ناصر کاظمی کی غزل گوئی
میر اقبال
ناصر کاظمی کا پورا نام سید ناصر رضا کاظمی تھا جو 8 دسمبر 1925 کو انبالہ میں پیدا ہوئے۔ والد چوں کہ فوج میں صوبیدار میجر تھے اس لیے ناصر کاظمی کو ان کے ساتھ کئی مقامات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ انبالہ، پشاور، شملہ اور لاہور میں تعلیم حاصل کی۔ پڑھنے لکھنے سے چوں کہ بے پناہ دلچسپی تھی اس لیے وہ اکثر اول آتے تھے ۔ جس زمانے میں وہ بی اے کر رہے تھے، تقسیم ہند کا سانحہ رونما ہوا اور پاکستان بنے کے بعد وہ لاہور نالگالی آگئے۔ یہاں شروع میں ایک عالی شان کوٹھی میں قیام کیا لیکن ایک دو مہینے کے بعد اسے خالی کرنا پڑا والد ریٹائر ہو چکے تھے اور جلد ہی وہ انتقال کر گئے ۔ مالی دشواریوں کا سامنا تھا اس لیے والدہ کے زیورات بیچ بیچ کر گزارہ کرنے لگے ۔ ان کی والدہ ناصر کاظمی کی بے کاری اور آوارگی پر بہت کڑھتی تھیں ۔ ایک دن اسی فکر میں وہ اس دنیا سے چل بسیں۔ ایسے میں ناصر نے صحافتی کام کرنا شروع کیا۔1950 سے 1951 تک وہ اور اق نو کے مدیر رہے۔ 1952 سے 1957 تک وہ ”ہمایوں“ کے مدیر رہے اور 1957 میں. وہ خیال“ کے مدیر مقرر ہوئے ۔ 1964 میں وہ ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہو گئے اور اخیر تک اس سے وابستہ رہے۔
ناصر کاظمی کی تقریباً پوری زندگی دشواریوں سے بھری ہوئی ہے۔ مخصوص سیاسی اور سماجی فضا میں پیدا ہونے اور پروان چڑھنے کی بنا پر ان کی نفسیاتی زندگی ایک خاص رنگ میں رنگ گئی تھی۔ وہ رنگ تھا احساس محرومی“۔ یہی وجہ ہے کہ وہ میر تقی میر کے مداح تھے ۔ انھوں نے حفیظ ہوشیار پوری کی ویگھور کر میں غزلیں لکھیں تقسیم ہند کے المیہ نے ان کے خوابوں کو تہس نہیں کر ڈالا تھا۔ ہجرت کا واقعہ ناصر کاظمی کی زندگی کا سب سے بڑا اور حیات شکن واقعہ ہے۔ ان کے شعری مجموعے اور دیگر تخلیقات مذکورہ حالات و واقعات کی زبر دست عکاس ہیں۔ ناصر کاظمی کا سب سے پہلا شعری مجموعہ "برگ نے" جو غزلوں پر مشتمل ہے، 1952 میں منظر عام پر آیا۔ علاوہ ازیں دیوان (غزلیں، 1972)، پہلی بارش (غزلین، 1975)، نشاط خواب (نظمیں، 1977)، سر کی چھایا ( منظوم ڈرامہ، 1981) اور خشک چشمے کے کنارے ( نثر 1982 ) ناصر کاظمی کی قابل ذکر تخلیقات ہیں۔
تقسیم ہند (1947) کے بعد جن اردو غزل گو شاعروں نے دنیائے غزل میں اپنا سکہ جمایا، ان میں ناصر کاظمی کا نام سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے۔ بچپن میں گھڑ سواری، شکار کرنا، ندی کے کنارے گھومنا، پہاڑوں کے نظارے کرنا ، شطرنج کھیلنا، چڑیوں سے پیار کرنا، پودوں سے دلار کرنا، ناصر کاظمی کے پسندیدہ شوق تھے لیکن تقسیم ہند کے بعد جس طرح کے حالات پیدا ہوئے ان میں وہ اپنے مذکورہ شوق سے محروم ہو گئے تھے۔ جلتے گھروں، اجڑ تے شہروں ہتی عصمتوں اور سڑتی لاشوں سے وہ گزر کر جب لاہور پہنچے تو وہاں کی انہی فضاؤں نے اکیلا پن ، تنہائی اور اداسی کا عذاب دیا۔
یہاں ان کی زندگی کا بیشتر حصہ بے روزگاری، آوارگی ، شب خیزی اور لا پرواہی میں گزرا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی غزلوں میں اس کی عکاسی ملتی ہے۔ ناصر کاظمی کھانے ، گھومنے اور زندگی کو مزے لے لے کر گزارنے کو ہی اصل زندگی سے تعبیر کرتے تھے۔ اگر چہ حالات کےزیراثر ان کی غزلوں میں حزنیہ نے پائی جاتی ہے لیکن ان کی زیادہ تر شاعری رومانی خوشیوں پر مشتمل ہے جس میں امید کا پہلو حاوی ہے۔ چناں چہ عشق اور محبت کی مختلف کیفیات کا بیان جو غزل کے اہم عناصر ہیں، ناصر کاظمی کی غزلوں کی امتیازی خصوصیت ہے۔ناصر کاظمی کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ عشقیہ جذبات کو سادگی اور سچائی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
ناصر کاظمی نے 1940ء میں شعر کہنے شروع کیے۔ آغاز میں وہ اختر شیرانی سے متاثر تھے اور ان کے اُسلوب میں رومانی نظمیں لکھنا شروع کیں۔ اس کے بعد وہ غزل کی طرف آئے، جو بعد میں ان کا اصل میدان ٹھہری ۔ وہ میر تقی میر اور حفیظ ہوشیار پوری کے بہت بڑے مداح تھے اور ان کی غزلوں میں ان دونوں شعرا کی پر چھائیاں ملتی ہیں۔ ناصر کاظمی نے کئی شعری مجموعے تخلیق کئے، جن میں "برگ نے، دیوان، پہلی بارش، نشاط خواب کے علاوہ سر کی چھایا ( منظوم ڈرا ماکتھا)، "خشک چشمے کے کنارے “ ( نشر، مضامین، ریڈیو فیچرز، اداریے) اور ناصر کاظمی کی ڈائری“ شامل ہیں۔ ناصر کاظمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لاہور کے ٹی ہائوس میں بیٹھا کرتے تھے اور مال روڈ پر دوستوں کے ساتھ پھرا کرتے تھے۔ انہیں درختو نسے بڑی محبت تھی۔ ان کی شاعری کا اہم ترین و صف سادہ اور سلیس زبان کا استعمال ہے۔
ان کی شاعری میں ہمیں درد، اداسی اور مایوسی کے ساتھ خوشی، جذباتی محبت اور پھر کمال کی رجائیت بھی ملتی ہے۔ درد اور صدمے کی جو کیفیات ہمیں ناصر کاظمی کی شاعری میں جابجا ملتی ہیں، وہ دراصل تقسیم ہند کا شاخسانہ تھا۔ ہجرت کا جو تجربہ انہوں نے حاصل کیا اس کی اپنی جہتیں ہیں۔ منیر نیازی کی شاعری میں ہجرت کا تجربہ خوف اور دہشت کی صورت میں ملتا ہے۔ انہوں نے بلائیں، چڑیلیں اور ہوا کو خوف اور دہشت کے استعارے بنا کر پیش کیا۔ ناصر کاظمی کے شعری محاسن میں نکتہ آفرینی اور فطری حقائق کی لاجواب عکاسی بھی شامل ہیں۔ نکتہ آفرینی کے حوالے سے ذرا یہ شعر ملاحظہ کیجئے؎
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تیری یاد تھی اب یاد آیا
ناصر کاظمی مایوسیوں کے اندھیروں میں امید کی شمع جلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان کی غزل کا مشہور مقطع ان کے اسی شعری رویے کا غماز ہے؎
وقت اچھا بھی آئے گا ناصر
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
ناصر کاظمی کی شاعری میں ہمیں وہ الفاظ بھی اچھی خاصی تعداد میں مل جاتے ہیں، جو ان سے پہلے کسی دوسرے شاعر کی لغت
میں نظر نہیں آتے ۔ شعر ملاحظہ کریں؎
نئے کپڑے بدل کر جائوں کہاں
اور بال بنائوں کس کیلئے
اردو میں بعض شعرا ایسے ہیں جو ہندستانی کلچر سے گہرے طور پر وابستہ رہے ہیں ان میں محمد قلی قطب شاہ ، نظیر اکبر آبادی اور فراق گورکھپوری نمایاں ہیں۔ ناصر کے معاصر شاعر میراجی نے ہندوستانی کلچر اور دیو مالا کے ساتھ ساتھ موسموں ، جنگلوں اور لوگوں سے رشتہ قائم رکھا تھا۔ ناصر کی شاعری کی ایک اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ بر صغیر ہند و پاک کی مٹی سے جڑے ہوئے ہیں ، وہ زمین پر رہ کر موسموں ، رنگوں ، آوازوں اور خاموشیوں سے پیار کر تے ہیں ۔ وہ دوہوں ، بھجن ، گیت کے ساتھ ساتھ ، سماجی تہواروں اور تہذیبی رشتوں سے منسلک ہیں ۔ ذیل کے اشعار میں گلی ، دیا ، خالی کمرہ ، جنگل ، پیڑ اور پتے ایک دلچسپ تہذیبی فضا کو پیش کرتے ہیں۔
تیری گلی میں سارا دن
دکھ کے کنکر چنتا ہوں
میرا دیا جلاۓ کون
میں ترا خالی کمرہ ہوں
ان کی شاعری میں ہمیں کئی جگہ ایسی صور تحال ملتی ہے جہاں وہ تجرید کو حقیقت کی شکل میں دیکھتے ہیں۔ یہ عمل اپنی جگہ تخلیقی بھی ہے اور اثر انگیز بھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسی امیجری کو معرض وجود میں لاتا ہے کہ انسانی ذہن اس کے تانے بانے ملاتا رہتا ہے۔ اس عمل کی اس شعر سے بہتر کیا مثال ہو سکتی ہے!
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
ہمارے کچھ جدید افسانہ نگار حقیقت کو تجرید کی سطح پر دیکھتے ہیں، لیکن شاعری میں تجرید کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کی صلاحیت بھی انتہائی قابل تحسین اور اثر آفریں ہے۔ ہمیں یہ وصف ناصر کاظمی کی شاعری میں انتہائی شاندار انداز میں ملتا ہے۔ ان کی شاعری کا ایک اور بڑا و صف بھی قابل غور ہے اور وہ ہے سہل متمنع جسے انگریز میں "ڈیسپٹیو سمپلی سٹی مہا جاتا ہے۔ اس عمل کو وہ بہت خوبصورتی سے اپنی چھوٹی بحر کی غزلوں میں ہمارے سامنے پیش کرتے ہیں:
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
ناصر کاظمی کی شاعری کا ایک پہلو یہ ہے کہ وہ ماضی کی یادوں کو بھلا نہیں سکتے ۔ کئی شعر ایسے گزرے ہیں جو ماضی سے ذہنی اور جذباتی
رشتہ رکھتے ہیں اور حال کے انتشار اور درد و کرب سے نجات پانے کی سعی کرتے ہیں۔ اقبال کے یہاں ماضیت " کھائیں ہوؤں کی جستجو " بن جاتی ہے۔کیٹس عہد وسطی کے رنگین محلوں اور خوب صورت عورتوں کی طرف مراجعت کرتا ہے۔ غالب کو بھی ماضی سے لگاؤ ہے ؎
یاد تھی ہم کو بھی، رنگا رنگ بزم آرائیاں،
وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں،
ناصر کے یہاں " پرانی صحبتیں " احساس زیاں کو جنم دیتی ہیں :
پرانی صحبتیں یاد آرہی ہیں
چراغوں کا دھواں دیکھا نہ جائے
آنکھوں میں چھپائے پھر رہا ہوں
یادوں کے بجھے ہوئے سویرے
اس حقیقت سے کیا کوئی انکار کر سکتا ہے کہ انسان کا دل ویران ہو، تو اسے ہر طرف ویرانی ہی نظر آتی ہے۔ ہر شاعر کے پاس زندگی کے مختلف رنگ ہوتے ہیں، جنہیں وہ وقفے وقفے سے اشعار کی شکل میں ڈھالتا رہتا ہے ۔ 2 مارچ 1972ء کو ہمارا یہ شاعر عالم جاوداں کو سدھار گیا اور اپنے لا تعداد مداحین کو بھی اداس کر گیا؎
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
وہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
صدار ہے اس کا نام پیارا سنا ہے کل رات مر گیا وہ
0 comments:
Post a Comment