MI ACADEMY

اس ویب سائٹ سے آپ کو اردو نوٹس اور کتابیں پی۔ ڈی۔ ایف کی شکل میں مفت میں دستیاب کرایا جارہا ہیں۔

غالب کی مکتوب نگاری Ghalib Ki Maktub Nigari

غالب کی مکتوب نگاری

      میر اقبال

    مکتوب نگاری زمانہ قدیم سے جذبات ، واقعات اور حالات کی ترسیل کا ذریعہ ہی ہے ۔ فارسی میں مکاتیب اور واقعات میں انشا پردازی کے اعلیٰ نمونے پیش کیے گئے ۔ لیکن یہ انشا پردازی محض لفظی بازی گری تھی اس میں جذبات اوراحساسات کا دخل بہت کم تھا ۔ مرصع و مسجع عبارت آرائی ہوتی تھی ۔ اردو خطوط میں بھی اسی کی تقلید کی گئی ۔
     غالب کے خطوط میں تین بڑی خصوصیات پائی جاتی ہیں اول یہ کہ انہوں پرتکلف خطوط نویسی کے مقابلے میں بے تکلف خطوط نویسی شروع کی۔ دوسری یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی میں اسلوب اور طریقِ اظہار کے مختلف راستے پیدا کیے۔ تیسرے یہ کہ انہوں نے خطوط نویسی کو ادب بنا دیا۔ اُن کے متعلّق کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ”محمد شاہی روشوں “ کو ترک کرکے خطوط نویسی میں بے تکلفی کو رواج دیا اور القاب و آداب و تکلفات کے تمام لوازمات کو ختم کر ڈالا۔
      مرزا غالب نے اس فرسودہ روش کو ترک کر کے اردو خطوط نویسی میں انقلاب لایا ۔ انہوں نے خطوط کو زندگی کی حرارت بخشی ۔ سادہ اور عام فہم زبان کا استعمال کیا جس میں بے تکلف عبارتیں ہوتیں ، مسجع و مرصع عبارتوں سے پاک ۔ غالب خط نہیں لکھتے تھے بلکہ بات چیت کرتے تھے ۔ گرچہ یہ مکالمہ یک طرفہ ہوتا تھا لیکن مکتوب الیہ کو ایسا محسوس ہوتا تھا گویا غالب ان کے سامنے ان سے گفتگو کر رہے ہیں.
    اردو ادب کی اس صنف مکتوب نگاری میں غالب کے خطوط کو نمایہ مقام حاصل ہے . غالب کے خطوط کے دو مجموعے عود ہندی اور اردوئے معلیٰ کے نام سے شائع ہو کر مقبول عام ہو چکے ہیں۔
      مرزاغالب کی ظرافت اور خوش طبعی کے بارے میں مختلف واقعات مشہور ہیں۔وہ اپنی روزمرہ زندگی میں جو ظریفانہ انداز رکھتے تھے وہی شوخی ان کے خطوط میں بھی دکھائی دیتی ہے۔مولاناحالی نے کہا تھا ۔ان کی تحریر کی شوخی نے ان کے خطوط کو ناول اور ڈرامہ سے بھی زیادہ دل چسپ بنادہا ہے۔حالی مزید بیان کرتے ہیں کہ مرزاغالب کو حیوان ناطق کی بجائے حیوان ظریف کہنا چاہیے۔
   شاعروادیب معاشرے کی آنکھ اور زبان ہوتے ہیں۔کوئی بھی ادیب اپنے اردگرد کے ماحول سے کٹ کر نہیں رہ سکتا۔اوہ پھر مرزاغالب  کی تو اس حوالے سے بھی سیاست پر نظر قرار دی جاسکتی ہے کہ وہ بہادرشاہ ظفرکےدربار سے وابستہ رہے۔انگریزوں سے بھی ان کے تعلقات تھے۔اس وقت دہلی سمیت پورے ہندوستان میں فسادات ہورہے تھے۔چنانچہ ان حقائق کی واضح تصویر کشی غالب کےخطوط میں ملتی ہے۔وہ میرمہدی مجروح کو ایک خط میں رقم طراز ہیں کہ گوروں کی پاسبانی پر قناعت نہیں ہے بلکہ لاہوری دروازے کا جمعدار راستے میں مونڈھا بچھا کر بیٹھتا ہے۔جو شخص آتا ہے اسے بید لگتے ہیں۔ان مرزاغالب کےخطوط میں جابجا دلی کےدگرگوں حالات کی جھلکیاں ملتی ہیں۔   
      خط کو آدھی ملاقات کا بھی نام دیا جاتا ہے چنانچہ یہ امر قابل لحاظ ہے کہ خط سےانسان کی سیرت و کردار کا پتہ چلتاہے۔ مرزاغالب کےخطوط سے ان کی ایک چلتی پھرتی تصویر ابھرتی ہے۔ غالب کا ننھیال خاصہ امیر تھا۔ مرزاغالب کا پچپن بڑی عیش و عشرت میں بسر ہوا تھا ۔انہیں شراب پینے اور جوا کی بھی عادت تھی۔ مرزاغالب نے زندگی میں تنگ دستی بھی دیکھی۔وہ بے باک اور نڈر بھی تھے۔وہ دوستوں سے جس طرح بے تکلفی سے پیش آتے غالب کےخطوط اب سب باتوں کا بھی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ غالب کی کتاب اردوئےمعلی غالب کےخطوط کی نمائندہ کتاب ہے۔
غالب کے انداز نگارش کی ممتاز ترین خصوصیت یہ ہے کہ جو کچھ لکھتے تھے بے تکلف لکھتے تھے۔ ان کے خطوط کا مطالعہ کرتے وقت شائد ہی کہیں یہ احساس ہو کہ الفاظ کے انتخاب یا مطالب کی تلاش و جستجو میں انہیں کاوش کرنی پڑی۔ عام ادبی بول چال کا سہارا لے کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ غالب کی تحریر ”آورد‛‛ نہیں”آمد“ہے۔ مولانا حالی کے الفاظ میں، ” مرزا سے پہلے کسی نے خط کتابت کا یہ انداز اختیار کیا اور نہ ان کے بعد کسی سے اس کی پوری پوری تقلید ہو سکی۔“انھوں نے القابات کے فرسودہ نظام کو ختم کر دیا۔ وہ خط کو میاں، کبھی برخودار، کبھی مہاراج، کبھی بھائی صاحب، کبھی کسی اور مناسب لفظ سے شروع کرتے ہیں۔ اس بے تکلفی اور سادگی نے ان کے ہر خط میں ڈرامائی کیفیت پیدا کردی ہے۔ مثلا یوسف مرزا کو اس طرح خط شروع کرتے ہیں، ” کوئی ہے، ذرا یوسف مرزا کو بلائیو، لو صاحب وہ آئے۔“
 
       غالب کی تحریر کی جان جدّت طرازی ہی ہے۔ وہ بنے بنائے راستوں پر چلنے کی بجائے خود اپنا راستہ بناتے ہیں۔ عام اور فرسودہ انداز میں بات کرنا اُن کا شیوہ نہیں۔ انہوں نے خطوط نویسی کو اپچ اور ایجاد کا طریقۂ نو بخشا، جو ادبی اجتہاد سے کم نہیں، میرمہدی کا ایک خط یوں شروع ہوتا ہے۔ ”مار ڈالا یار تیری جواب طلبی نے“ , ایک اور خط کی ابتدا یوں کرتے ہیں، ”آہا ہاہا۔ میراپیارا مہدی آیا۔ آؤ بھائی، مزاج تو اچھا ہے۔ بیٹھو۔“غالب کی اس جدت پسندی نے مراسلے کو مکالمہ بنا دیا۔ اپنی اس جدّت پسندی پر خود اظہارِ خیال کرتے ہیں کہ، ” میں نے وہ اندازِ تحریر ایجاد کیا ہے کہ مراسلے کو مکالمہ بنا دیا ہے۔ ہزار کوس سے بہ زبانِ قلم باتیں کرو، ہجر میں وصال کے مزے لیا کرو۔“
      غالب نے نامہ نگاری کو مکالمہ بنا دیا ہے جس میں مکالمے بھی ہیں اور بات چیت کی مجلسی کیفیت بھی: ”بھائی تم میں مجھ میں نامہ نگاری کاہے کو ہے۔ مکالمہ ہے۔“باتیں کرنے کا یہ انداز نثر میں زندگی کی غمازی کرتا ہے۔ اور اسلوب کا یہ انداز ہے جو انشائیہ نگاری کے لیے نہایت ضروری ہوتا ہے۔ اردو میں انشائیہ کی صنف غالب کے بعد سرسید کے زمانے میں ظہور میں آئی۔ لیکن اس صنفِ ادب کے لیے غالب کے اسلوبِ گفتگو نے زمین پہلے سے ہموار کردی تھی۔ سرسید اور اُن کے رفقا نے جب انشائیے لکھنے شروع کیے تو مکاتیبِ غالب کا سادہ، صاف اور نکھرا ہوا اسلوب ان کے کام آیا۔
غالب نے اپنے خطوط میں مکالمہ نگاری کا جو اسلوب اپنایا ہے اس میں ڈرامائیت کی وہ ادا نظر آتی ہے جو آگے چل کر ڈراما نگاری کا ایک لازمی حصہ بن گئی۔ اردو کے افسانوی ادب میں ناول اور ڈرامے کی اصناف بھی غالب کے بعد ظہور میں آئیں۔ لیکن خطوط غالب کے یہ پیرایہ ہائے بیان ان اصناف ادب کے لیے اظہار و بیان کی راہیں تیار کر گئے۔ مثال کے طور پر ایک جگہ لکھتے ہیں۔
     غالب: بھئی محمد علی بیگ، لوہاروں کی سواریاں روانہ ہو گئیں؟
     محمد علی: حضرت ابھی نہیں!
     غالب: کیا آج جائیں گی؟
     محمد علی: آج ضرو ر جائیں گے! تیاری ہو رہی ہے!“
     غالب آپ بیتی یا سر گزشت نہیں لکھ رہے تھے۔ صرف احباب کے نام خط لکھ رہے تھے لیکن ان خطوط میں انہوں نے اپنی زندگی کے متعلق اتنا کچھ لکھ دیا ہے اور اس انداز سے لکھ دیا ہے کہ اگر اس مواد کو سلیقے سے ترتیب دیا جائے تو اس سے غالب کی ایک آپ بیتی تیار ہو جاتی ہے۔ اردو ادب میں آپ بیتی کو بعد میں اپنایا گیا لیکن مکاتیب ِ غالب میں ان کی خود نوشت سوانح نے اردو میں آپ بیتی کے لیے زمین ہموار کر دی تھی۔ اس سلسلے میں غالب کی ایک سو پچاسویں برسی کے موقع پر خالد ندیم کی تالیف آپ بیتی مرزا غالب شائع ہو گئی ہے۔
      المختصر  غالب کے خطوط اردو نثر میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں اور اردو ادب کے عظیم نثر پاروں میں شمار ہوتے ہیں کیونکہ یہ خطوط فطری اور بامعنی ہیں۔ انہوں نے القاب و آداب غائب کر دیے ہیں۔ اور ان میں ڈرامائی عنصر شامل کر دیا ہے۔ اُ ن کا اسلوب خود ساختہ ہے۔ وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو بیان کرنے کا سلیقہ جانتے ہیں۔ مشاہدہ بہت تیز ہے۔ منظر نگاری خاکہ نگاری میں بھی ملکہ حاصل ہے اُن کے خطوط کی سب سے بڑی خصوصیت لہجہ کی شیرینی اور مزاح کی خوش بینی، ظرافت اور مزاح ہے۔ جس میں ہلکی ہلکی لہریں طنز کی بھی رواں ہیں۔ جبکہ یہی خطوط ہیں جو اردو ادب کے کئی اصناف کی ابتداءکا موجب بنے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غالب کو اگر شاعری میں ایک انفرادی حیثیت حاصل ہے تو نثر میں بھی وہ ایک الگ اور منفرد نام رکھتے ہیں۔
SHARE

Milan Tomic

Hi. I’m Designer of Blog Magic. I’m CEO/Founder of ThemeXpose. I’m Creative Art Director, Web Designer, UI/UX Designer, Interaction Designer, Industrial Designer, Web Developer, Business Enthusiast, StartUp Enthusiast, Speaker, Writer and Photographer. Inspired to make things looks better.

  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
  • Image
    Blogger Comment
    Facebook Comment

0 comments:

Post a Comment