اردو میں خاکہ نگاری کی روایت
میر اقبال
خاکہ نگاری کی روایت اردو میں زیادہ قدیم نہیں ہے۔ خاکہ لکھنے کی پہلی شعوری کوشش آب حیات میں نظر آتی ہے۔ آزاد نے شاعروں کی شکل و صورت، ان کی جسامت، وضع قطع ، حرکات و سکنات کو احاطہ تحریر میں لانے کی کوشش کی ہے۔ لیکن آزاد نے چہرہ سے زیادہ لباس پر توجہ دی ہے۔ آزاد نے فقروں کے ایجاد و اختصار عالم اسلوب کے حسن و جمال اور الفاظ کے برمحل استعمال سے ایک سماں باندھ دیا ہے۔ نقادوں نے آزاد پر تعصب کا الزام لگایا ہے۔ اپنے ہیر و ذوق کو تو انہوں نے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ سودا، انشاء، اور جرات کے متعلق فراہم کرتے وقت اپنی پسند کا رنگ چڑھا دیا ہے۔ لیکن آزاد نے میر، غالب اور مصحفی کے ساتھ نا انصافی کی ہے۔ انہوں نے خاکہ نگار کے لیے اصولوں کے خلاف کرداروں کو اچھا یا برا ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
خاکہ نگاری کی تاریخ میں فرحت اللہ بیگ کی مشہور تصنیف " نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی ( سال اشاعت 1927) کافی اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سوانحی طرز کا خاکہ ہے۔ نذیر احمد کی شکل و شباہت، عباس دفع قطع ، روز کی مصروفیات انتہائی دلچسپی سے پیش ہوئے ہیں۔ فرحت نے نذیر صاحب کے عادات و اطوار اور ان کے مزاج کی بھی نقاب کشائی کی ہے۔ اس خاکہ میں نذیرصاحب کی خامیوں کا ذکر زیادہ ہے لیکن خامیوں کو اجاگر کرتے وقت فرحت نے گہری ہمدردی اور دردمندی کا اظہار کیا ہے جس کی وجہ سے تمام بشری کمزوریوں کے باوجود ڈپٹی نذیر احمد ہمیں اچھے لگتے ہیں ۔ فرحت اللہ بیگ کی دوسری اہم کتاب دلی کا آخری یادگار مشاعرہ ہے۔ ناقدین نے اس جانب اشارہ کیا ہے کہ یہ کتاب ” آب حیات سے متاثر ہے۔ اس میں بھی اس تکنیک کو برتا گیا ہے اور معمل سلطنت کے آخری دور کے شعراء کا خاکہ کھینچا گیا ہے۔ فرحت نے اس میں شعراء کی اندرونی شخصیت کی جھلک پیش کی ہے۔ اس میں مومن کا خاکہ بہت خوب ہے ۔اس خا کہ میں مومن کی پوری شخصیت سمٹ آئی ہے۔
خاکہ نگاری کے سلسلے میں مولوی عبد الحق اور رشید احمد صدیقی کی خدمات سے انکار کرنا ادبی بدیانتی ہے ۔ چند ہم عصر مولوی عبدالحق کی مشہور زمانہ کتاب ہے۔ اس کتاب میں بابائے اردو نے اپنی جان پہچان کے معروف اور غیر معروف لوگوں کا خاکہ لکھا ہے۔ مولوی صاحب کے انداز تحریر پر سیرت نگاری کا اثر غالب ہے۔ انہوں نے زیر مطالعہ شخصیات کے نظریات پر تنقیدی نگاہ ڈالی ہے اور اس شخص کا مطالعہ کرتے وقت معاصر سماجی ، سیاسی اور معاشی حالات کا بغور جائزہ لیا ہے۔
رشید احمد صدیقی کی تین کتابیں گنجہائے گراں مایہ، ہم نفسانی رفتہ اور ذاکر صاحب خاکہ نگاری کی دنیا میں بیش بہا اضافہ ہیں۔ گنجہائے گراں مایہ میں تیرہ اور ہم نفسان رفتہ میں سات خاکے شامل ہیں ۔ انہوں نے شخصیت کے مقام اور مرتبہ کو پیش نظر نہیں رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک طرف انہوں نے ڈاکٹر ذاکر حسین اور پنڈت جواہر لعل نہرو کے خاکے تحریر کیے تو دوسری جانب کالج کے چیراسی، پنڈت کا بھی مرقع لکھا۔ رشید صاحب کا دلکش اور لطیف اسلوب اور ان کی شخصیت کی گرمجوشی ان کے مرقعوں میں زندگی اور رعنائی کا ضامن ہیں۔ انہوں نے خاکوں میں خود کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔ ایسی غیر جانب داری اور معروفیت قابل تعریف ہے۔ رشید احمد صدیقی اردو کے سب سے عظیم خاکہ نگار ہیں ۔
