میتھیو آرنلڈ کی تنقید نگاری
میتھیو آرنلڈ کی پیدائش ۲۴ دسمبر ۱۸۲۲ء کو للہم (یوکے) میں ہوئی تھی۔ اور ان کی وفات لیورپول ( یوکے) میں ۱۸۸۸ میں ہوئی تھی۔ اس کے والد کا نام تھامس آرنلڈ تھا۔ تھامس معاصر دور کے جانے مانے ماہر تعلیم تھے۔ وہ کھیل کا بھی ذوق رکھتے تھے اور رگبی کے ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے مشہور ہوئے تھے۔ والد کی زندگی اور ان کے احوال کا آرنلڈ پر گہرا اثر پڑا تھا۔
میتھیو آرنلڈ صرف ایک شاعر ہی نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر وہ ایک منفرد تنقید نگار کی حیثیت سے ممتاز رہے ہیں۔ مغربی ادب میں جب لانجائنس اور کولرج جیسے ناقدین رومانوی انتشار کا شکار ہوگئے تھے ، رومانیت اپنی انتہاں میں جس انتشاری کیفیت سے دوچار ہوا۔ اس وقت آرنلڈ نے اپنی تنقیدی نظریات پیش کیے۔ شاعری کا مطالعہ ، تنقید کا منصب ، کلچر اینڈ انارکی وغیرہ میتھیو آرنلڈ کی تصانیف ہیں۔
آرنلڈ روایت کلاسیک اور تہذیب کا دلدادہ تھا اور اس سلسلے میں اس نے جن مباحث کا آغاز کیا ان کی گونج آج بھی ادبی فضا میں موجود ہے اور اس مکتبہ فکر کا پروردہ ٹی ایس ایلیٹ اہم نقاد مانا جاتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ کولرج کی طرح آرنلڈ کا شمار بھی ان ناقدین میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنے عہد کے مزاج کی بدل ڈالا۔ اسکاٹ جیمز کا کہنا ہے کہ آرنلڈ اتنا بڑا نقاد ہے کہ تقریبا پچاس سال تک ادبی فضا پر ان کے خیالات چھائے رہے ۔ اور ہربٹ پال کا یہ کہنا بھی بجا معلوم ہوتا ہے کہ
" آرنلڈ نے صرف خود ہی کتابوں پر تنقید نہیں کی بلکہ اس نے دوسروں کو بھی تنقید کرنا سکھایا۔ "
آرنلڈ کے تنقیدی نظریات کو سمجھنے کے لئے اس کے عہد کے حالات کو جاننا ضروری ہے کیونکہ وہ ادب کا تعلق زندگی سے جوڑتا ہے۔ اس لیے اس کے عہد کی زندگی کو سامنے رکھنا ضروری ہے۔ اس کے عہد کے سیاسی ، سماجی ، اخلاقی اور معاشی حالات اتنی بگڑ چکی تھی کہ ان کی اصلاح کے لیے آواز اٹھانا ضروری تھا۔ اس کا عہد جاگیردارانہ نظام کے باعث ابتری کا شکار تھا۔ چونکہ آرنلڈ اپنے آپ کو اسی عہد کا ایک عام فرد سمجھتا تھا ، اس لیے اپنے معاشرے کی ہر برائی پر کڑی نظر رکھتا تھا۔ ان کے دور میں غریب عوام محض مشکلات کا سامنا کر رہے تھے اور امیر اس پر ظلم کر رہے تھے۔ انگلستان میں مشینی زندگی کا دور دورہ تھا۔ خاص طور پر کوئلے کی پیداوار پر خاص توجہ تھی۔ مادری ترقی زوروں پر تھی۔ آرنلڈ کا خیال ہے کہ قومی عظمت محض ترقی سے نہیں ہوتی بلکہ اس کے لئے روحانی ی کاملیت کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اس نے اس مادیت پسندی کے اس دور میں رومانیت ، کلاسیکت ، تہذیب اور کلچر کے بنیادی اصولوں کا کا پرچار کیا۔ اس کے خیال میں زندگی جتنی مشینی ہوگی اتنی ہی غیر تخلیقی اور بنجر ہو گئی۔ اس طرح آرنلڈ مشینی زندگی اور جاگیرداروں کے خلاف ہے۔
ادب تنقید حیات ہے کا نظریہ آرنلڈ نے ہی پیش کیا تھا یہ نظریہ مغربی تنقید میں کافی اہمیت کی حامل ہے۔ ڈاکٹر سجاد باقر رضوی نے مغرب کے تنقیدی اصول میں لکھتے ہیں کہ
" میتھیو آرنلڈ کا کمال یہ ہے کہ اس نے ادب کو زندگی کے حوالے سے اور زندگی کو تنقید کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی۔ ادب کو تنقید حیات بنا کر اس نے ادب اور زندگی کے رشتے کو استوار کیا اور تنقید کو پوری زندگی کی تنقید کے عظیم منصب پر فائز کیا۔ "
آرنلڈ تنقید حیات کے نظریے کے تحت ادب کا رشتہ براہ راست زندگی سے جوڑتا ہے۔ وہ سماجی سطح پر زندگی کو تہذیبی ، اقدار اور روحانی عظمتوں کا حامل دیکھنا چاہتا ہے۔ ادب میں روایت اور کلاسک استفادہ کرنے کے سلسلے میں آرنلڈ کے بعد ایسا پختہ شعور صرف ٹی ایس ایلیٹ کے ہاں نظر آتا ہے۔
آرنلڈ ادبی سطح پر روایت اور کلاسیکیت کا پرچار کرتا ہے۔ سما ج کی بہتری کے لئے تہذیبی اقدار کے احیاءکو ضروری قرار دیتا ہے۔ دراصل آرنلڈ انسانی سطح پر زندگی گزارنے کا قائل ہے۔ وہ جسمانی ضروریات کو محض رواداری میں پورا کرنا چاہتا ہے ۔اس کاخیال ہے کہ کھانے پینے سے زیادہ انہماک ، کھیل ورزش لباس پر زیادہ توجہ غیر مہذب ذہن کی علامت ہے۔اس کے بجائے انسان کو ذہنی اور روحانی عظمت پر توجہ دینی چاہیے۔ تہذیبی تصورات کے لئے وہ انسانی فطرت میں حسن و عقل کی ضرورت پر زور دیتاہے۔ اگر کسی فرد کے ہاں یہ دو اعلیٰ اقدار متوازن صورت میں ہوں تووہ فرد معاشرے کے لئے بہترین ہوگا۔
آرنلڈ کے نزدیک تنقید کا مقصد یہ ہے کہ
" دنیا میں جو بہترین باتیں معلوم کی گئی ہیں جو کچھ دنیا میں بہتر سے بہتر سوچا گیا ہے تنقید کا کام اس کو جاننا معلوم کرنا اور دوسروں تک پہنچانا تاکہ نئے اور جدید خیالات تخلیق ہوسکیں۔"
آرنلڈ کے نزدیک ایک اچھا نقاد کو مبلغ اور معلم ہونا چاہیے۔ اپنے اس خیال کوعملی جامہ آرنلڈ نے اپنی زندگی میں ہی پہنایا تھا جب آکسفورڈ یونیورسٹی میں آرنلڈ کو اعزازی طور پر پروفیسر قرار دیا تھا۔ لاطینی زبان میں ادبیات پر لیکچر دینے کا رواج اس یونیورسٹی میں تھا ۔جن سے ایک مخصوص طبقہ ہی فیضیاب ہو سکتا تھا۔ آرنلڈ کا خیال تھا کہ لاطینی زبان صرف زبان علماء بن کر رہ گئی ہے اور انگریزی زبان سامعین کے لئے زیادہ مفید ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے انگریزی میں لیکچر دینے شروع کیے جو کہ ایک نئے طرز احساس کا پیش خیمہ ثابت ہوئے۔ اس سلسلے میں ان کا پہلا لیکچر ادب میں جدیدیت کا عنصر نہایت مقبول رہا۔
آرلنڈ کے نزدیک نقاد کے مقاصد مندرجہ ذیل ہو سکتے ہیں۔
نمبر ۱ :- ایک طرف تو خود تازہ علم حاصل کرتا ہے
نمبر ۲ :- دوسروں کو ادب کے بارے میں اور زندگی کے بارے میں بہترین خیالات سے سے مستفید کراتا ہے۔
نمبر ۳ :- تخلیقی اذہان کے لیے سازگار فضا پیدا کرتا ہے۔
آرنلڈ کے نزدیک نقاد ایک مشنری کی حیثیت رکھتا ہے اس کو تعصب سے بالاتر ہو کر اپنا کام کرنا چاہیے۔
آرنلڈ کے نزدیک عظیم شاعری موضوعات کی سنجیدگی اور اسلوب کے عظیم ہونے کا تقاضہ کرتی ہے۔ فن پارے میں اعلی سنجیدگی اور اعلی اسلوب کو برتنے کے سلسلے میں بہت دانتے ، ملٹن اور شیکسپیئر کے کلام کو بطور نمونہ پیش کرتا ہے ۔ اس کے خیال میں شاعری کو پرکھنے کے لیے شعراء کے ادبی نمونے اپنے کسوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آرنلڈ کے نزدیک اسلوب کی عظمت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب شعری صلاحیت رکھنے والی شریف فطرت کسی سنجیدہ موضوع کی پیشکش سادگی اور سنجیدگی سے کرتی ہے ۔
آرنلڈ ایک بہترین نقاد ہی نہیں بلکہ ایک اعلی درجے کا شاعر بھی تھا ۔ اس کی شاعری میں خاص مقصدیت نظر آتی ہے۔ اس کے نزدیک شاعری میں خاص مقصدہونا ضروری ہے۔ شاعری بلا مقصد صرف وقت گزاری ہے ۔ شاعر کو محض جذباتی عکاسی نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس کا ایک واضح مقصد بھی ہونا چاہیے۔ آرنلڈ معاشرتی مسائل شاعری کے ذریعے حل کرنا چاہتا ہے۔ آرنلڈ ایسی شاعری چاہتا ہے جو زمانے کے تقاضوں پر پورا اترے۔ وہ شاعر کو سوسائٹی کے تعلق سے دیکھتا ہے ۔ اس سے پہلے کبھی اتنے زور دار انداز میں ادب سے زمانے کے تقاضوں کو پورا کرنا پیش نہیں کیا گیا ۔
0 comments:
Post a Comment