انشائیہ مردہ بدست زندہ کا خلاصہ
از فرحت اللہ بیگ
میر اقبال
اردو کے پہلے خاکہ نگار مرزا فرت اللہ بیگ نےاردو نثر میں کافی ترقی فراہم کی ہے۔انہوں نے اردو خاکہ کے علاوہ انشاپردازی پر بھی عبوریت حاصل کی ہے۔وہ ایک مشہور انشائیہ نگار بھی رہ چکے۔انہوں نے ایک طنزیہ انشائیہ بعنوان "مردہ بدست زندہ" کے لکھ کر لوگوں کے دلوں میں ایک عجیب سا احساس ندامت پیدا کر دیا ہے۔ ان کا یہ انشائیہ کافی شہرت کے حامل ہے جس کا خلاصہ پیش نظر ہے؎
فرحت اللہ بیگ نے اس انشائیہ کیے ذرئعہ یہ کہنا چاہا ہے کہ اب دور یہ آیا ہے کہ سچی محبت کی جگہ ظاہر داری (دکھاوٹی محبت)نے لے لی ہے۔ نہ اب جینے میں کوئی سچے دل سے کسی کا ساتھ دیتا ہے نہ مرنے کے بعد تک دلی درد کے ساتھ جاتا ہے۔پہلے کوئی عزیز مرتا تھا تو لگتا تھا کہ کوئی اپنا مرا ہے،اب تو لگتا ہے کہ اگر کوئی اپنا بھی مرا تو جیسے کہ غیر ہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک شخص کے مکان میں کسی صاحب کا انتقال ہو گیا ہے۔ کوئی بڑے شخص ہیں ۔اس کی میت پر سینکڑوں آدمی جمع ہیں۔موٹریں اور گاڑیاں بھی جمع ہیں ۔غریب اور امیر یعنی کہ سب لوگ موجود ہیں۔
بیچارے غریب جو ہیں وہ سلام کر کر اندر چلے جاتے ہیں کچھ پڑھ بھی رہے ہیںاور جو امیر ہیں وہ یا تو اپنی اپنی سواریاں میں بیٹھے ہیں یاپھر دروازہ پر کھڑے سگریٹ پی رہے ہیں۔ جو غریب آتا ہے وہ سلام کرتا ہوا اندر چلا جاتا ہے۔ جو امیر اتا ہے وہ ان باہر والوں میں مل کر کھڑا ہو جاتا ہے اور عجیب و غریب سوال بھی کرتا ہے۔ کیا مر گئے بھئی ہمارے تو بڑے دوست تھے اتنا کہا اور اپنی جیب سے سگریٹ کا بکس یا پانوں کی ڈبیا نکالی ۔لیجیے تعزیت ختم ہوئی اور رنجلی کا اظہار ہو چکا ۔اب دنیا بھر کے قصے چڑے ایک دوسرے سے نہ ملنے کی شکایت ہوئی، دفتر کی کاروائیاں دریافت کی گئی۔ یہ دیکھتے ہی دروازہ کی بھیڑ چھٹ گئی کچھ ادھر ہو گئے کچھ ادھر ہو گئے ۔
ابھی چند قدم ہی چلے ہوں گے کہ ان ساتھ والوں میں تقسیم ہونی شروع ہوئی اور چپ چاپ اس طرح کے کسی کو معلوم بھی نہ کہ کب ہوئی اور کیوں کر ہوئی۔ جن کو پیچھے رہنا تھا انہوں نے چال آہستہ کر دی جنہیں ساتھ چلنا تھا وہ ذرا تیز چلے ۔غرض یوں ہوا کہ یہ ساتھ والے تین حصوں میں بٹ گئے۔ آگے وہ رہے جو مرنے والے کے عزیز تھے یاجن کو جنازہ اٹھانے کے لیے اجرت بلایا گیا تھا۔
یہ تو ساتھ والوں کا حال ہوا ۔اب راستہ والوں کی سنیے: اگر میت کے ساتھ صرف دو چار آدمی ہیں تو کوئی پوچھتا بھی نہیں کہ کون جیا کون مرا ،اگر جنازہ کے ساتھ بڑے بڑے لوگ ہوئے تو دکان والے ہیں ننگے پاؤں بھاگے چلے آرہے ہیں۔ آئے مرنے والے کا نام پوچھا ،مرض دریافت کی اور یہ صرف اس لیے نام پوچھنے آئے تھے کہ رجسٹر میں مرنے والے کا نام خارج کر دیں۔
جنازہ قبرستان میں گیا تو سقے کا سارا خاندان اپنا اپنا کام چھوڑ کر جھونپڑی میں گھسا اور اناج لینے کو برتن لے آئے ۔ کسی کے ہاتھ میں پیندے تک کا تام چینی کا کٹورا ہے تو کسی کے پاس ٹوٹی رکابی ۔ کسی کے پاس مٹی کا پیالہ ہے تو کسی کے ہاتھ میں ٹوٹا ہوا چھاج ۔سچ میں خدارازق ہے۔ قبرستان والوں کو بھی گھر بیٹھے رزق پہنچاتا ہے۔
بہرحال اس ہلچل کے ساتھ دوست احباب اس مرنے والے کو پہلی منزل یعنی قبرستان تک پہنچا ہی دیتے ہیں۔ اب پٹاؤ کی نوبت آتی ہے۔ اس میں بھی وہی گڑبڑ شروع ہوتی ہے ۔کوئی کہتا ہے یہ کڑی نہیں وہ کڑی لو، کوئی کہتا ہے.... مفت سو روپے مار لیے اور کڑیاں دی تو ایسی۔ غرض کوئی کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ اور اسی گڑبڑی میں پٹاؤ بھی ہو جاتا ہے۔
انشائیہ نگار کہتا ہے کہ دیکھ لیا آپ نے اس زمانے کی میت کا رنگ جو میں نے عرض کیا تھا صحیح نکلا یا نہیں؟ اب سوائے اس کے کیا کہوں کہ خدا سے دعا کیجئے کہ اللہ اپنے ان بندوں کو نیک ہدایت دے ان کے دل میں درد پیدا کرے۔ یہ سمجھیں کہ احکام کیا ہے اور ہم کیا ہیں-؟
0 comments:
Post a Comment