MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

غالب کی مکتوب نگاری

 مرزا غالب : بحیثیت مکتوب نگار

میر اقبال

 بقول : خواجہ احمد فاروقی؎

           خاکم بدہن اگر دیوانِ غالب نہ ہوتا اور صرف خطوط غالب ہوتے تو بھی غالب،غالب ہی ہوتے ۔

        بے شک غالب جتنے بڑے شاعر ہیں اتنے بڑے نثر نگار بھی ہیں۔ اردو زبان جس رنگ وروپ میں ہم تک پہنچی ہے اس میں خطوط غالب کا بڑا ہاتھ ہے۔ اردو نٹر کی بنیادوں کو استوار کرنے میں خطوط غالب نے اہم رول ادا کیا ہے۔ یہ صیح ہے کہ اگر غالب کے خطوط نہ ہوتے تو سرسید کے مضامین بھی نہ ہوتے۔ اب ہم خطوط غالب کی خصوصیات کا مختصر جائزہ لے رہے ہیں۔    

               جدت پرستی:       غالب کے زمانے تک مکتوب نگاری کے جس انداز کا رواج تھا اسے وہ ” محمد شاہی روش“ کہتے تھے اور جسے وہ بے حد نا پسند کرتے تھے اور ہمیشہ اس پر طنز کرتے تھے۔ غالب نے مکتوب نگاری کی اس پرانی روش سے ہٹ کر حسب ذیل جدتیں پیدا کیں ؎

            مکتوب الیہ کو خوش کرنے کے لئے لمبے لمبے القاب کے برخلاف مختصر القاب لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ؎ ” میرا طریقہ ہے کہ مکتوب الیہ کو آواز دیتا ہوں اور کام کی بات شروع کر دیتا ہوں ۔ چنانچہ ان کے القاب بہت مختصر ہوتے ہیں مثلاً؎

          بھائی، مہاراج، برخوردار ، میاں ، میری جان، جانِ غالب، قبلہ وکعبہ، بھائی صاحب وغیرہ اور کہیں یہ انداز ہے جیسے یوسف مرزا ، اجی مرزا تفتہ، میاں مرزا تفتہ وغیرہ اور کہیں بنا القاب کے مدعا نگاری کا آغاز کر دیتے ہیں۔ کبھی کبھی لمبے القاب اور قافیے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔

          آج بھی یہ دستور ہے کہ خط کے خاتمے پر مکتوب نگار اپنا نام لکھ دیتا ۔ دیتا ہے اور نام سے پہلے بھی کچھ لکھنے کا دستور ہے۔ مثلاً آپ کا نیاز مند ، آپ کا خادم وغیرہ۔ مگر غالب نے خط کے آخر میں کہیں غالب لکھتے ہیں، کہیں اسد، کہیں اسد اللہ وغیرہ اور کہیں کہیں اپنے نام کا قافیہ ملایا ہے جیسے جواب کا طالب غالب، نجات کا طالب غالب وغیرہ۔ بہت سے خط ایسے بھی ہیں کہ اپنا نام لکھے بغیر ختم کر دیا ہے۔ میر سرفراز کے نام ایک خط کے آخر میں لکھتے ہیں: دیکھو ہم اپنا نام نہیں لکھتے، بھلا دیکھیں تو سہی تم جان جاتے ہو کہ یہ خط کس کا ہے۔

            خطوط میں تاریخ کی بھی جگہ مقرر ہے۔ شروع میں لکھ تو بالکل او پر کنارے پر در نہ بالکل نیچے لکھو۔ غالب ایسا بھی کرتے ہیں اور کبھی خط کی عبارت میں جہاں جی چاہا شروع، در میان اور آخر میں تاریخ لکھ دی ۔ کبھی کسی واقعے کا ذکر کرتے ہوئے تاریخ اور دن بھی بتا دیتے ہیں اور کچھ ایسے خط بھی ہیں جن پر تاریخ درج نہیں ۔ لیکن عام طور پر وہ تاریخ لکھتے ہیں بلکہ اکثر تو بجری کے ساتھ عیسوی سنہ بھی لکھ دیتے ہیں ۔ 

    شوخی و ظرافت:      غالب کے مزاج میں ظرافت بہت زیادہ تھی۔ اسی لئے مولانا حالی نے انھیں حیوان ظریف کہا ہے۔ ان کی کوشش رہتی تھی کہ ملاقاتی ان سے مل کر خوش ہو جائے۔ مکتوب الیہ ان کے خط سے لطف اندوز ہو۔ چٹکلے، لطیفے ، ظرافت آمیز با تیں ان کے خطوں میں جا بجا نظر آتی ہیں ۔ کسی نے غالب سے روزہ نہ رکھنے کی خط میں شکایت کی ۔ اسے جواب میں لکھتے ہیں ؎

                دھوپ بہت تیز ہے ۔ روزہ رکھتا ہوں ،مگر روزے کو بہلائے رکھتا ہوں ۔ کبھی ایک کٹورا پانی پی لیا کبھی حقے کاکٹ لگایا بھی روٹی کا ٹکڑا کھالیا "           

         ڈرامائی انداز:     غالب کے قلم سے ایسے بھی مکاتیب وجود میں آئے جو کمل ڈرامہ ہیں ۔ یہاں ہم کچھ سنتے نہیں بلکہ اپنی آنکھوں کے سامنے پیش آتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ ایک مثال دیکھئے؎

   ”اے جناب میرن صاحب ! السلام علیکم

    حضرت آداب۔

     کہو صاحب، اجازت ہے، میر مہدی کے خط کا جواب لکھنے کی۔

    حضور کیا منع کرتا ہوں۔ میں نے تو عرض کیا تھا کہ اب وہ تندرست ہو گئے ہیں۔ آپ جاتی رہی ہے۔ صرف پیچش باقی ہے۔ وہ بھی رفع ہو جائے گی ۔ میں اپنے ہر خط میں آپ کی طرف سے دعا لکھ دیتا ہوں ۔ پھر آپ کیوں تکلیف کریں؟“

          خود سوانحی عنصر:      غالب کے خطوط کو ان کی مکمل سوانح عمری کہا جا سکتا ہے کیوں کہ مصنف کی زندگی ، اس کے خاندان، اس کے آبا و اجداد کی ساری تفصیل ان خطوں میں موجود ہے۔ خواہ وہ گفتنی ہو یا نا گفتنی ۔ غالب کی زندگی کا کوئی واقعہ ایسا نہیں جو ان خطوں میں بیان نہ کیا گیا ہو۔ ان کے سارے غم اور ساری خوشیاں ، تمام کامرانیاں اور نا کامیاں ان اوراق میں نظر آجاتی ہیں۔ شراب نوشی کا ذکر، جوا کھیلنے کا ذکر جیل جانے کا حال، ایک ستم پیشہ ڈومنی کو مار رکھنے کا واقعہ، پنشن بند ہونا اور دوبارہ جاری ہونے کا قصہ ، بیماری، تنگدستی اور ناقدری وغیرہ کا بھی واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ غرض یہ کہ غالب کے خطوط ان کی زندگی کی مکمل کتاب ہے۔ عبدالغفور کے نام خط میں لکھا ہے؎

       " میں پانچ برس کا تھا کہ میرا باپ مرا۔ نو برس کا تھا کہ چا مرا۔ اس کی جاگیر کے عوض میرے اور میرے شرکائے حقیقی کے واسطے شامل جا گیر نواب احمد بخش خاں دس ہزار روپئے سال مقرر ہوئے ۔“

         غالب کے  عہد کی جھلک:      غالب کے خطوں میں ان کے عہد کی بچی تصویر نظر آ جاتی ہے۔ اس زمانے کا سب سے اہم واقعہ ۱۸۵۷ء کی ناکام بغاوت تھی جس نے ہزاروں گھر برباد کر دئیے اور دلی کو پوری طرح اجاڑ کر رکھ دیا۔ انھوں نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بہت کچھ جھیلا بھی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ان کی نظر سے نہیں بچیں۔ مکانوں کا منہدم ہونا، کنوؤں کا بند کیا جاتا، سڑکوں کا چوڑا ہونا سبھی کچھ انھوں نے لکھ دیا ہے۔

              ۵ر دسمبر ۱۸۵۷ء کے ایک خط میں لکھتے ہیں کہ ملازمان مغلیہ پر شدت ہے۔ باز پرس اور دارو گیر میں مبتلا ہیں۔ امیر غریب سب دہلی سے نکل گئے۔ جو رہ گئے تھے نکالے گئے۔ جاگیردار، پنشن دار، دولت مند، اہل حرفہ کوئی بھی نہیں ہے ۔ گھر کے گھر بے چراغ پڑے ہیں ۔ مجرم سیاست (یعنی سزا ) پاتے ہیں۔ جرنیلی بند و بست (مارشل لا ) ارسی سے آج تک یعنی پنجم  دسمبر تک بدستور ہے۔ باہر سے کوئی بغیر ٹکٹ (اجازت نامہ ) اندر نہیں آنے پاتا۔

            حسن بیان:      خطوط غالب میں ایک نہیں نثر کے کئی روپ نظر آتے ہیں۔ کہیں سادہ و سہل اسلوب اختیار کرتے ہیں تو کہیں رنگینی و رعنائی سے بیان میں دلکشی پیدا کرتے ہیں اور کہیں تعلیہ ؟ استعارہ کا استعمال کرتے ہیں۔ کسی خط میں مقفی عبارت نظر آتی ہے، کہیں خالص علمی نثر ہے اور کہیں استدلالی انداز اختیار کیا گیا ہے۔ کہیں افسانے کا رنگ ہے تو کہیں ڈرامے کا۔ خطوط غالب میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ 

         مرقع کشی:  غالب نے اپنے خطوں میں جہاں ایک طرف شعری وسائل سے کام لیا ہے وہیں تصویر کشی کا بھی کمال دکھایا ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال وہ خط ہے جس میں سرفراز حسین کو لکھتے ہیں ؎

            ”وہی بالا خانہ ہے اور وہی میں ہوں ۔ سیڑھیوں پر نظر ہے کہ وہ میر مہدی آئے ، وہ یوسف مرزا آئے ، وہ میرن آئے ، وہ یوسف علی خاں آئے ۔“

           تصور کا عالم ہے۔ ایک ایک دوست کو آتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

         اشعار کا استعمال:    غالب کی نثر کی خوبی یہ بھی ہے کہ انھوں نے خطوط میں اشعار کا برمحل استعمال کیا ہے جس سے عبارت میں حسن پیدا ہو گیا ہے۔ چودھری عبد الغفور کو لکھتے ہیں؎

       "  میں تو اب روز و شب اس فکر میں ہوں کہ زندگی تو یوں گذری اب دیکھئے موت کیسی غالب نے خطوں میں نہ صرف اردو کے اشعار استعمال کئے ہیں بلکہ فارسی کے اشعار بھی استعمال کئے ہیں ۔"

         ڈرامائیت:        غالب کے خطوں میں جا بجا ڈرامائی انداز نظر آتا ہے۔ بعض مکاتیب تو مکمل ڈرامہ ہیں ۔ مکتوب نگار کا یہ دعوئی کہ میں نے مراسلہ کو مکالمہ بنادیا بالکل درست ہے ۔ خطوط غالب میں اس کی بے شمار مثالیں ہیں۔ بہت سے خطوں کا آغاز ہی ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے۔ مثال دیکھئے؎

اے جناب میرن صاحب ! السلام علیکم

حضرت آداب۔

کہو صاحب ! اجازت ہے، میر مہدی کے خط کا جواب لکھنے کی ۔"        

              بیانیہ نثر:       بیانیہ نثر کے نمونے بھی خطوط غالب میں مل جاتے ہیں۔ تاریخ ، سفر نامے، سوانح قصے کہانیاں سب ہی اس کے زمرے میں آجاتے ہیں ۔ خطوط غالب میں ایسے کئی نمونے مل جاتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کو مناظر اور واقعات کی تصویر کشی پر غیر معمولی قدرت حاصل ہے۔ مثال ملاحظہ ہوں ؎

       " مرزا میاں شہاب الدین خاں! اچھی طرح رہو ۔ غازی آباد کا حال شمشاد علی سے سنا ہو گا۔ ہفتے کے دن دو تین گھڑی دن چڑھے احباب کو رخصت کر کے راہی ہوا۔ مقصد یہ تھا کہ پلکھورے رہوں ۔ وہاں قافلے کی گنجائش نہ پائی ۔ ہاپوڑ کو روانہ ہوا۔ دونوں برخوردار گھوڑوں پر سوار پہلے چل دیئے۔ چار گھڑی دن رہے میں ہاپوڑ کی سرائے میں پہنچا۔ دونوں بھائیوں کو بیٹھے ہوئے اور گھوڑوں کو ٹہلتے ہوئے پایا۔“

                غالب کے اس بیانیہ اسلوب نے اردو کے افسانوی ادب پر شعوری طور پر نہ ہی تو غیر شعوری طور پر گہرا اثر ڈالا ہے۔

           غرض غالب کے خطوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے زمانے میں دلی پر کیسی قیامت نونی اور وہاں کے رہنے والوں پر کیا کیا گذری تھی۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ان کی نظر سے نہیں کہیں۔ اسی لئے خطوط غالب کو اپنے عہد کا آئینہ کہا گیا ہے۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment