سودا کی قصیدہ نگاری
Mir Iqbal
سودا اور ذوق دونوں نے اردو قصیدے پر طبع آزمائی کی ہے۔ ان دونوں کی شاعری میں انفرادیت ہے۔ لیکن سودا اس میدان میں ذوق سے سبقت لے گئے ہیں ۔ سودا نے پہلی بار فارسی کے طرز پر قصیدے کہے ۔مرزا محمد رفیع سودا کو شمالی ہند کا پہلا باقاعدہ قصیدہ نگار تسلیم کیا جاتا ہے۔ انہوں نے قصیدے کو نئی راہ اور نئی سمت عطا کی۔ سودا نے اپنے قصیدوں کو فارسی کے طرز پر لکھنا شروع کیا۔ ان کے قصائد اتنے مقبول ہوئے کہ انہیں تمام قصیدہ گویوں کا سرتاج گردانا گیا۔ مصحفی نے " تذکرہ ہند“ میں سودا کو " اردو قصیدے کا نقاش اول " قرار دیا ہے۔ محمد حسین آزاد سودا کے متعلق ’’ سودا قصیدہ گوئی میں فارسی شہسواروں کے ساتھ عناں در عناں ہی نہیں بلکہ اکثر میدانوں میں آگے نکل گئے ہیں‘‘۔ اسی طرح کی رائے امداد امام اثر سودا کے بارے میں رکھتے ہیں کہ "سودا کے اردو قصائد فارسی کے بڑے بڑے استادوں کے ٹکر کے ہیں۔" سودا نے تقریباً ۵۴ قصائد لکھے ہیں جن میں انکے مدحیہ قصائد اور ہجو یہ قصائد شامل ہیں۔ سودا کے مشہور قصیدوں کے نام تضحیک روزگار ، صباح عید ہے اور یہ سخن ہے شہرہ عام ، ہوا جب کفر ثابت ہے وہ تمغائے مسلمانی وغیرہ ہیں۔اردو قصیدے کے نام کے ساتھ ہی سودا کا نام فوری طور پر ذہن میں آتا ہے ۔ سودا کو بلاشبہ اس میدان میں اولیت کا درجہ حاصل ہے ۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے قصیدے کی روایت کو مضبوط کیا بلکہ اردو قصیدے میں بعض اضافے بھی کئے ۔ موضوع اور فن کے اعتبار سے بھی سودا نے قصیدے کو بہت کچھ دیا۔سودا کا شمار اردو کے بلند پایہ قصیدہ نگار شعراء میں ہوتا ہے۔ سودا کی عظمت کا اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ انہی کے قصیدوں سے اردو قصیدہ نگاری ایک نئے موڑ میں داخل ہوتی ہے اردو قصیدہ کوپہلی بار سودا کی بدولت بلند مقام ملی۔ سودا نے اردو قصیدہ کو ایک بھر پور اور توانا روایت سے آشنا کیا اس میں نئے مضامین کا اضافہ کیا نئے خیالات ، نئے موضوعات داخل کئے اور ممکن حد تک اس کی حدود وسیع سے وسیع تر کر دیں ۔ سودا کی کلیات میں مدحیہ اور ہجویہ دونوں طرح کے قصائد ملتے ہیں۔ سوداکے قصیدوں کے ممدوح پیغمبر اسلام ، حضرت فاطمہ ، حضرت علی ، عالمگیر ثانی، شاہ عالم ، آصف جاہ، شجاع الدولہ، آصف الدولہ ، نواب نسبت خان وغیرہ اور اودھ کے انگریز ریڈنٹ رچرڈسن وغیرہ ہیں ۔اردو کے تما م محققین و ناقدین سودا کے قصائد کی عظمت کا اعتراف کرتے ہیں۔ بعض لوگ تو سودا کے قصائد کے اس حد تک مداح ہیں کہ انہیں بنیادی طور پر قصیدہ گو شاعر مانتے ہیں اور اُن کے قصیدے کو غزل پر ترجیح دیتے ہیں ۔ یہ رجحان سودا کے زمانے میں بھی تھا۔ جس کا سودا کو احساس تھا چنانچہ سودا خود لکھتے ہیں۔۔۔لوگ کہتے ہیں کہ سودا کا قصیدہ ہے خوبان کی خدمت میں لئے میں یہ غزل جائوں گاشیفتہ ”گلشن بے خار“ میں لکھتے ہیں،” عوام میں جو یہ مشہور ہے کہ سودا کا قصیدہ غزل سے بہتر ہے مہمل بات ہے۔ فقیر کے خیال میں اس کی غزل قصیدے سے بہتر ہے اور قصیدہ غزل سے ۔“آئیے اب سودا کی قصیدہ نگاری ، فنی اعتبار سے پرکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ہم جانتے ہیں کہ قصیدے کی ابتداءمطلع سے ہوتی ہے ، قصدے کی فنی خوبیوں اور خامیوں کا انحصار مطلع پر ہے اور یہ بات سودا کو بخوبی معلوم ہے اور اس پر انہوں نے ہنرمندی سے عمل بھی کیا ہے۔سودا نے اپنے قصیدوں کے مطلعے دلکش اور پر جدت خیال اور جدت بیان سے ایسی ندرت اور ایسی شیفتگی پیدا کردی ہے کہ سننے اور پڑھنے والے متاثر ہو جائے۔ سودا مطلع نگاری میں ماہر ہیں ان کے مطلعے اس فن پر پورے اُترتے ہیں اور کامیابی سے تاثر پیدا کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر سرفراز الدولہ کی شان میں لکھے گئے قصدے کے مطلع کو دیکھیے جس میں جدت نے لطف پیدا کر دیا ہے۔صباح عید ہے اور یہ سخن ہے شہرہ عام جلال دختررز بے نکاح و روزہ حرامحضرت فاطمہ کی مدح میں قصیدے کا مطلع کچھ یوں ارشاد فرماتے ہیں کہ۔۔۔۔بکھرے سے اپنے زلف کے پردے کو تو اُٹھاابر سیہ میں ماہ درخشاں کو مت چھپاتشبیب قصیدے کی تمہید ہوتی ہے ۔ اکثر و بیشتر تشبیب کا مدح سے کوئی تعلق نہیں ہوتا چونکہ اس میں ہر طرح کے موضوعات کی گنجائش ہے۔ اس لئے شعراء کو اپنی قابلیت کے اظہار اور قادر الکلامی کے جوہر دکھانے کا پورا پورا موقع ملتا ہے۔سودا کی بعض تشبیبیں بہاریہ ہیں، بعض رندانہ ، بعض عاشقانہ ، بعض میں شکایت زمانہ ہے بعض میں حکیمانہ و اخلاقی نکات ، بعض میں شاعرانہ تعلی ہے ۔ یہ تشبیبیں بجائے خود چھوٹی چھوٹی نظمیں تصور کی جا سکتی ہیں جن میں موضوع کی وحدت ہے اور سودا کا فن اپنے عروج پر نظر آتا ہے۔سودا کی وہ تشبیب بہت دلکش ہوتی ہے جس میں وہ قناعت اور خوداری کی تعلیم دیتے ہیں۔ وہ خود ایک خودار انسان تھے اس لئے ان کے اخلاقی اشعار محض رسمی نہیں ہیں۔سودا کے قصیدے کی تشبیب کے دو اشعار اسی ضمن میں دیکھیے۔خوشامد کب کریں عالی طبیعت اہل دولت کینہ جھاڑے آستیں کہکشاں شاہوں کی پیشانیاکیلا ہو کے رہ دنیا میں گر چاہے بہت جیناہوئی ہے فیض تنہائی سے عمر خضر طولانیتشبیب اور مدح کے درمیانی کڑی کو گریز کہتے ہیں۔ تشبیب اور مدح کے درمیان غیرمحسوس جوڑ لگانا گریز کہلاتا ہے۔ اس میں شاعر کی قادرلکلامی کا پتہ چلتا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سودا ایک قادرالکلام شاعر ہیں جنہوں نے ہنر مندی کے ساتھ گریز کا استعمال کیا ہے اور کم سے کم لفظوں میں زیادہ سے زیادہ بات کہہ کر قصیدے کے ایک اہم جز گریر کو چار چاند بخشا ہے۔ ایک قصیدہ جو حضرت علی کی شان میں ہے، اس کی تشبیب میں معشوق کی بے وفائی کا گلہ کرتے ہوئے حضرت علی کی مدح کی طرف آنے میں گریز کا حسن ملاحظہ فرمائیے۔۔۔۔فریاد کروں کس سے رواداری کی تیرےکہنے کے لئے گبر ُ و مسلماں ہے برابرنالش کروں اب واں کہ جہاں حق بطرف میںمور و ملخ و دیو و سلیماں ہے برابرگریز کے بعد قصیدے کا ایک اہم جز مدح کہلاتا ہے۔ قصیدہ دراصل کسی کی مدح کے لئے لکھا جاتا ہے۔ اس لئے شاعر اپنی ساری فنی و شعوری طاقتاس میں صرف کرتا ہے۔ اس میں شاعر ممدوح کے جلال و جمال ، عظمت و بزرگی ، شجاعت و جرا ت اور عدل و انصاف کی تعریف کرتا ہے۔ جو قصیدہ نعت و منقبت کے رنگ میں ہو تو اس میں ممدوح کے مزار اور روضہ کی بھی تعریف کی جاتی ہے۔ لیکن قصیدہ نگار کو مدح میں ایک بات کا لحاظ رکھنا پڑتا ہے کہ سلاطین ، اُمرا اور اہل دین کی مدح کے درمیان میں مناصب فرق قائم رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ سودا کے مدح میں یہ فرق مناصب قائم رہتا ہے۔ مثلاً ایک قصیدے میں رسول ﷺ کی مدح کرتے ہیں۔ وہ رسول اکرمﷺ کی عظمت اور تقدس کا ذکر کرتے ہیں۔ملک سجدہ نہ کرتے آدم خاکی کو ، گر اُس کیامانت دار نور احمدی ہوتی نہ پیشانیسودا کی کلیات میں مدحیہ اور ہجویہ دونوں طرح کے قصائد ملتے ہیں۔ سوداکے قصیدوں کے ممدوح پیغمبر اسلام ، حضرت فاطمہ ، حضرت علی ، عالمگیر ثانی، شاہ عالم ، آصف جاہ، شجاع الدولہ، آصف الدولہ ، نواب نسبت خان وغیرہ اور اودھ کے انگریز ریڈنٹ رچرڈسن وغیرہ ہیں ۔سودا نے حضرت امام حسین کی مدح میں اشعار کہے ہیں۔ چونکہ وہ شہید الشہدا ہیں اس لئے سودا نے زمین کربلا کی عظمت پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ دراصل سودا کی نظر میں ہر ممدوح کا مرتبہ رہا ہے۔ اس لئے انہوں نے بیشتر حالات میں ان کی خصوصیات کا ذکر کیا ہے۔ مذہبی قصائد میں جتنا بھی مبالغہ ہو وہ مناسب ہوتا ہے۔ کیونکہ بزرگانِ دین کے مرتبے بلند ہوتے ہی ہیں لیکن بادشاہوں اور وزیروں کے مرتبے ان کے مقابلے میں پست ہیں لیکن قصیدہ گوئی کا مفہوم ہی مبالغہ آمیز مدح ہے۔ اس لئے سودا اس فن کے لوازمات سے مجبور تھے۔سودا کے قصائد میں مختلف لوگوں کے مختلف خصوصیات کابیان ہے۔ شجاع الدولہ کے عدل پر قصیدہ لکھا تو آصف الدولہ کی مدح میں بھی قلم اُٹھا یا ۔ آصف الدولہ کے بارے میں ضرب المثل مشہور ہے۔” جس کو دے مولا ، اس کو دے آصف الدولہ“سودا کی قصیدہ گوئی میں اہم خوبی یہ ہے کہ اپنے دور کے حالات کی عکاسی کرتی ہے۔ اس لئے تاریخی نقطہ نظر سے سودا کی مدح کی بہت اہمیت حاصل ہے۔قصیدے کا آخری جز حسن طلب و دعا کہلاتا ہے ۔ اس میں شاعرممدوح اور اس کے احباب و اقرباء کو دعا دیتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بددعا دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اپنا مدعا بھی بیان کرتا ہے۔ یہ بالکل رسمی چیز ہے۔ سودا نے بھی اس رسم کو برتا ہے۔ سودا ایک قصیدے میں عالمگیر ثانی کو یوں دعا دیتے ہیں۔سودا کرے ہے ختم دُعائیہ پر سخناس جا نہیں ہے طول سخن مقتضائے دابباس تخت پر بہ مسند اقبال بیٹھ کرکرتا رہے تو شادی نور روز ای جنابالمختصر سودا قصیدہ نگاری کے بادشاہ ہیں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سودا کے قصیدوں میں مبالغہ موجود ہے لیکن ذوق سے کم۔ سودا سے واقعہ نگاری اور مصوری سے کام لیتے ہیں اور ان کے ہاں بعض تشبیہات تو نہایت سادہ اور فطری بھی ہیں۔ گویا قصیدہ نگاری کا فن سودا کے ہاں بالکل فطری ہے۔ اردو قصیدہ میں سودا کا نام اسی طرح ہے جس طرح جسم کے لئے دل۔ڈاکٹر رام بابو سکسینہ ”تاریخ ادب اردو “ میں فرماتے ہیں،” ان کے قصائد بڑے بڑے فارسی استادوں کے قصائد کے ٹکر کے ہیں اور بعض تو عرفی و خاقانی کے قصیدوں کو بھلا دیتے ہیں ۔ “سودا اور ان کی قصیدہ نگاری کی عضمت پر امام اثر کا یہ قول ہی کہنا کافی ہونا چاہیے کہ۔۔۔” اردو میں جو کچھ ہیں سودا ہیں۔ اگر سودا نہ ہوتے تو اردو قصیدہ نگاری کو زیر بحث لانا فضول ہوتا۔“
0 comments:
Post a Comment