MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

پریم چند کی افسانہ نگاری

 پریم چند کی افسانہ نگاری

میر اقبال

       اردو میں با قاعدہ افسانہ نگاری کا آغاز پریم چند نے ہی کیا ۔ انھوں نے اپنی ادبی زندگی کا آغاز ناول سے کیا اور بعد میں افسانے کی طرف توجہ کی ۔ پریم چند نے افسانے کی بنیاد حقیقت پسندی پر رکھی۔ ان کا پہلا افسانہ انمول رتن ۱۹۰۹ء میں لکھا گیا۔ اس سال ان کے پانچ افسانوں کا مجموعہ ”سوز وطن“ کے نام سے شائع ہوا۔ اس میں انھوں نے قوم پرستی اور حب الوطنی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔

                   سوز وطن میں یہ  پیغام دیا گیا تھا کہ خون کا وہ آخری قطرہ جو ملک کی آزادی کے لیے گرے وہی دنیا کا سب سے انمول رتن ہے ۔ یہ کہانیاں اس دور کے سیاسی و سماجی احوال کی مکمل ترجمان تھیں۔ اور ہندوستان کے انقلاب آفریں رجحانات کی عکاسی کر رہی تھیں ۔ چنانچہ انگریزی حکومت نے اس کتاب کے تمام نسخے ضبط کر لیے ۔

      ان کا افسانہ نگاری کا دوسرا دور سوز وطن کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اب انھوں کے نواب رائے کے بجائے پریم چند کے نام سے لکھنا شروع کیا ۔ اس دور کی نہایت کامیاب کہانی بڑے گھر کی بیٹی ۱۹۱۰ ء میں لکھی گئی ۔ اس کہانی سے انھوں نے افسانہ نگاری کی باضابطہ داغ بیل ڈالی۔ ۱۹۱۵ ء میں ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ "پریم پچیسی" شائع ہوا ۔ ۱۹۱۸ء میں "پریم پچیسی " حصہ دوم شائع ہوا۔ ۱۹۲۰ء میں پریم بتیسی ۱۹۲۸ء میں مجموعہ "خاک پروانہ منظر عام پر آیا۔ ۱۹۳۰ء میں پریم چالیسی ۱۹۳۲ ء میں ' آخری تحفہ اور ۱۹۳۶ء میں " زاد راہ شائع ہوا۔ اس طرح انھوں نے ۲۸۰ کہانیاں لکھیں ۔ آخری دور کی نہایت مشہور کہانی "کفن" ہے جو 1936ء میں لکھی گئی۔ یہ کہانی پریم چند کی کا میاب ترین کہانی ہے ۔     

               پریم چند شکسپیر کی طرح فطرت انسان کے کامیاب نباض ہیں ۔ دکھتی رگوں پر انگلی رکھ دینادلوں کی کسک اور اضطراب چہرے سے بھانپ لینا ان کے لیے ایک عام بات ہے۔ بچپن سے لے کر شباب اور شباب سے لے کر بڑھاپے تک انسان پرطاری ہونے والی ساری کیفیات ہر طرح کے جذبات گونا گوں واردات خوشی ، غم ، محبت، غضب، غریبی، امیری، غلامی ، حاکمیت ، اقتدار ، مجبوری غرض سوسائٹی کا کون سا گوشہ اور انسانی قلب کی کون سی تہہ ہے جس میں جاکر وہ جھا تک نہیں آئے ہیں ۔ اسی جستجو اور بصیرت نے انہیں درجہ کمال عطا کیا ہے۔ وہ افسانوں کے پلاٹ ہندوستانی معاشرے کے گوناگوں پہلوؤں سے اخذ کرتے ہیں۔ انھوں نے ہندوستان کے دیہاتوں میں رہنے والے کسانوں کی زندگی کو پیش کیا ہے اور ہر گوشے کی تصویر کھینچتے ہیں ۔ انہیں ہندوستانی لوگوں سے غیر معمولی ہمدردی ہے۔ وہ ذات پات کی تفریق ا پسند کرتے ہیں نچلے متوسط طبقہ کے مسائل پر ان کی خاص نگاہ ہے۔ پروفیسر احتشام حسین لکھتے ہیں ؎

         " یہ پریم چند کا کام تھا کہ انھوں نے محنت کش عوام کو اپنے افسانوں اور ناولوں کا ہیرو بنایا اور اس دنیا کی تصویر کھینچی جو سب سے زیادہ جاندار سب سے زیادہ حقیقی اور سب سے زیادہ انسانیت اور دوستی کی مظہر تھی۔ وہ پہلے ادیب ہیں جنھوں نے شعوری طور پر ادب کے ذریعہ عوام کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش میں انسان دوستی کی طرف قدم اٹھایا۔"

           پریم چند نے اپنے افسانوں میں دیبات کی خوبصورت تصویر کشی کی ہے۔ وہ گاؤں میں ہی پلے بڑھے تھے اور ہندوستانی گاؤں ان کے روم روم میں بسا تھا انھوں نے گاؤں دیہات کی اصلیت کو جیوں کا تیوں افسانوں میں دکھا دیا اور خود لکھتے ہیں کہ میرے قصے اکثر کسی نہ کسی مشاہدے یا تجربے پر مبنی ہوتے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک مصلح قوم تھے اور ایک ایسے سماج کی تعمیر کرنا چاہتے تھے جہاں غریب  اور تم رسیدہ لوگ بھی سکون اور عزت ہے دو وقت کی روٹی کھا سکیں۔ اصلیت ،   واقعیت اور سادگی کو انھوں ے ہمیشہ مدنظر رکھا اس لیے ان کی تحریروں میں دلکشی پانی جاتی ہے۔

          ان کا اسلوب سادہ اور سلیس ہے، زبان بے تکلف ہے، تصنع  نہیں پائی جاتی ہے۔ انھوں نے ہندی زبان میں بھی افسانے لکھے ۔ انھوں نے اردو ہندی کو ایک دوسرے سے نہایت قریب کر دیا ۔ ان کا اسلوب بیانیہ ہے ، وہ چھے دار اسلوب کے قائل نہیں ۔ وہ اپنی زبان کے بارے میں منشی دیا نرائن نگم کو لکھتے ہیں؎

      "  میں بات کو سیدھی زبان میں کہہ دیتا ہوں رنگ آمیزی وانشا پردازی سے قاصر ہوں"۔ ضرورت پر وہ عربی فارسی الفاظ بھی استعمال کر لیتے ہیں ، انگریزی الفاظ کے اجتناب کرتے ہیں، ڈاکٹر قمر ریس لکھتے ہیں سرسید ، حالی بیلی کے بعد اگر کسی ادیب کا طرز تحریر اس کی شخصیت کی بھر پور نمائندگی کرتا ہے تو وہ پریم چند ہیں۔"

           وہ اپنے افسانوں کے کرداروں کو ماحول کے حساب سے بہت سنوار کر پیش کرتے ہیں ۔ انھوں نے افسانوں میں عام انسانوں کو چنا بقول ایک نقاد اپنے کرداروں کو شہزادوں سے بڑھ کر حسن اور پرستان کی پریوں سے زیادہ دل نوازی بخشی ان کے موضوعات سے زیادہ ان کا فن اہم ہے۔ انجمن ترقی پسند کے جلسے میں انھوں نے کہا تھا کہ ”ہماری کسوٹی پر وہ ادب کھرا اترے گا جس میں تفکر ہو، آزادی کا جذ بہ ہو، حسن کا جوہر ہو، تعمیر کی روح ہو، جو ہم میں حرکت ہنگامہ اور روشنی پا کرئے ۔ ان کے افسانوی مجموعے ہیں۔ سوز وطن، پریم چھپیسی ، پریم بیتی ، خاک پرواند، خواب و خیال فردوس بریں، پریم چالیسی ، آخری تحفہ، زاد راه، دوره قیمت، واردات نمک کا داروغہ، بڑے گھر کی بیٹی ، روشنی ، بڑے بھائی صاحب وغیر  افسانے کردار نگاری کا بہترین نمونہ ہیں۔ ان کی قائم کردہ روایت کی مدتوں کی افسانہ نگاروں نے پیروی کی۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment