MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

سر سید احمد خان اور اسباب ِبغاوتِ ہند Sir Syed Ahmad Khan aur Asbab e Baghwat e Hind

 سر سید احمد خان اور اسباب ِبغاوتِ ہند

     میر اقبال

     سرسید احمد خان کی پیدائش ۱۷ اکتوبر ۱۸۱۷ میں دہلی میں  ہوئی۔ان کے آباؤ اجداد ترک برلاس قبیلے سے تھے۔ شاہ جہاں کے عہد میں ہرات سے ہندوستان آئے۔ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد انھوں نے اپنے خالو مولوی خلیل اللہ سے عدالتی کام سیکھا۔ ۱۸۳۷ میں آگرہ میں کمیشنر کے دفتر میں بطور نائب منشی کے فرائض سنبھالے۔ ۱۸۴۱ اور ۱۷۴۲ میں مینی پوری اور ۱۸۴۲ اور ۱۸۴۶ تک فتح پور سیکری میں سرکاری خدمات سر انجام دیں۔ محنت اور ایمانداری سے ترقی کرتے ہوئے ۱۸۴۶ میں دہلی میں صدر امین مقرر ہوئے۔ دہلی میں قیام کے دوران میں آپ نے اپنی مشہور کتاب "آثارالصنادید" ۱۸۴۷ میں لکھی۔ ۱۸۵۷ میں آپ کا تبادلہ ضلع بجنور ہو گیا۔ ضلع بجنور میں قیام کے دوران میں انھوں نے اپنی کتاب "سرکشی ضلع بجنور" لکھی۔ جنگ آزادی ہند ۱۸۵۷ کے دوران میں آپ بجنور میں قیام پزیر تھے۔ اس کٹھن وقت میں انھوں نے بہت سے انگریز مردوں، عورتوں اور بچوں کی جانیں بچائیں۔ انھوں نے یہ کام انسانی ہمدردی کے لیے ادا کیا۔جنگ آزادی ہند ۱۸۵۷ کے بعد انھوں کو آپ کی خدمات کے عوض انعام دینے کے لیے ایک جاگیر کی پیشکش ہوئی جسے انھوں نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔۱۸۵۷ میں انھوں کو ترقی دے کر صدر الصدور بنا دیا گیا اور ان کی تعیناتی مراد آباد کر دی گئی۔ ۱۸۶۲ میں ان کا تبادلہ غازی پور ہو گیا اور ۱۸۶۷ میں وہ بنارس میں تعینات ہوئے۔

    ۱۸۷۷ میں ان کو امپریل کونسل کارکن نامزد کیا گیا اور ۱۸۸۸ میں آپ کو سر سید کا خطاب دیا گیا اور ۱۸۸۹ میں انگلستان کی یونیورسٹی اڈنبرا نے ان کو ایل ایل ڈی کی اعزازی ڈگری دی۔۱۸۶۴ء میں غازی پور میں سائنسی سوسائٹی قائم کی۔ اس کے کچھ عرصے بعد علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ نکالا۔ انگلستان سے واپسی پر ۱۸۷۰ میں رسالہ تہذیب الاخلاق جاری کیا۔ اس میں مضامین سرسید نے مسلمانان ہند کے خیالات میں انقلاب عظیم پیدا کر دیا اور ادب میں علی گڑھ تحریک کی بنیاد پڑی۔ سرسید کا کارنامہ علی گڑھ کالج ہے۔ ۱۸۸۷ میں ۷۰ سال کی عمر میں پینش لے لی اور اپنے کالج کی ترقی اور ملکی مفاد کے لیے وقف کردیا۔۱۸۶۹ میں وہ اپنے بیٹے سید محمود کے ساتھ انگلستان گئے تو وہاں انھیں دو مشہور رسالوں  کے مطالعے کا موقع ملا۔ یہ دونوں رسالے اخلاق اور مزاح کے خوبصورت امتزاج سے اصلاح معاشرہ کے علم بردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں کی تعلیم پر خاص توجہ دی۔ ظرافت اور خوش طبعی فطری طور پر شخصیت کا حصہ تھی۔ 

    مقالاتِ سرسید سے ان کے خیالات پر خاطر خواہ روشنی پڑتی ہے۔حصہ پنجم میں شامل اخلاقی مضامین عمر کی ہر منزل پر فرد کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ان مضامین میں سر سید احمد خاں نے نہایت آسان زبان میں مختلف موضوعات سے متعلق اپنے خیالات پیش کئے ہیں۔اپنی بات کو موثر بنانے کی غرض سے مضامین میں کہیں مثالیں دی ہیں کہیں روایتوں اور کہانیوں کا سہارا لیا ہے ،کبھی سخت الفاظ اور کبھی کھبی نہایت نرم الفاظ میں اپنی بات کہہ لے جاتے ہیں ۔

     رسالہ ’’ اسباب ِبغاوتِ ہند‘‘  کے نام سے ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ سر سید ۱۸۵۷ء کی جنگ کو بغاوت تسلیم کرتے تھے جبکہ اکثر ہندوستانیوں نے اسے آزادی کی پہلی لڑائی قرار دیا ۔وی ڈی ساورکرؔ نے اسے اپنی کتاب ’’دی انڈین وار آف انٖڈیپنڈنس‘‘ میں جنگِ آزادی کا نام دیاہے۔کارل مارکس نے بھی اپنی کتاب ’’دی فرسٹ انڈین وار آف انڈیپینڈینس ‘‘میں ۱۸۵۷ ء کی لڑائی کو جنگِ آزادی کا نام دیا۔ ہم اس پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔کتاب کے متن کا مطالعہ اور اس وقت کی سیاسی صورت حال کا تجزیہ کرنے کے بعد مجھے ایسا لگتا ہے کہ سرسید نے شعوری طور پر اس کا نام بغاوت ِ ہندرکھا ہوگا۔ کیونکہ جنگِ آزادی کا نام دینے سے ممکن تھا انگریز پہلی فرصت میں اس کتاب میں لکھی گئی باتوں کو نظر انداز کردیتے اور بہت ممکن تھا اس کتاب میں حکومت کے خلاف لکھی گئی باتوںکا اتنا اثر نہ ہو جتنا کہ سر سید کو توقع تھی ۔

   سر سید احمد خاں کا رسالہ "اسبابِ بغاوتِ ہند" کسی مسلمان کی طرف سے لکھا ہوا وہ پہلا سرکاری ڈاکومنٹ ہے جو انگریز نوآبادکار اور برطانیہ کی پارلیمنٹ میں بہت دیر تک زیرِ بحث رہا۔ اِس رسالے نے برطانوی راج کے اُس رویے کوتبدیل کر دیا جو ۱۸۵۷ کی بغاوت میں مسلمانوں کے رول کی وجہ سے پیدا ہوگیا تھا۔ اِس چیز کا اعتراف سبھی قلمکاروں، ارکانِ پارلیمنٹ اور حکمرانوں نے کیا ہے۔ 

     یہ رسالہ کسی ہندوستانی مسلمان کی ایسٹ انڈیا کمپنی دور کے اختتام اور ہندوستان کے براہِ راست تاجِ برطانیہ کے ماتحت ہوجانے کے ایام کی اہم ترین دستاویز ہے جو واضح کرتا ہے کہ انگریز کی حکمرانی میں وہ کیا خرابیاں تھیں جن کی وجہ سے ہندوستان میں جگہ جگہ بغاوت کی آگ پھیلی۔ 

     سر سید نے لکھا ہے کہ ۱۸۵۷ ء کی سر کشی کسی ایک بات سے نہیں ہوئی بلکہ بہت سی باتوں کا ایک مجموعہ تھا ۔(۷۲ ص َ۔ اسباب بغاوت ہند ) انہوں نے بغاوت کے پانچ اسباب کا ذکر اپنی کتاب میں کیا ہے جو اس طرح ہیں:

    اول: غلط فہمی رعایا۔

     دوم: جاری ہونا ایسے آئین و ضوابط اور طریقۂ حکومت کا جو ہندوستان کی حکومت اور ہندوستانیوں کی عادات کے مناسب نہ تھے یا مضرت رسانی کرتے تھے۔

    سوم: نا واقف رہنا گورمنٹ کا رعایا کے اصلی حالات و اطوار اور عادات سے اور ان مصائب سے جو ان پر گزرتے تھے اور جن سے رعایا کا دل گورمنٹ سے پھٹا جاتا تھا۔

    چہارم: ترک ہونا ان امور کا ہماری گورمنٹ کی طرف سے جن کا بجا لانا ہماری گورمنٹ پر ہندوستان کی حکومت کے لئے واجب و    لازم تھا۔

     پنجم: بد انتظامی اور بے اہتمامی فوج کی ۔

    اس رسالے کی اشاعت کے وقت ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ اسے چھپتے ہی اشاعت سے روک دیا گیا۔ اور پھر یہ رسالہ سر سید کی زندگی میں سامنے نہیں آسکا۔ پہلی بار یہ رسالہ سرسید کی وفات کے بعد ۱۹۰۱ میں "حیاتِ جاوید" میں شامل ہوا۔ حیاتِ جاوید سر سید کی سوانح عمری ہے جسے خواجہ الطاف حسین حالی نے لکھا ہے۔  

    اصل رسالہ سامنے نہ ہونے کی وجہ سے اِس کی کتابت میں قیاسی تبدیلیاں ہوتی رہیں۔ "بک کارنر" جہلم کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ اِس رسالے کا اصل عکس پہلی بار پیش کر رہا ہے جو حافظ صفوان محمد چوہان صاحب نے برٹش لائبریری لندن سے ڈاکٹر الیاس سلیم صاحب کے ذریعے حاصل کیا ہے۔ رسالے کا یہ وہ نسخہ ہے جس کے پروف کی اغلاط سر سید نے خود درست کر رکھی ہیں۔ 

     حافظ صفوان صاحب دنیائے علم و ادب کی جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ انھوں نے اِس رسالے کی تدوین میں بہت محنت کی ہے اور اِس علمی دستاویز کو دیکھ کر بابائے اردو مولوی عبدالحق، مشفق خواجہ، رشید حسن خاں، ڈاکٹر جمیل جالبی اور حافظ محمود شیرانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ اُنھوں نے تحقیق و تدوین کے ممکنہ تقاضوں کو جس خوبی سے نبھایا ہے وہ حوصلہ مند نقادوں کی مستحکم روایت رہی ہے۔

اِس کتاب میں کئی ایسی نادر چیزیں شامل ہیں جو اُس دور کے پورے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ اِن میں سے بعض دستاویزات پہلی بار اردو میں ترجمہ کرکے پیش کی جا رہی ہیں مثلًا  باغیوں کے لیے ملکہ وکٹوریہ کا معافی نامہ، اور بیگم حضرت محل کا جوابی فرمان یعنی کاؤنٹر پروکلیمیشن۔ ملکہ وکٹوریہ کا معافی نامہ ہمارے ادب و تاریخ میں "اعلانِ وکٹوریہ" کہلاتا ہے۔

کتاب کے انگریزی حصے میں ’’اعلانِ وکٹوریہ‘‘ سمیت بعض نادر چیزوں کے عکس شامل ہیں۔ اِن کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض شرپسند عوام نے ڈاک اور ٹیلیگراف کی سہولیات سے غلط فائدہ اٹھایا، اور منٹگمری کے مشہور جملے "الیکٹرک ٹیلیگراف نے انڈیا کو بچایا" کی وجہ سامنے آتی ہے۔

  المختصر سر سیداحمد خان کی پوری کی پوری شخصیت ہی قومی ہمدردی اور حب الوطنی سے عبارت ہے۔ان کی حب الوطنی اور قومی ہمدردی کی ایک مثال ان کی کتاب’’ اسبابِ بغاوتِ ہندــ‘‘ہے جو ۱۸۵۸ میں شائع ہوئی۔اس کتاب میں ۱۸۵۷ کی پہلی جنگ آزادی کے اسباب و علل کو زمینی سطح پر پیش کیا گیا ہے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ یا بغاوت کی اصل وجوہات کیا تھیں اس کو انہوں نے انگریز حکمرانوں کے سامنے مدلل انداز میں پیش کرنے کی جرات مندانہ کوشش کی۔انہوں نے ہندوستانی عوام کو بے قصور بتاتے ہوئے بغاوت کی آڑ میںہندوستانی عوام پر بالعموم اور مسلمانوں پر با لخصوص کئے جانے والے مظالم کی روک تھام کی کامیاب کوشش کی۔

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment