قصیدہ تضحیک روزگار
مرزا محمد رفیع سودا
ہے چرخ جب سے ابلق ایام پر، سوار
رکھتا نہیں ہے دست عناں کا بہ یک، قرار
جن کے طویلے بیچ کوئی دن کی بات ہے
ہرگز عراقی و عربی کا نہ تھا شمار
اب دیکھتا ہوں میں کہ زمانے کے ہاتھ سے
موچی سے کفش پا کو گٹھاتے ہیں وہ ادھار
تنہا ، ولے نہ دہر سے عالم خراب ہے
خست سے اکثروں نے اٹھایا ہے ننگ و عار
ہیں گے چنانچہ ایک ہمارے بھی مہرباں
پاوے سزا جو ان کا کوئی نام لے نہار
نوکر ہیں سو روپے کے دہانت کی راہ سے
گھوڑا رکھیں ہیں ایک ، سو اتنا خراب و خوار
نے دانہ و نہ کاہ نہ تیمار نے سئیس
رکھتا ہو جیسے اسپِ گلی طفل شیر خوار
نا طاقتی کا اس کے کہاں تک کروں بیاں
فاقوں کا اس کے اب میں کہاں تک کروں شمار
مانند نقش ، فعل زمیں سے بجز فنا
ہرگز نہ اٹھ سکے وہ اگر بیٹھے اک بار
اس مرتبے کو بھوک سے پہنچا ہے اس کا حال
کرتا ہے راکب اس کا جو بازار میں گزار
قصاب پوچھتا ہے مجھے کب کروگے یاد
امیدوار ہم بھی ہیں کہتے ہیں یوں ، چمار
جس دن سے اس قصائی کے کھونٹے بندھا ہے وہ
گزرے ہے اس نمط اسے ہر لیل و ہر نہار
ہر رات اختروں کے تئیں دانہ بوجھ کر
دیکھے ہے آسمان کی طرف ہو کے بے قرار
تنکا اگر پڑا کہیں دیکھے ہے گھانس
چوکے کو آنکھ موند کے دیتا ہے وہ پسار
خط شعاع کو وہ سمجھ دستۂ گیاہ
ہر دم زمین پہ آپ کو پکے ہے بار بار
گزرے وہ جس طرف سے کبھو اس طرف نسیم
باد سموم دے ہو وے وہیں گر کرے ، گزار
دیکھے ہے جب وہ تو بڑہ و تھان کی طرف
کھودے ہے اپنے سم سے کنوئیں ٹاپیں مار مار
ہے اس قدر ضعیف کہ اڑ جائے باد سے
میخیں گر اس کے تھان کی ہوویں نہ استوار
نے استخواں نہ گوشت نہ کچھ اس کے پیٹ میں
دھونکے ہے دم کو اپنے کہ جوں کھال کو لوہار
سمجھا نہ جائے یہ کہ دو ابلق ہے یا سرنگ
خارشت سے زبس کہ ہے مجروح بیشمار
یہ حال اس کے کچھ غرض یوں کہے ہے خلق
چنگل سے موذی کے تو چھڑا اس کو کرد گار
ہر زخم پر زبس کہ بھٹکتی ہیں مکھیاں
کہتے ہیں اس کے رنگ کو مگسی اس اعتبار
لے جاویں چور یا مرے یا ہو کہیں یہ گم
اس تین بات سے کوئی جلدی ہو آشکار
تنہا نہ اس کے نم سے ہے دل تنگ زین کا
خوگیر کا بھی سینہ جو دیکھا تو ہے ، نگار
القصہ ایک دن مجھے کچھ کام تھا ضرور
آیا یہ دل میں جائیے گھوڑے پہ ہو سوار
رہتے تھے گھر کے پاس قضارا وہ آشنا
مشہور تھا جنہوں کنے وہ اسپ نابکار
خدمت میں ان کی میں نے کیا جا یہ التماس
گھوڑا مجھے سواری کو اپنا دو ، مستعار
فرمایا جب انہوں نے کہ اے مہربان من
ایسے ہزار گھوڑے کروں تم پہ میں نثار
لیکن کسی کے پڑھنے کے لائق نہیں یہ اسپ
یہ واقعی ہے اس کو نہ جانوگے ، انکسار
صورت کا جس کا دیکھنا ہے گا گدھے کو ننگ
سیرت سے جس کے نت ہے سنگ خشمگیں کو عار
بد رنگ جیسے لید و بدبو سے چوں پیشاب
بدیمن یہ کہ اصطبل اوجڑ کرے ، ہزار
حشری ہے اس قدر کہ بحشر اس کی پشت پر
دجال اپنے منھ کو سیہ کر کے ہو سوار
اتنا وہ سرنگوں ہے کہ سب اڑ گئے ہیں دانت
جبڑے پہ بس کہ ٹھوکروں کی نت پڑے ہے مار
ہے پیر اس قدر کہ جو بتلائے اس کا سن
پہلے وہ لے کے ریگ بیاباں کرے شمار
لیکن مجھے ز روئے تواریخ یاد ہے
شیطاں ، اسی پہ نکا تھا جنت سے ہو سوار
کم رو ہے اس قدر کہ اگر اس کے نعل کا
لوہا گلا کے تیغ بناوے کبھو ' لوہار
ہے دل کو یہ یقیں کہ وہ تیغ روز جنگ
رستم کے ہاتھ سے نہ چلے وقت کار زار
مانند اسپ خانۂ شطرنج اپنے پاؤں
جز دست غیر کے نہیں چلتا ہے زینہار
0 comments:
Post a Comment