دوزخی" عصمت چغتائی کا شاہ کارخاکہ ہے۔ یہ عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ہے۔ اس میں افسانوی انداز غالب ہے۔ اس کا انداز بیان نوکیلا اور کھیلا ہے۔ اس میں عظیم بیگ کی شخصیت کا مکمل مرقع موجود ہے۔ اس خاکہ میں عصمت نے اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی کی ہزار برائیوں کی طرف اشارہ کیا ہے لیکن چونکہ عصمت کا نقطہ نظر ہمدردانہ ہے، اس لیے عظیم صاحب کی ہر کمزوری پر ہمیں ٹوٹ کر پیار آتا ہے اور ان کی ہر برائی دلکش معلوم ہونے لگتی ہے۔ منٹو کی بہن اقبال نے یہ خاکہ پڑھنے کے بعد منٹو سے کہا کہ موئی عصمت کیسی عورت ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کو بھی نہ چھوڑا ۔ تب منٹو نے اپنی بہن سے کہا کہ اگر اس کی موت کے بعد وہ ایسا ایک مضمون لکھنے کا وعدہ کرے تو وہ (منٹو) مرنے کو تیار ہے۔
سعادت حسن منٹو کا نام اردو ادب میں محتاج تعارف نہیں۔ منٹو نے افسانوں اور ریڈ یائی ڈراموں کے علاوہ خاکے بھی تحریر کئے ہیں " گنجے فرشتے (1952) اور لاوڈ اسپیکر (1955) منٹو کے خاکوں کے دو مجموعے ہیں۔ منٹو نے خاکہ نگاری کے میدان میں بھی اپنی راہ الگ نکالی ہے۔ خاکوں پر افسانے کا رنگ غالب ہے۔ منٹو نے خاکے کو بھی ایک کرداری افسانے کی طرز پر لکھا ہے۔ منٹو کے خاکوں میں کہانی سنانے کا انداز پایا جاتا ہے۔ خاکوں میں قاری کے لیے تجسس کا سامان فراہم کیا گیا ہے۔ منٹو کی خاکہ نگاری کا سب سے اہم وقف کرداروں کا نفسیاتی تجزیہ ہے ۔ اس کی ہر تحریر بے باکانہ ہے وہ بے خوف ہوکر شخصیتوں کو بے نقاب کرتا ہے کہ اس کے یہاں کوئی تصنع نہیں کوئی دیا کاری نہیں۔ وہ اپنے کرداروں کا میک اپ نہیں کرتا ہے۔ منٹو کے خاکوں کا سب سے بڑا عیب یہ ہے کہ وہ اکثر راہ سے ہٹ جاتے ہیں اور ادھر اُدھر کی باتیں کر کے پھر نفس مضمون کی طرف لوٹ آتے ہیں ۔ اس سے وحدت تاثیر مجروح ہوتی ہے۔،میر ا صاحب، باری صاحب، ستاری دیوی، مرلی کی دھن، اور بابور اؤ پٹیل، منٹو کے نمائندے خاکوں کے نام ہیں۔
جنوری 1955ء میں رسالہ ” نقوش لاہور کا شخصیات نمبر نکلا۔ کہنے کو تو یہ نمبر خاکہ نگاری سے متعلق ہے لیکن اس میں سوائے فراق گورکھپوری کے خاکے کہ جو مجتبی حسین کا لکھا ہوا ہے، باقی خاکے مختصر سوانح کی حیثیت رکھتے ہیں۔ فراق مجتبی حسین نے فراق کی شخصیت کے دھوپ چھاؤں کو پیش کیا ہے ۔ اس خاکہ میں فراق کی زندگی کے کم و بیش تمام پہلو سمٹ آئے ہیں۔
خاکہ نگاری کے سلسلے میں اشرف صبولی دہلوی کی تصنیف ” دہلی کی چند عجیب ہستیاں“ کا ذکر خاص طور پر کیا جاتا ہے۔ یہ کتاب بہت دلچسپ ہے۔ یہ اردو میں پہلی کتاب ہے جس میں کل 15 لوگوں کے خاکے لکھے گئے ہیں اور یہ تمام لوگ پر معروف ہیں۔اصل میں 1857ء کے ہنگامے کے بعد کے زمانے میں دہلی میں کہیں کہیں جو پرانے لوگ یادگار ماضی رہ گئے تھے، صبولی نے انہیں کے حالات بیان کئے ہے۔
شاہد احمد دہلوی کی کتاب گنجینہ گوہر (1962) بھی خاکہ نگاری کے میدان میں ایک کامیاب کتاب سمجھی جاتی ہے۔ اس میں کل سترہ خاکے شامل ہیں ۔ چہرہ نویسی کے فن میں شاہد صاحب کا کوئی مقابل نہیں۔ کچھ شاعر ادیبوں نے بھی اپنے ہم عصر شعراء اور ادباء کے خاکے لکھے۔ ایسے لوگوں میں کرشن چندر ، اوپندر ناتھ اشک اور شورش کا شمیری نے منٹو کے مرقعے لکھے۔
0 comments:
Post a Comment