتا ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم تعصب کو دور پھینک کر آیں اور ترقی و تنزل کی راہ پر چلے ایک ساتھ ہو کر بنا تعصب کے۔a
0 comments:
Post a Comment