MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

Mir Anis Ki Marsia Nigari میر انیس کی مرثیہ نگاری

میر انیس کی مرثیہ نگاری 

میر اقبال

       جس طرح سودا قصیدہ گوئی میں میر غزل گوئی میں اور میر حسن مثنوی نگاری میں بے مثل ہیں اسی طرح میر انیس مرثیہ نگاری میں مہارت رکھتے ہیں ۔ اوّل تو میر انیس نے اپنے مرثیوں میں بہت سے نئے موضوعات کو شامل کیا ہے۔ اور اس طرح اس کے دامن کو وسیع کر دیا ہے۔ دوسرا انہوں نے شاعری کو مذہب سے وابستہ کرکے اس کو ارفع و اعلیٰ بنا دیا ہے۔ اس طرح اردو شاعری مادیت کے سنگ ریزوں سے نکل کر روحانیت کے ستاروں میں محو خرام ہو گئی ہے۔

      واقعہ کربلا کے کئی سو سال بعد صفوی دور میں فارسی شعراء نے مذہبی عقیدت کی بنا پر مرثیہ نگاری شروع کی جن میں محتشم کا نام سر فہرست ہے۔ اردو کے دکنی دور میں بے شمار مرثیے لکھے گئے۔ شمالی ہند میں بھی اردو شاعری کے فروغ کے ساتھ ساتھ مرثیہ گوئی کاآغاز ہوا۔ لیکن سودا سے پہلے جتنے مرثیے لکھے گئے ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سودا پہلے شاعر ہیں جنہوں نے اس کو فنی عظمت عطا کی اور مرثیے کے لئے مسدس کو مخصوص کر دیا جس کو بعد کے شعراء نے بھی قائم رکھا ۔ سودا کے بعد میر خلیق ، میر ضمیر وغیرہ نے مرثیے کو ترقی دی لیکن فنی بلندی ، امتیازی خصوصیات کے ساتھ اردو مرثیے کو جو ترقی میر انیس نے فراہم کرائی ہے ، اسے بھلایا نہیں جا سکتا۔  انیس نے جس خاندان میں آنکھ کھولی اس میں شعر و شاعری کا چرچا تھا ۔ اور وہ کئی پشت سے اردو ادب کی خدمت کر رہا تھا۔

            عمر گزری ہے اسی دشت کی سیاحی میں     

              پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں


       میر ضاحک ، میر حسن اور میر خلیق اپنے وقت کے ممتاز مرثیہ نگار تھے۔ الفاظ زبان کی صفائی ، اور صحت پر خاص زور تھا ۔ انیس نے جس وقت مرثیے کی دنیا میں قدم رکھا اس وقت لکھنو میں لفظی اور تصنع پر زیادہ زور تھا۔ اس ماحول میں انیس نے مرثیہ گوئی شروع کی۔  رام بابو سکسینہ مصنف ”تاریخ ادب اردو “ کہتے ہیں ۔

          "  انیس کی شاعری جذباتِ حقیقی کا آئینہ تھی اور جس نیچرل شاعری کا آغاز حالی اور آزاد کے زمانے سے ہوا، اس کی داغ بیل انیس نے ڈالی تھی انیس نے مرثیہ کو ایک کامل حربہ کی صورت میں چھوڑا جس کا استعمال حالی نے نہایت کامیابی سے کیا ہے۔"


      جذبات نگاری شاعری کی جان ہے۔ یہ صرف قدرتِ کلام ہی پر منحصر نہیں بلکہ جذبات نگاری کے لئے قادرالکلامی کے ساتھ فطرت ِ انسانی کا غائر مطالعہ بھی ضروری ہے۔ میرانیس کی وہ سب سے بڑی امتیازی خصوصیت جو ان کو اور تمام شعراء سے ممتاز کرتی ہے ، جذبات نگاری ہے۔ میرانیس کے یہاں جذبات نگاری کے ایسے ایسے نمونے ملتے ہیں جن کی مثالی اردو میں تو کیا دوسری زبانوں میں بھی ملنا دوشوار ہے۔ مثلاً امام حسین کی صاحبزادی حضرت صغریٰ بیمار ہیں  ، امام محترم ان کو اپنے ہمراہ لے جانا نہیں چاہتے ۔ وہ ضد کر رہی ہیں  ، اس وقت میرانیس ، حضرت صغریٰ کی زبان سے کہلواتے ہیں۔۔۔ 


           حیرت میں ہوں باعث مجھے کھلتا نہیں اس کا

            وہ آنکھ چرا لیتا ہے منہ تکتی ہوں جس کا


      اس طرح ایک اور نادر مثال اس موقع پر ملتی ہے جب قافلہ مدینہ سے روانہ ہو رہا ہے ۔ حضرت صغریٰ سب سے مل رہی ہیں اور بیماری کی وجہ سے ساتھ نہیں جا سکتی ۔ اس وقت کی کیفیات کی اس سے زیادہ درد انگیز اس سے زیادہ صحیح تصویر اور کیا ہو سکتی ہے جس کو میرانیس نے یہاں بیان کیا ہے۔


             ماں بولی یہ کیا کہتی ہے صغریٰ ترے قرباں

           گھبرا کے نہ اب تن سے نکل جائے مری جاں

               بے کس میری بچی تری اللہ نگہباں

             صحت ہو تجھے میری دعا ہے یہی ہر آں

            کیا بھائی جدا بہنوں سے ہوتے نہیں بیٹا

             کنبے کے لئے جانوں کو کھوتے نہیں بیٹا


       الفاظ میں کسی جذبہ، واقعہ یا منظر کھینچنا محاکات کہلاتا ہے۔ محاکات کی قدرت انیس میں اس درجہ بڑھی ہوئی تھی کہ خود مرزا دبیر معروف ہمعصر مرثیہ گو شاعر کے مداحوں کو میرانیس کی عظمت کو تسلیم کرنا پڑاہے۔ یہ محاکات نگاری کی خصوصیت ان کو ان کے دادا صاحب میرحسن سے ترکہ میں ملی تھی۔ میرانیس کا کمال یہ ہے کہ جس واقعہ کو بیان کرتے ہیں اس کی تصویرکھینچ دیتے ہیں بلکہ ان کی تصویر کبھی کبھی اصل سے بھی بہتر ہو جاتی ہے۔ اسی ضمن میں ایک بند ملاحظہ ہو۔۔۔ 


          چلنا وہ باد صبح کے جھونکوں کا دمبدم

           مرغانِ باغ کی وہ خوش الحانیاں بہم

        وہ آب و تاب نہر وہ موجوں کا پیچ و خم

          سردی ہوا میں پرنہ زیادہ بہت نہ کم

           کھا کھا کے اوس او ربھی سبزہ ہرا ہوا

            تھا موتیوں سے دامنِ صحرا بھرا ہوا


        میرانیس واقعہ نگاری کے مرد میدان ہیں ۔ بقول شبلی نعمانی   ” میرانیس نے واقعہ نگاری کو جس کمال کے درجہ تک پہنچایا اردو کیا فارسی میں بھی اس کی نظیریں مشکل سے ملتی ہیں۔“   میرانیس کی نگاہوں سے دقیق اور چھوٹے سے چھوٹا نکتہ بھی نہیں بچتا ۔ مثلاً ایک موقعے پر گھوڑے کی تیز روی کو لکھا ہے جب حد سے زیادہ تیز دوڑتا ہے تو اُس کی دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہوں کرمل جاتی ہیں ۔

        دونوں کنوتیاں کھڑ ی ہو کے مل گئیں

 یا جب حضرت امام حسین کے ترسانے کے لئے عمرو بن سعد نے پانی منگوا کر پیا اس موقعہ پر کہتے ہیں۔       

        ظالم نے ڈگڈگا کے پیا سا منے جو آب

        ایک موقعہ پر گھوڑے پر سوار ہونے کی حالت کو لکھا ہے۔               

              کچھ ہٹ کے ہاتھ آپ نے رکھا ایا ل پر

       ہٹ کے ایال پر ہاتھ رکھنا سواری کی مخصوص حالت اور تصویر کھینچنے کے لئے یہ حالت دکھانا ضروری ہے۔ یا پھر جب رفقائے امام نے نماز سے لڑائی کے لئے اُٹھے اس موقعہ پرلکھتے ہیں ۔                  

              تیار جان دینے پہ چھوٹے بڑے ہوئے

          تلواریں ٹیک ٹیک کے سب اُٹھ کھڑے ہوئے

    

       ڈرامہ کی طرح مرثیہ میں بھی کردار نگاری کو خصوصی اہمیت حاصل ہے۔ مرثیے کے کردار مثالی ہوتے ہیں ۔ جیسے امام حسین اور ان کے ساتھی حق و صداقت کے علم بردار اور یزیدی لشکر باطل کا پیروکار ۔ انیس کے کردار زندہ اور متحرک ہوتے ہیں ۔ یوں معلوم ہوتاہے کہ جیسے مرثیہ کا کردار سامع کا قریبی آدمی ہے۔ میرانیس کردار سیرت ، عمر اور مرتبے میں بڑی رعایت رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بند دیکھیے۔۔۔۔        

            گردن جھکا دی تانہ ادب میں خلل پرے

           قطرے لہو کے آنکھوں سے لیکن نکل پڑے

                 عمل خیر سے بہکانہ مجھے او ابلیس

             یہی کونین کا مالک ہے یہی راس و رئیس

             کیامجھے دے گا ترا حاکم مطعون و خسیس

          کچھ تردد نہیں کہدے کہ لکھیں پرچہ نویس

            ہاں سوئے ابنِ شہنشاہ ِ عرب جاتا ہوں

            لے ستمگر جونہ جاتا تھا تو اب جاتا ہوں

 

      میرانیس اکثر اپنے مرثیوں میں ڈرامائی کیفیت پیدا کرتے ہیں اور اس کیفیت کی کشمکش بہت زور دار ہوتی ہے۔ مثلاً انیس کے ایک مشہور مرثیہ”بخدا فارس میدان تہور تھا حر“ میں ڈرامائی تصادم کی بہت اچھی مثالیں ملتی ہیں۔ اس میں خیر و شر کی قوتوں کا ٹکرائو ڈرامہ اور مکالمات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہ بند دیکھیے۔۔۔۔ 

             گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار

            آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار

               پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار

            سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار

                پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا

            اک ابن فاطمہ کے لئے قحط آب تھا


          انیس نے تمام کلام میں بلند اخلاقی لہر دوڑائی ہوئی ہے۔ جن اخلاق  فاضلہ کی تعلیم انیس نے د ی ہے وہ کسی اور جگہ نہیں ملتی ۔ انہوں نے نفس انسانی کے انتہائی شرافت کے نقشے جن موثر طریقوں سے کھینچے ہیں ان کا جواب ممکن نہیں ۔ یوم عاشورہ جب امام حسین میدان کا رزار میں جامے کے لئے رخصت ہونے لگتے ہیں تو سب کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ 

                جس وقت مجھے ذبح کرے فرقہ ناری

                  رونا نہ سنے کوئی نہ آواز تمہاری

             بے صبروں کا شےوہ ہے بہت گریہ و زاری

             جو کرتے ہیں صبر ان کا خدا کرتا ہے یاری

              ہوں لاکھ ستم ، رکھیو نظر اپنی خدا پر

             اس ظلم کا انصاف ہے اب روز جز ا پر

      

    رزمیہ شاعری اگرچہ واقعہ نگاری ہی کی ایک قسم ہے لیکن وسعت اور اہمیت کے لحاظ سے اس کے لئے جداگانہ عنوان درکار ہیں۔ سید مسعود حسن رضوی ادیب کا کہنا ہے کہ انیس جنگ کا نقشہ خوب کھینچتے ہیں ، پہلوانوں کی ہئیت ان کی آمد کی دھوم دھام ، رجز کا زور و شور، اور حریفوں کے دائو پیچ خوب دکھاتے ہیں ۔ اس سلسلے میں شمشیر زنی ، نیزہ بازی ، تیراندازی ، اور شہسواری کی اصطلاحوں سے اکثر کام لیتے ہیں ۔ حرب و ضرب کے ہنگاموں کی ایسی تصویریں کھنچتے ہیں کہ میدان جنگ کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے۔ عام ہنگامہ جنگ کے علاوہ دو حریفوں کا مقابلہ اور ان کی گھاتیں اور چوٹیں اس تفصیل سے بیان کرتے ہیں کہ لڑائی کا سماں سامنے آجاتا ہے۔


              نقارہ دغا یہ لگی چوب یک بیک

 ُ                اٹھا غریو کوہ کہ ہلنے لگا فلک

          شہپور کی صدا سے ہراساں ہوئے ملک

           قرنا پھنکی کہ گونج اُٹھا دشت دور تک

          شور دہل سے حشر تھا افلاک کے تلے

       مردے بھی ڈر کے چونک پڑے خاک کے تلے


          میرانیس کے کلام کی ایک بڑی خصوصیت ان کی فصاحت و بلاغت ہے۔ میرانیس نے اردو شعراء میں سب سے زیادہ الفاظ استعمال کئے ہیں۔ مگر ان کے ہاں غیر فصیح الفاظ کا ملنا مشکل ہے اور یہی وہ خصوصیت ہے جو ان کو تمام دوسرے مرثیہ گو شعراء سے اورخود مرزا دبیر سے بھی یقیناً ممتاز اور نمایاں کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ بیان کا حسن اور طرزِ ادا کی خوبی اس درجہ موجودہے کہ وہ اردو ادب میں آج بھی اپنا حریف تلاش کررہی ہے۔ خود وہ حضرات بھی جو مرزا دیبرکے کلام کے مداح ہیں اس بات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ انیس کے یہاں دبیر سے زیادہ فصاحت و بلاغت اور حسنِ بیان موجود ہے۔ ان خصوصیات کی مثال ان کا پورا کلام ہے۔ اس لئے اشعار پیش کرنا تحصیل حاصل ہے۔ مثال کے طور پر یہ بندہ دیکھئے۔ ۔ ۔ 

             دولھا سے پہلے مجھ کو اُٹھا لے تو خوب ہے

          عورت کی موت خوب ہے شوہر کے سامنے

            سایہ کسی جگہ ہے نہ چشمہ نہ آب ہے

          تم تو ہوا میں ہو، مر ی حالت خراب ہے

            پیاسی جو تھی سپاہ خدا تین رات کی

        ساحل سے سر ٹپکتی تھیں موجیں فرات کی


        میر انیس نے تشبیہات اور استعارات کے نہایت دلکش نقش و نگار بنائے ہیں اور عجب خوشنما رنگ بھرے ہیں ۔ بقول شبلی ” اگر تکلف و تصنع سے کام نہ لیا جائے تو تشبیہات و استعارات حسنِ کلام کا زیور بن جاتے ہیں۔“

      

      انیس کی تشبیہہیں نہایت نیچرل سادہ اور پر تکلف ہوتی ہیں ۔ انیس تشبیہ مرکب کا استعمال کرتے تھے۔ اور عموماً محسوسات سے تشبیہ دیتے تھے۔ صنائع بدائع بھی کثرت سے انیس کے کلام میں موجود ہیں ۔ مگر خود انیس کی طبیعت کا رجحان اس طرف نہ تھا۔ لیکن چونکہ زمانہ کا عام مذاق یہی تھا۔ اس لئے انیس کوبھی کلام میں صنعتیں استعمال کرنا پڑیں۔ تاہم اکثر و بیشتر صنعتیں ایسی ہیں جو بغیر کسی کوشش کے خود بخود پیدا ہو گئی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ زیادہ پر کیف اور اثر انگیز ہے۔ میر انیس کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنی فطری خصوصیت یعنی حسنِ مذاق ،  لطافت ِتخیل ، موزونیتِ طبع اور معیار صحیح کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ جدت و ندرت کے ساتھ بے تکلفی اور آمد پائی جاتی ہے۔ تکلف اور بھدا پن بالکل نہیں ہے۔ یہ اشعار دیکھیے۔  ۔۔۔ 

            پانی نہ تھا وضو جو کریں وہ فلک مآب

         پر تھی رخوں پہ خاک تیمم سے طرفہ آب

            باریک ابر میں نظر آتے تھے آفتاب 

              ہوتے ہیں خاکسار غلام ابوتراب                     


         انیس کو خود اپنے روزمرہ و محاورہ پر ناز تھا۔ اور بجا طورپر ناز تھا ۔دراصل روزمرہ محاورہ اصل میں ایک ہی چیز کے دو نام ہیں ۔ لیکن بعض اہل تحقیق زبان دانوں نے ان میں فرق قرار دیا ہے اور وہ یہ کہ ایک سے زیادہ لفظ یا ترکیبیں حقیقی معنوں میں جس طرح اہل زبان استعمال کرتے ہیں ان کو روزمرہ اور مجازی معنوں میں مستعمل ہونا محاورہ کہلاتا ہے۔ اسی ضمن میں یہ اشعار دیکھیے۔۔۔ 

           آگے تھے سب کے حضرت عباس ذی حشم

         بڑھ بڑھ کے روکتے تھے دلیروں کو دمبدم

            تیغیں جو تولتے تھے ، ادھر بانی ستم

            کہتے تھے سر نہ ہوگا بڑھایا اگر قدم

 

        میرانیس کے ہاں مرثیوں میں قصیدے کی شان و شوکت، غزل کا تغزل ، مثنوی کا تسلسل ، واقعہ اور منظر نگاری اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ مولانا شبلی انیس کے بارے میں فرماتے ہیں - ” ان کا کلام صیح و بلیغ ہے ۔ زبان صحیح اور روز مرہ بڑی خوبی سے استعمال کیا ہے۔ انتخاب الفاظ مضمون اور موضوع کے لحاظ سے ہوتا ہے۔ جزئیات نگاری میں اُستادانہ مہارت ، جذبا ت کے بیان کا خاص سلیقہ ، منظر نگاری اور مظاہر قدرت کے بیان میں زور تشبیہات اور استعارات میں جدت اور ندرت ہے۔“

        انیس کے مرثیے رزمیہ شاعری کے شہ کار ہیں۔ مناظر ِ قدرت کے بیان انسانی جذبات کی مصوری اور رزم آرائی میں انہوں نے حیرت انگیز واقفیت کا ثبوت دیا ہے۔ فنی مہارت بلند تخیل اور مضمون آفرینی کی اس سے بہتر مثال کہیں اور نہیں ملتی ۔ بقول رام بابو سکسینہ” ادب اردو میں انیس ایک خاص مرتبہ رکھتے ہیں بحیثیت شاعر کے ان کی جگہ صف اولین میں ہے اور بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان کو زبان اردو کے تمام شعراءسے بہترین اور کامل ترین سمجھتے ہیں اور ان کو ہندوستان کاشکسپیر اور خدائے سخن اور نظم اردو کا ہومر اور ورجل اور بالمیک خیال کرتے ہیں۔“ 

SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment